مزدوری کی زد میں گم ہوتا بچپن

0
0

بشریٰ ارم
کسی امیر کی دہلیز پر جب بچپن آنکھیں کھولتا ہے تو اسکے ارد گرد موجود اسکے خیر خواہ ،اسکے ہمدرد،اسکے چاہنے والے اسکی آنکھوں میں سجنے والے خوابوں سے پہلے اسکی تعبیر کو اسکا مقدر بنا دیتے ہیں ، ہر طرف اسکے لئے دعائیں ہوتی ہیں ،اسکولگنے والی معمولی سی ٹھوکر پر سب کی آہیں نکل آتی ہیں ۔ یوں وہ خوش نصیب بچپن زندگی کی رونقوں کو سمیٹے اس دنیا میں پروان چڑھتا ہے ۔لیکن جب یہی بچپن کسی امیر کی دہلیز کے بجائے کسی غریب کی چوکھٹ پرجنم لیتا ہے تو آنکھوں میں صرف حسرتیں ہوا کرتی ہیں ، حسرت ہر اس چیز کیلئے جسے وہ چاہ تو سکتا ہے ،حاصل نہیں کر سکتا، آنکھیں خوابوںکا بسیرا تو ہو سکتی ہیں پر حقیقت کو اسکا مقدر نہیں بنا سکتیں ، ٹھوکریں اسے سمبھلنے کادرس تو دے جاتی ہیں پر اسکے درد پر آہ نہیں کرتیں۔
دنیا میں 150ملین بچے اپنی اور اپنے گھر والوں کی حیات کا بوجھ اٹھانے کیلئے بہت ہی کم عمر سے ہی اپنی زندگیوں کو مزدوری کے نام کر دیتے ہیں ۔بچوں کی مزدوری کے اعتبار سے ہندوستان کا دنیا میں دوسرا مقام ہے ۔ بچپن کھیلنے کودنے اور پڑھنے کیلئے ہوتا ہے مگر بھوک کی شدت اور زندگی کی ضروریات بچوں کو دوسروں کی چوکھٹ پر کھینچ لاتی ہے ، غریب والدین دو وقت کے کھانے کیلئے انہیں ہوٹلوں ، ڈھابوں ، فیکٹریوں اور گھروں میں کام کرنے کیلئے چھوڑ جاتے ہیں ،بچے معصوم ہوتے ہیں ان سے بہت آسانی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کام لیاجا سکتا ہے لہٰذا ہوٹلوں ، ڈھابوں ، فیکٹریوں اور خاص طور سے گھروں میں کام کروانے کیلئے بچوں کی مانگ کی جاتی ہے ، اکثر دیکھا جاتا ہے کہ دولت مند افراد اپنے بچوں کو سنبھالنے کیلئے غریب بچوں کا استعمال آیا کی صورت میں کرتے ہیں ، ایک بچے کو سنبھالتا بچپن نہ جانے کتنے ایسے سوالات کا جواب دے جاتا ہے جو کبھی لفظوں کی شکل اختیار نہیں کر پاتے،لیکن آنسوں بن کر آنکھوں سے ضرور بہتے ہیں۔ بچوں کا ذہن اس کاغذ کی مانند ہوتا ہے جس پر کچھ بھی لکھا جا سکتا ہے اور جب بچپن ڈر و خوف کے سائے میں دوسروں کی دہلیز پر گذرے جہاں ہر وقت ذہن اس احساس میں مبتلا رہے کہ کہیں کوئی غلطی مالک یا مالکن کی ناراضگی کا سبب بن ہم پر قہر کی طرح نہ نازل ہو توایسا بچپن حقارت بھرے رویے کی وجہ سے چڑ چڑے پن اور احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے ،سماج کیلئے نفرتیں اسکے اندر اکٹھا ہو جاتی ہیں جو اسکے قدم کو کسی بھی کرمنل ایکٹوٹی کی جانب با آسانی موڑ دیتی ہے ،بچپن میں معصوم ذہنوں پر ڈالے گئے دباﺅ اور کی گئی بد سلوکی انہیں بڑے ہوکر پر وقار شخصیت کا مالک نہیں بننے دیتی۔ زندہ رہنے کا بوجھ اٹھانے کیلئے جب کاپی ،کتاب کی جگہ پر بچپن اپنے ہاتھوں کو جھوٹی تھالیاں اور اوزار کی جکڑن میں قید کرتا ہے تو پھر وقت گزرتا ہے عمر بچپن کی دہلیز سے بڑھاپے کی جانب سفر کرتی ہوئی بڑھاپے کی چوکھٹ پر قدم رکھ دیتی ہے مگر ضرورتوں کا بوجھ شاید ہی کبھی اس جکڑن کی گرفت کو اسکے ہاتھوں پر کمزور ہونے دیتا ہے۔
سال 2011 میں ہوئے survey Census کے مطابق ہندوستان میں 5-14سال کے 43,53,247 بچے مزدوری کے کاموں میں ملوث پائے گئے ۔ 2001 کے موازنہ میں 2011میں بچوں کی مزدوری میں 20فیصد کی کمی پائی گئی ہے مگر یہ کمی تشفی بخش کمی نہیں کہی جا سکتی۔
ملک میں بچوں کی حفاظت کیلئے جوینائیل جسٹس(کیئر اینڈ پروٹیکشن ایکٹ)، فیکٹری ایکٹ ،رائیٹ آف چلڈرن ٹو فری اینڈ کمپلسری ایجوکیشن ، چائیلڈلیبر پروہیبشن اینڈ ریگولیشن ایکٹ ، اور آرٹیکل 21,،45، جیسے قانون موجود ہیں مگر پھر بھی بچوں کا بچپن ان سہولیات سے خالی نظر آتا ہے جو ایک خوشحال بچپن کی تصدیق کرتے ہیں ۔ بے روزگاری ،زندگی کے نہ ختم ہونے والے مسائل والدین کو بچوں سے کام کروانے کیلئے مجبور تو کرتے ہی ہیں مگر ہومین ٹریفکنگ جیسے غیر انسانی عوامل بھی غریب بچوں کے بچپن کو تباہ کرنے میں کوئی قصر باقی نہیں رکھتے۔ہومین ٹریفکنگ کا شکار زیادہ تر بچے خطرناک قسم کے کاموں میں ملوث کر د یے جاتے ہیں۔مزدوری میں ملوث 80 فیصد بچے گاﺅں کے علاقوں سے آتے ہیں ۔بہار ،اتر پردیش ، راجستھان ، مدھ پردیش اور مہاراشٹر کچھ ایسی ریاستیں ہیں جہاں مزدوری کرنے والے بچوں کی تعداد زیادہ پائی جاتی ہے ، 2011 میںاتر پردیش میں5-14سال کی عمر میں مزدوری کرنے والے بچوں کی تعداد 8,96,301تھی۔مڈڈے میل جیسی سرکاری سہولتیں اسکولوں میں بچوں کی تعداد تو بڑھا دیتی ہیں مگر انہیں وہ نیوٹریشن اور کوالیٹی آف ایجوکیشن نہیں دے پاتیں جو انکی زندگی کو بہترین بنائے۔

 

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا