اعجاز اسد نوجوان نسل کے لیے مشعل راہ۔

0
0
تحریر لیاقت علی چودھری
بعض شخصیت اتنی ہمہ جیت اور آفاقی ہوتی ہیں کہ انہیں جس رخ سے دیکھیے مکمل نظر آئیں گے۔ ایسی ہستیاں ایک طویل عرصہ کے بعد وجود میں آتی ہیں اور علم و عمل زاہد و تقوی کا رقش مینار بن کر ساکنان عالم کے دل ودماغ کو روشن کردیتی ہیں اور قوم و علاقہ میں اپنی کاوشوں سے گہرے نقوش چھوڑ دیتے ہیں ۔ اور پھر یہ اوائل نسلوں کے لیے مشعل راہ بن جاتے ہیں ۔ اور زمانے کے لوگ اپنے بہترین ماضی کی  مثال پیش کرتے ہوئے مزید چار چاند لگانے کی کوشش میں رہتا ہے۔ ایسی شخصیتوں میں سے پیر پنچال کے سرحدی علاقہ کے ہندوستان کے مشہور و معروف شاعر، ہر علوم و فنون میں مہارت رکھنے والے ایک بہترین ادیب، شعلہ بیان مقرر، اخلاق سے لیس  ہندوستان کی تاریخ میں سنہرے لفظوں سے جن کا نام رقم ہے قوم کی خدمت کے لیے اپنے علم کے جوہر دکھاتے ہوئے میٹرو شہروں اور انگریزی اسکولوں کے طلبہ کو پچھاڑتے ہوئے سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور دورے میں پیدل سفر تہہ کر کہ حدمتارکہ پر تعلیم حاصل کرنے کے بعد پہلے آئی آئی ٹی اور پھر انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروسز میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے پیر پنچال کا نام روشن کرنے والے محترم المقام جناب  اعجاز اسد صاحب آئی اے ایس بھی ایک ہیں ۔ 
خطہ پیر پنچال ہمیشہ ادبی دنیا میں سرفراز رہا ہے ۔ خطہ کی پہچان کروانے میں یہاں کے دانشوروں، شاعروں اور ادیبوں نے ایک نمایا کردار ادا کیا ہے ۔ اس خطہ کو  تاریخ کے سنہرے اوراق میں رقم کرنے کے لیے جو کام محترم المقام جناب اعجاز اسد صاحب نے کیا ہے ان کا کوئی ثانی کہیں دکھائی نہیں دیتا ہے ۔ ایک طرف یہ ملک و قوم کی خدمات سرانجام دینے کے لیے  آئی اے ایس کرنے کے بعد اپنے سرکاری منصب پر ڈٹے ہوئے ہیں اور دوسری طرف یہ اپنے علم ، دانشمندی اور عقل سلیم کے ساتھ  پیر پنجال قوم اور نئی نسل کی تعمیر اور انہیں سہی سمت لے جانے کے لیے اور اپنے دل کی بات ان تک پہنچانے کے بہترین شاعری کا انداز اپنائے ہوئے ہیں۔ شاعری میں ان کے کلام پیش کرنے پر دنیا کے جانے مانے شاعر ادیب ادا کار جناب جاوید اختر صاحب انہیں بہترین شاعر کے القاب سے نوازتے ہیں۔  زمانہ حال کے اور دنیا بھر میں اپنے کلام سے لوہا منوانے والے شاعر جناب منور رانا صاحب بھی اعجاز اسد صاحب  کو جب اسٹیج پر سنتے ہیں تو انہیں بہترین مستقبل سے تشبیہ دیتے ہیں ۔ اس طرح اعجاز اسد صاحب کا مقام اپنے کلام کی بنا پر جس میں ذاتی تجربات پر ، اندرونی جذبات  اور موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جس بےباقی سے سماج کے سامنے حالات رکھنے کی پہل کر رہے ہیں اور اس میں سدھار کے ساتھ ساتھ ازسرنو تعمیر کی کوشش کر رہے ہیں یہ عنقریب کامیابی کی تمام منازل پار کرتی دکھائی دئے گی۔  ان کی حال ہی میں منظر عام پر آئی ایک تصنیف ” برگ زار ” جس میں ان کے بہترین فنکاری ہے ۔ ان کے اشعار جن میں سادگی بھی پائی جاتی نوجوان نسل کی ترجمانی بھی ہے۔ علاقائی و روئیتی خوبیاں بھی موجود ہیں ۔ آج کے  نفرت سے سرگرم بازار کی  اصلاح بھی ہے۔ انہوں نے اس کلام کے ذریعہ اپنے دل کا حال بھی پیش کیا ہے اور ہماری دیکھتی رگ پر ہاتھ بھی رکھا ہے۔ان کے اس دلکش اور دلنشین کلام پر نظر دوڑائی جاتی ہے تو انصاف کا تقاضہ یہی ہے ہماری زبان سے بے ساختہ الفاظ نکلتے ہیں  کہ ایک جواں سال شاعر جس کا کوئی متبادل دور دور تک دکھائی نہیں دیتا ہے اللہ تعالی انہیں دن دگنی رات چگنی ترقی عطا فرمائے ۔  اور یہ خطہ کا نام روشن کرنے میں ایک میل کا پتھر ثابت ہوں ۔ 
اعجاز اسد صاحب نہایت ہی نرم و حساس طبعیت کے مالک ہیں ۔ انہیں دیکھ کر ان کے انداز گفتگو اور اپنیت جھلکتی ہے ان کے منصب کو دیکھتے ہوئے کبھی کبھی یہ یقین ہی نہیں ہوتا ہے۔ کہ رواں دور میں ایسے بھی انسان دوست  لوگ پائے جاتے ہیں۔ جناب اعجاز اسد صاحب کو اللہ تعالی نے  ایسے القاب اور مقام عطا کیے ہیں جو شاید ہی کسی دوسرے شخص کو نصیب ہوئے ہوں ۔ اعجاز اسد صاحب خطہ پیر پنچال کے پہلے نوجوان ہیں جنہوں نے  آئی آئی ٹی کے ملکی سطع کے امتخان میں اچھے نمبرات کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔  اعجاز اسد صاحب نے ۲۰۱۲ میں ملکی سطع پر سیول سروسز  کے امتخانات میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے آئی اے ایس میں اپنا نام رقم کرویا ۔  جو حدمتارکہ پر رہنے والے اور ہند پاک کی گن گرج میں زندگی بسر کرنے والے نوجوانوں کے دلوں میں تعلیم محنت اور ہمت سے آگے بڑھنے اور کچھ کرنے کے لیے امیدیں پیدا اور جزبہ پیدا کرنے کی بنیاد تھی۔ جس کے بعد اس علاقہ کے بہت سے نوجوان  سیول سروسز میں کامیابی کا زینہ تہہ کرتے پائے گے۔ جنہوں نے علاقہ کا نام فخر سے روشن کیا۔ جناب اعجاز اسد صاحب ایک کامیاب ایڈمنسٹریٹر ہیں یہ لگاتار ضلع ترقیاتی کمشنر کے عہدہ پر فائز ہیں۔ یہ علاقہ کے واحد ایسے آئی اے ایس ضلع ترقیاتی کمشنر ہیں جنہیں راجوڑی اور پونچھ دو اضلاح میں کام کرنے کا موقعہ میسر ہوا ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے رام بن ضلح کی تعمیرترقی میں نمایا کردار ادا کیا جو نیا اضلاح وجود میں آیا تھا۔ اور ان کی ان تھک مخبت سے اس اضلاح کے لوگوں کو سہولیات مہیا کروانے کے لیے ایک اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اس کے بعد یہ ضلع شوپیاں کے ترقیاتی کمشنر تعینات ہوئے ۔ اس کے بعد یہ اپنے آبائی وطن ضلع پونچھ  کے لیے ضلح ترقیاتی کمشنر تعینات کیے گئے ۔ جہاں انہوں نے ایک قلیل مدت میں اہم کام سرانجام دیے اور بہت سے کاموں کی شروعات بھی کی جو آج عوام کے لیے سہولیات کا ذریعہ بنے ہویے ہیں ۔ خطہ پیر پنچال کو چند سیاست دانوں نے آپسی نفرتوں کی نظر کر دیا ہے۔ یہ نفرت صرف انہیں اپنی سیاسی مقاصد میں کامیاب ہو کر کرسی حاصل کرنے تک ہے ۔ لیکن اس کو یہاں کی غیور عوام سمجھ نہیں پائی اور عوام روز بروز زات برادریوں کے تعصب میں الجھتی نظر آرہی ہے۔ اس تعصب کے شکار اعجاز اسد صاحب بھی ہو گئے ۔ جس سے عوام پونچھ اور علاقہ کی تعمیر و ترقی کو زبردست زک پہنچا اور جس پختہ ارادے سے یہ آپنے لوگوں کے لیے کام سرانجام دینا چاہتے تھے یہ تمام ادھورے رہے اور پونچھ جو ریاست کا سب سے پسماندہ ضلح ہے یہ ایک بار پھر ترقی سے محروم ہو گیا۔ اس کے بعد اعجاز اسد صاحب ضلح راجوڑی کے لیے ترقیاتی کمشنر تعینات کیے گئے جہاں یہ تقریبا”ایک سال سے گورنر راج میں اپنی صلاحیتوں کی بنا پر ضلح کو ترقی پزیر بنانے کے لیے بہت سے منصوبے عمل میں لائے ہیں اور جن کے لیے رقومات بھی سرکار سے مہیا کروانے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ جہاں ایک طرف یہ علاقہ کی ترقی کو ترجیح دیتے نظر آرہے ہیں وہیں  دوسری طرف سماج سدھار اور بےراہروی کے چنگل سے بھی سماج کو آزاد کروانے کی زبردست کوششیں کیے جا رہے ہیں ۔ نوجوان نسل کو طرح طرح کی بدتوں سے دور کرنے کے لیے بیداری مہم بھی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ نسل کی سنہرے مستقبل کی بنیاد تعلیم پر مبنی ہوتی ہے شعبہ تعلیم ان کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے ۔ جس کا نتیجہ اس سال بارہویں جماعت کے سرکاری سکولوں  کے نتائج قابل مبارک ہیں بچوں نے پوزیشن اور ڈسٹنکشن حاصل کی ہیں ۔ جس کے لیے اساتذہ کرام بھی مبارک کے مستحق ہیں ۔ حدمتارکہ پر رہنے والے لوگ جن کی زندگی ترس کے قابل بنی ہوئی ہے۔  جب آر پار گولہ باری شروع ہو جاتی ہے ذاتی لگن کے ساتھ ان کی زندگیوں کو بچانے کے لیے پختہ بنکر بنانے  کے اعلی انتظامات کیے ہیں ۔ جس کے لیے یہ بےسہارہ سرحد پر رہنے والی عوام ان کے لیے دعا گو ہے۔ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں بابا غلام شاہ شاہ بادشاہ یونیورسٹی میں بچوں کا اور اساتذہ کرام کا آنا جانا رہتا ہے جس کے لیے یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے پیر پنچال کی عظیم شخصیت جناب مسعود چودھری صاحب پہلے وائس چانسلر بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کی ذاتی کاوشوں سے ایک سڑک کو مکمل کیا گیا تھا جو آج بھی ویسی ہی ہے اور اس پر سفر کرنے والے  خطرے سے خالی نہیں ہیں ۔ جس کو ڈبل لائن بنانے کی دیرانہ مانگ رہی ہے آج یہ سکیم جس کا ٹینڈر ۲۰ کروڈ کا نکل چکا ہے یہ بھی اعجاز اسد صاحب کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ محبوبہ مفتی کا دور اقتدار اس علاقہ کے ساتھ  عدم توجہی اور بربادی کا بڑا کارن رہا ہے ۔ جس سے علاقہ کئی دشک پیچھے دھکیل دیا گیا ہے ۔ اب دوبارہ سے اس کو منظرعام پر لانے کے لیے ایک عرصہ کی ضرورت ہے اور اعجاز اسد صاحب جیسے ایماندار آفیسر کی قیادت میں دن دگنی رات چوگنی ترقی ہو گی۔
 9419170548 Liaqat [email protected]

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا