’ہمیں میکہ بھی چاہئے اور سسرال بھی‘

0
0

ہمیں سیاست کا شکار نہ بنایا جائے:سابق جنگجوو¿ں کی پاکستانی بیویوں کی اپیل
یواین آئی

سرینگرسنہ 2010 میں اعلان شدہ سابق جنگجوو¿ں کی باز آباد کاری پالیسی کے تحت اپنے شوہروں کے ساتھ وادی وارد ہوئی پاکستانی خواتین نے اپنے مطالبات کو دہراتے ہوئے کہا ہے ‘ہمیں سیاست کا شکار نہ بنایا جائے بلکہ انسانی بنیادوں پر ہمارے مسائل حل کئے جائیں، ہمیں میکہ بھی چاہئے اور سسرال بھی چاہئے’۔انہوں نے مرکزی وزیر خارجہ سشما سوراج سے انہیں درپیش مسائل کی طرف توجہ مبذول کرنے کی اپیل ہوئے کہا کہ سشما سوراج خود ایک خاتون ہونے کے ناطے ہمارے درد کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتی ہیں۔پاکستانی خواتین کے ایک گروپ نے ہفتہ کے روز یہاں ایوان صحافت میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ‘ہم یہاں قریب ساڑھے تین سو پاکستانی خواتین ہیں جو اپنے شوہروں کے ساتھ یہاں براستہ نیپال آئیں، ہم عمر عبداللہ کے دور حکومت میں مرکزی حکومت کی طرف سے بنائی گئی ایک پالیسی کے تحت یہاں آئے ہمارے ساتھ بہت سارے وعدے کئے گئے، ہمیں شہریت، سفری دستاویز اور شناختی کارڑ فراہم کرنے کے وعدے کئے گئے لیکن 17 برسوں کا عرصہ بیت جانے کے باوجود بھی ابھی تک ہمارے ساتھ کیا گیا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا گیا نہ ہی ہمیں شہریت دی گئی اور نہ ہی سفری دستاویز فراہم کئے گئے’۔انہوں نے کہا کہ ہماری یہاں کوئی شناخت ہی نہیں ہے، ہمیں یہ سمجھ ہی نہیں آرہا ہے کہ ہم کہاں سے آئے ہیں اور کس جگہ پر ہیں۔انہوں نے کہا کہ جن لڑکوں کے ساتھ ہم نے شادیاں کی ہیں وہ کشمیر کے بیٹے اور ہندوستان کے شہری ہیں لہذا ہمیں بھی شہریت کا حق ملنا چاہئے جب تبتیوں کو یہاں شہریت مل سکتی ہے تو ہمیں کیوں نہیں مل سکتی؟ خواتین کے گروپ کی ایک نمائندہ نے کہا کہ حکومت نے سری نگر۔ مظفر آباد کاروان امن بس سروس جیسی کئی پالسیاں بنائی ہیں ہمارے لئے بھی اسی طرح کی ایک پالیسی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے میکے جاسکیں۔انہوں نے یہاں پاکستانی بہوو¿ں کی حالت زار بیان کرتے ہوئے کہا ‘ہماری بہت ساری خواتین یہاں اب مختلف ذہنی بیماریوں کی شکار ہوئی ہیں، وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے میلے نہیں جاسکیں، وہ اپنے عزیز واقارب سے نہ مل سکیں، ہم اپنے رشتہ داروں کو مل کر مرنے سے تو روک نہیں سکتے ہیں لیکن جدائی کا غم موت سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے’۔انہوں نے کہا کہ اب تک پانچ سے زیادہ لڑکیوں کی ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے باعث موت واقع ہوئی ہے اور طلاق یافتہ خواتین اپنے ہی مردوں کے ساتھ دوبارہ رہنے پر مجبور ہیں جنہوں نے انہیں طلاق دی ہے اور بیوہ خواتین کو دوسروں کے گھروں میں کام کرکے روزی روٹی کی سبیل کرنا پڑتی ہے۔خواتین کے گروپ نے کہا کہ ہم یہاں ہندوستان کی عزت بن کر آئے ہیں شہریت ملنا ہمارا حق ہے۔انہوں نے کہا کہ اکیسویں صدی میں بھی عورتوں پر اتنا ظلم ہورہا ہے اور حیرانگی کی بات یہ ہے کہ دونوں حکومتوں پر کچھ بھی اثر نہیں ہورہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم اپنے مطالبوں کو لے کر پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی سے بھی ملے، سابق مذاکرات کار دنیشور شرما سے بھی ملے اور ریاستی گورنر ستیہ پال ملک کے ساتھ بھی فون پر بات کی لیکن مسئلہ حل نہیں ہوا۔خواتین کے گروپ نے انہیں غیر قانونی مہاجرقرار دینے پر کہا ‘ہمیں کہا جاتا ہے کہ تم لوگ غیر قانونی مہاجر ہو، غیر قانونی مہاجر وہ ہوتا ہے جو چوری چھپے گھس آئے اور پھر چوری چھپے رہے لیکن ہم تو سڑکوں پرآتے ہیں ہم کیسے غیر قانونی مہاجر ہیں’۔انہوں نے کہا کہ غیر قانونی مہاجروں کے لئے بھی ایک قانون ہے کہ انہیں چھ ماہ کی قید کے بعد واپس اپنے ملک بھیجا جاتا ہے لیکن ہمارے ساتھ پھر ایسا کیوں نہیں ہوا۔انہوں نے حکومت ہندوستان، حکومت پاکستان اور ریاستی گورنر سے اپیل کرتے ہوئے کہا’ ہمیں یا تو سفری دستاویز اور شہریت دیں یا ہمیں واپس بھیج دیں’۔انہوں نے پاکستان کے انسانی حقوق کارکن انصار برنی اور کشمیر کے انسانی حقوق کارکن پرویز امروز کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ان دونوں کارکنوں نے ہماری آواز اٹھائی اور امید ہے کہ یہ لوگ مستقبل میں بھی ہمارا ساتھ دیں گے۔ان خواتین نے ماضی میں بھی اپنے مطالبات خاص کر شہریت اور سفری دستاویزات کے حصول کے لئے کئی بار احتجاجی مظاہرے کیے۔واضح رہے کہ سال 2010 میں عمرعبداللہ کے دور حکومت میں جنگجوو¿ں کی بازآباد کاری پالیسی کے تحت قریب ساڑھے چار سو کشمیری جو اسلحہ تربیت کے لئے سرحد پار کر گئے تھے، اپنی بیویوں کے ساتھ واپس وادی کشمیر آئے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا