ڈاکٹر منصور خوشتر
دربھنگہ بہار
9234772764
سیلف پبلیسیٹی کے اس دور میں کچھ تخلیق کار ایسے بھی ہیں جو چراغ کی طرح خاموشی کے ساتھ دنیائے ادب کو روشن و تاباں رکھے ہوئے ہیں۔ستائش کی تمنا اور صلے کی پرواہ سے بے نیاز ہو کر ادب کی خدمت کرنے والے ایک ایسے ہی عظیم تخلیق کار کا نام ہے آچار یہ شوکت خلیل۔آچار یہ شوکت خلیل شمالی بہار کے شہر دربھنگہ کے شاہ سوپن محلہ میں 17 مارچ 1942 میں پیداہوئے۔
آچاریہ شوکت خلیل نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا۔انہوں نے بے باک صحافت کی اور صحافت کی دنیا میں اپنا لوہا منوایا۔وہ ایک معروف افسانہ نگار اور منفرد ناول نگار ہیں۔انہوں نے اپنی صحافت سے سماج کے اندر جمی برائیوں کے خاتمے کے لئے ہر ممکن کوشش کیا اور بحیثیت صحافی دربھنگہ میں بہتر کام انجام دیا۔
جس طرح شاعروں کی بے انتہا تخیل کی پرواز ہوتی ہے اسی طرح شوکت خلیل کا قلم نثر کے وسیع آکاش میں بلند پروازی کے جوہردکھا تا ہے۔انہوں نے پندرہ ”روزہ آگ ”کا دریا ہندی اور اردو میں نکالا جو کافی مقبول ومشہور ہوا۔ جب انہوں نے ناول ”اگر تم لوٹ آتے” تحریر کیا تب ہر سو اس کےچرچےہونےلگے انہوں نے اس ناول میں زندگی کے اہم پہلو¶ں کو سامنے رکھا ہے۔تقریبا ڈھائی سو صفحات پر مشتمل اس ناول کو ایک نظریاتی ناول کہا جاسکتا ہے۔بعض وجوہ سے اسے نیم تاریخی یا پھر یک گونہ صحافتی نوعیت کا ناول بھی کہہ سکتے ہیں۔ آچاریہ شوکت خلیل متھلا مائنوریٹی ڈینٹل کالج کے فا¶نڈر ہیں اور آج یہ ادارہ بہار کے اہم تعلیمی اداروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کے لائق فرزند ڈاکٹر انبساط شوکت اپنے والد کے لگائے درخت کو پوری ایمانداری، طاقت اور توانائی سے چلانے میں کوشاں رہتے ہیں۔وہ اس کالج کو بہار کا اہم ڈینٹل کالج اور ہوسپیٹل بنانے میں مصروف ہیں۔ شوکت خلیل کی سرپرستی میں یہ ادارہ اپنی ترقی کی جانب گامزن ہے۔ آچاریہ شوکت خلیل کو شروع سے ہی افسانے سے دلچسپی تھی اور وہ ہائی اسکول کے تعلیم کے بعد ہی افسانہ نگاری کے میدان میں اپنے قلم کو جنبش دینے لگے۔ ان کا پہلا افسانہ ”لمبی سرنگ” انیس سو چون میں کلکتہ سے شائع ہونے والے روزنامہ آزاد ہند کے ادبی ایڈیشن میں شائع ہوا تھا۔ آچاریہ خلیل ان دنوں آزاد ہندسے وابستہ تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جدیدیت پروان چڑھ رہی تھی اور بہار میں جدید افسانہ نگاروں کی کھیپ تیار ہو رہی تھی، جس میں منظر کاظمی، وہاب اشرفی، احمد یوسف، شفیع جاوید وغیرہ قارئین ادب کو متوجہ کر رہے تھے۔ آچاریہ شوکت خلیل کے افسانے” پل”،کل کے بعد”،پیار رونا اور” یوسف کوچوان کا گھوڑا” نہ صرف خلیل کے شاہکار افسانے ہیں بلکہ اردو کے چند اچھے افسانوں میں شامل کئے جانے کے قابل ہیں۔ آچاریہ شوکت خلیل نے کچھ مضامین بھی لکھے اور انہوں نے یہ کوشش کی کہ اپنی راہ آپ نکالی جائے جو سب سے ہٹ کر بھی ہو اور مختلف بھی۔ وہ اس میں کامیاب ہوتے بھی نظر آئے۔ آچاریہ شوکت خلیل نے اپنے مضامین سے قاری کے دل میں اترنے کی بھرپور کوشش کی ان کے بارے میں معروف نقاد پروفیسر وہاب اشرفی نے لکھا ہے کہ ”آچاریہ شوکت خلیل کے اندر جو تخلیقی صلاحیت ہے اگر اس کو موصوف تسلسل کے ساتھ برقرار رکھتے تو عہد حاضر کے وہ نہ صرف اچھے فکشن نگار ہوتے بلکہ انکی دھاردار نثر غیر معمولی اہمیت کی حامل ہوتی۔”(دربھنگہ کا ادبی منظر نامہ اشاعت آگ کا دریا شمارہ 4 سن انیس سو اٹھاسی عیسوی) خلیل نے جن دنوں اپنی افسانہ نگاری کا آغاز کیا تھا اس وقت افسانہ نگاروں کے دو گروپ تھے۔ ایک گروپ ترقی پسند تحریک سے تعلق رکھتا تھا اور اپنے افسانوں میں شدومد کے ساتھ اشتراکی نظریے کو مستحکم کرنا چاہتا تھا دوسرا گروپ ترقی پسند تحریک سے متاثر تو تھا لیکن وہ شدت کا قائل نہ تھا۔جیلانی بانو، شوکت خلیل کے معاصرین میں اولین اہم ادیبہ ہیں آچاریہ شوکت خلیل کے قریب ترین ہم عصروں میں غیاث احمد گدی اور الیاس احمد گدی کے نام سر فہرست ہیں ان کے معاصرین میں اقبال متین کا نام بھی خاصا جانا پہچانا ہے۔ اقبال متین، اپنی کہانیوں میں ترقی پسند رجحان سے متاثر نظر آتے ہیں۔ اردو کے نامور محقق و ناقد شاداں فاروقی نے آچاریہ شوکت خلیل کی افسانہ نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”آچاریہ شوکت خلیل نہ صرف افسانہ کے فنی تقاضوں سے واقف ہیں بلکہ انہیں موضوع کو برتنے کا فن بھی خوب آتا ہے۔ انہوں نے اپنے افسانے میں فنکارانہ توازن برقرار رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کے افسانے” پل” اور ”لمبی سرنگ” کی زبان نہ صرف شگفتہ ہے بلکہ ان کے اسلوب کی شناخت بھی ہے۔(دربھنگہ کے افسانہ نگار تذکرہ بزم شمال1983.)
آچاریہ شوکت خلیل کے افسانوں پر بہت کم لکھا گیا ہے اس کی وجہ چاہے کچھ بھی رہی ہوں لیکن اس سے اتنا تو پتہ چلتا ہے کہ ناقدین ادب نے خلیل کے افسانوں کو اپنی گفتگو کے دائرے میں نہ لاکر ناانصافی کی ہے۔
آچاریہ خلیل نے اس ناول میں تحریک آزادی اور حصول آزادی کے بعد تقسیم وطن کے المناک واقعات کو پیش کیا ہے۔بقول ڈاکٹر قمر رئیس ” شوکت خلیل کے اس ناول میں ہندوستان کی تاریخ کے اسٹیج پر کھیلے جانے والے اس المیہ ناٹک کو کچھ ایسے کرداروں کے ساتھ دیکھانے کی کوشش کی گئی ہے جو ان کے جانے پہچانے ہیں اور ناول میں جن کی شناخت اپنے ماحول سے ہم آہنگ ہوتی نظر آتی ہے (حرف چند. اگر تم لوٹ آتے)
موضوع کے لحاظ سے آچاریہ شوکت خلیل کا ناول ”اگر تم لوٹ آتے” اپنی نوعیت کا ایک تاریخی ناول ہے جس میں ملک کی جنگ آزادی اور اس کے دوران رونما ہونے والے واقعات کو قصباتی مگر دلکش اور موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ ناول کے کردار نہ صرف سیاسی، سماجی، مذہبی اور معاشرتی زندگی کے آئینہ دار ہیں بلکہ ہندوستان کی بدلتی تقدیر کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔
اردو کے معروف ناقد، ڈاکٹر مشتاق احمد نے اپنے ایک مضمون” نئے امکانات کا ناول نگار آچاریہ شوکت خلیل اگر تم لوٹ آتے کی روشنی میں لکھا ہے کہ:
آچاریہ شوکت خلیل کو اردو ناول نگاری میں اگر کوئی مقام حاصل نہیں ہوسکا تو اس میں ناقدوں سے زیادہ ان کا اپنا قصور ہے کہ انہوں نے اپنے ناول اگر تم لوٹ آتے کو اردو دنیا میں اس طرح پروجیکٹ نہیں کیا جس طرح کیا جانا چاہیے تھا کیونکہ اگر تم لوٹ آتے موضوع اور کہانی سے قطعہ نظر تاریخی حقائق دلچسپ واقعات رنگین علاقائی زبان اور فنکاری کے لحاظ سے ایک اہم ناول ہے اردو ناول نگاری میں یہ قصباتی ناول کی نادر مثال ہے بالخصوص اچاریہ شوکت خلیل کا مخاطبانہ طرز اظہار ان کی منفرد شناخت کا ضامن ہے اگرچہ اس میں ایک خاص علاقے کی زندگی کی عکاسی کی گئی ہے لیکن حقیقتا یہ پورے ملک کی کہانی ہے۔ اس میں ماضی کا کرب ہے حال کا اضطراب ہے اور مستقبل کی فکر پریشان بھی ہے۔مجموعی طور پر آچاریہ خلیل کا یہ ناول موضوع اور تکنیک دونوں اعتبار سے عصری اردو ناول نگاری میں امتیازی حیثیت کا حامل ہے (بزم سہارا جنوری 2010)
اچاریہ شوکت خلیل عصر حاضر میں فکشن کا ایک معتبر نام ہے لیکن افسوس کہ انہیں وہ مقام حاصل نہ ہوسکا جس کے وہ مستحق تھے۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر مشتاق احمد کی رائے سے بالکل اتفاق کیا جا سکتا ہے یقینا آچاریہ شوکت خلیل کو بھی اس بات کا اندازہ ہے کہ سلف پراجیکشن کے اس دور میں وہ خود کو اس ماحول میں نہیں ڈھال سکے۔ اس ضمن میں ناول کے فلیب پر درج ان کی رائے ملاحظہ کیجئے۔۔۔
تقریبا چالیس سال قبل سہ ماہی ”ہمالہ” کا اشاعتی پروگرام لے کر جمشیدپور گیا تو میرے دوست منظر کاظمی نے بسٹو پور کی کسی لائبریری میں لکھاریوں کا ایک میلہ جمایا۔ میرے لئے عزت افزائی کا معاملہ یہ بھی تھا کہ اس میلے میں برادر محترم پروفیسر سید منظر امام اور پروفیسر احمد شمیم(جنہوں نے کسی زمانے میں میرے املے تک کی اصلاح کی تھی) میری ہمت افزائی کے لئے موجود تھے. شاید اس لیے بھی کہ اس وقت میں بہت نروس تھا۔ وہاں شمس فریدی بھی تھے اور جیسا کہ مجھے یاد آتا ہے سلطان اختر وہی جو ان دنوں قصیدے لکھ رہے ہیں، سے میری پہلی ملاقات اسی محفل میں کرائی گئی تھی اور سہ ماہی ہمالہ میں غالبا میں نے غزل کے ساتھ مونچھوں والی ان کی ایک عدد تصویر بھی چھاپی تھی اس موقع پر کسی نے مجھ سے پوچھ لیا کہ میں افسانے کیوں لکھتا ہوں۔ میں نے کیا جواب دیا آج یہ بات مجھے یاد نہیں رہ گئی ہے البتہ اتنا یاد ہے کہ اس وقت میری ادبی عمر کا جمع پانچ سال کی رہی ہوگی اور یقینا وہ اس طرح کا سوال پوچھے جانے کی عمر نہیں تھی مگر میں یہ سمجھ سکتا تھا کہ اس سوال میں سوال کم ہے خوشامد اور چاپلوسی زیادہ۔ خوشامدیوں اور چاپلوسوں کی جماعت اپنے پورے پھیلا¶ کے ساتھ آج بھی موجود ہے۔ اس نسل کا ایک گروہ سا کل بھی تھا۔ اور آج بھی دنیائے ادب میں اسی گروہ در گروہ کا بول بالا ہے۔ اور یہی وہ گر وہی لوگ ہیں جنہوں نے ہمارے بیشتر مدیران گرامی ناقدان ادب اور اردو اکیڈمیوں کے سربراہوں کی حالت کم بیوٹیفل لڑکیوں کو بیوٹی کوئین کا خطاب دے ڈالنے والے بازارحسن کے مسخروں جیسی بنا کر رکھ دی ہے چنانچہ ان حضرات نے بھی جہاں ایک طرف بو نوں کو باون گزی بنانے کی باضابطہ مہم چلا رکھی ہے
وہیں دوسری طرف خود ساہتہ اکیڈمی کا حال احوال بھی کچھ کم برا نظر نہیں آتا مگر مشکل یہ ہے کہ لاکھ چاہ کر بھی ان کی اصلاح ہمارے آپ کے بس میں نہیں ہے (اگر تم لوٹ آتے ” فلیپ اشاعت2003)
ناقدین ادب خاص طور سے فکشن تنقید پر کام کرنے والے لوگوں کو چاہیے کہ وہ عہد حاضر کے اس درے نایاب کے ادبی کارناموں سے نئی نسل کو روشناس کرائے ورنہ اندیشہ اس بات کا ہے کہ دوسرے بڑے تخلیق کاروں کی طرح آچاریہ شوکت خلیل کا تخلیقی ادب بھی ان کی زندگی کے ساتھ اپنا سفر تمام کرلے.