اُردوصحافت کودرپیش مسائل ومشکلات پرغوروخوض:ماہانہ اُجرت میں معقولیت، ویج بورڈ کی تشکیل، متحدہ جدوجہد کی ضرورت اُجاگر: مقررین کا اظہار خیال
لازوال ڈیسک
سرینگر:عالمی یوم آزادی صحافت کے موقعے پر انجمن اُردو صحافت جموں وکشمیر کے زیراہتمام ایوان صحافت کشمیرواقع سری نگرمیں یک روزہ سیمینار بعنوان ”صحافی فکر معاش سے آزاد ہوتوصحافت آزاد ہوتی ہے“ کااہتمام کیاگیا،جس میں انجمن اُردوصحافت سمیت ورکنگ جرنلسٹوں کی مختلف انجمنوں کے ذمہ داروں اورممبران نے شرکت کی ۔ سیمینار میںسابق ڈائریکٹر جنرل محکمہ اطلاعات اوربزرگ صحافی محمد سعید ملک نے بطورمہمان خصوصی جبکہ سینئرصحافی ریاض مسروراورشجاع الحق نے بحیثیت مہمانان ذی وقارشرکت کی ۔بزرگ صحافی محمد سعید ملک کی زیرصدارت منعقدہ سیمنارمیں نظامت کے فرائض انجمن اُردوصحافت کے بنیادی رکن ناظم نذیرنے انجام دئیے ۔سمینارصبح11بجے ست دوپہرایک بجے تک جاری رہا۔سیمینار سے جن مقررین نے خطابات کئے، ا±ن میں سابق ناظم اطلاعات محمدسعیدملک ،سینئرصحافی ریاض مسرور،ایوان صحافت سری نگرکے قائمقام صدر اور انڈیا ٹوڈے کے بیورو چیفشجاع الحق، انڈیا ٹوڈے اور کشمیر ریڈر کے محمد معظم، اکنامک ٹائمز کے عرفان حکیم، جموں وکشمیر اُردو کونسل کے ترجمان جاوید کرمانی، کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے مدرس راشد مقبول،کے علاوہ انجمن اردو صحافت جموں وکشمیر کے صدر اور ہفت روزہ نوائے جہلم کے چیف سب ایڈیٹر ریاض ملک ، انجمن کے ترجمان زاہد مشتاق اور صوبائی صدر بلال فرقانی شامل ہیں۔انجمن کے صوبائی صدر بلال فرقانی نے تمام ذی وقار مہمانوں اور شرکا ءکا تہہ دل سے استقبال کرتے ہوئے پروگرام کی غرض و غایت بیان کرنے کےساتھ ساتھ انجمن اردو صحافت کے مقاصد پر روشنی ڈالی۔ اس کے فوراً بعد انجمن اردو صحافت کے ترجمان زاہد مشتاق نے بھی مختصر تقریر کے دوران انجمن کی غرض و غایت اور دور جدید میں صحافی کے رول پرمدلل بات چیت کی۔انہوں نے عالمی یوم اُردوصحافت کاذکرکرتے ہوئے مختلف ممالک میں پریس یااظہاررائے کی آزادی کی صورتحال بیان کی ۔زاہدمشتاق نے انجمن اُردوصحافت کے قیام ،مقاصد اوراہداف بیان کرتے ہوئے کہاکہ اُردوصحافت سے وابستہ صحافیوں اورنامہ نگاروں کوکسی بھی طوراحساس کمتری کاشکارنہیں ہوناچاہئے بلکہ اُنھیں اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں میں بہتری لانے پرتوجہ مرکوزکرنی چاہئے ۔زااہدمشتاق نے اس حوالے سے انگریزی صحافت سے وابستہ سینئرصحافیوںکاتعاون طلب کیا۔محمد معظم کا کہنا تھا کہ ہم صحافی ہونے کی حیثیت سے حق گوئی کےلئے جواب دہ ہےں اور ہم پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے قلم کے ذریعے سے حق کی ترجمانی کریں۔اس کےساتھ ساتھ ہمارے نجی معاملات ہیں، ہماری مالی مشکلات کا سامنادرپیش ہیں لہٰذا ہمیں اس بات پر بھی سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کرنا ہوگا کہ ہمارے مسائل کیسے دور ہوں؟ انہوں نے بتایا کہ جب ایک صحافی کو بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کی خاطر انتہائی کم ا±جرت پر کام کرنا پڑتا ہے تو وہ غلط ذرائع کے حصول کی خاطر تگ و دو کرنے کےلئے مجبور ہوجا تاہے کیوں ہم جن اداروں کےساتھ وابستہ ہیں وہ ہماری معاشی اورمالی ضرورتوں کو پورا کرنے سے قاصر ہےں۔محمد معظم کا کہنا تھا کہ جب ہم کم وسائل کی موجودگی میں زیادہ تگ و دو نہیں کرپاتے ہیں تو خبر شائع ہونے کے بعد ہم پر الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے کیوں کہ ہمارے پاس اتنے ذرائع مہیانہیں ہوتے کہ ہم زمینی صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لے کر دور دراز علاقوں تک پہنچ پائیں۔انہوں نے بتایاکہ اس ساری گھتی کو سلجھانے کی خاطر بس یہاں کے صحافتی اداروں کو منظم اور جوابدہ بنانے کی ضرورت ہے۔محمد معظم نے بتایا کہ وادی میں صحافیوں کی جتنی بھی انجمنیں کام کررہی ہیں، انہیں مل جل کر ایک لائحہ عمل تشکیل دینا چاہیے تاکہ صحافیوں کو درپیش مشکلات کے سدباب کی خاطر مشترکہ جدوجہد کو بروئے کار لایا جائے۔سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اکنامک ٹائمز کے عرفان حکیم نے بتایا کہ صحافت جیسے پیشے کو قبول کرنا ایک اخلاقی فیصلہ ہوتا ہے جس میں مادیت کا کوئی عنصر رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ایک صحافی جب صحافت میں آجاتا ہے تو ا±س پر اخلاقی فرض عائد ہوجا تاہے کہ وہ حقائق کو عوام کے سامنے لانے کےلئے کسی بھی سطح پر کمپرومائز نہ کریں۔اُن کاکہناتھاکہ صحافت کو اختیار کرنا اخلاقی فیصلہ ہوتا ہے نہ کہ معاشی فیصلہ۔اخلاقیات اور صحافیت ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم قرار دیتے ہوئے حکیم عرفان کا کہنا تھا کہ صحافی کو کیسے بھی حالات کا سامنا ہو، اخلاقیات کی رسی ہرگز نہیں چھوڑنی ہے۔انہوں نے اردو صحافت سے جڑے صحافیوں پر زور دیا کہ وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں بلکہ خود کو جدید تکنیکی صلاحیتوں سے لیس کرتے ہوئے دنیا کے سامنے اپنا لوہا منوائیں۔ جموں وکشمیر اردو کونسل کے ترجمان جاوید کرمانی نے بتایا کہ دور جدید میں صحافت کو پروپگنڈہ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ انہوں نے قومی میڈیا کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج نظر ا±ٹھاکر دیکھئے کہیں بھی سچائی کا بول بالا نظر نہیں آرہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ اردو ہماری شناخت ہے لہٰذا اس حوالے سے ہمیں انتہائی حساس ہونے کی ضرورت ہے۔سیمینار سے کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے مدرس راشد مقبول نے آزاد صحافت اور صحافیوں کی معاشی حالت پر چند اہم نکات کی طرف شرکا کی توجہ مبذول کرائی۔جاوید کرمانی نے کہا کہ جمہوری نظام میں حکومت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اخبارات کو بھر پور مالی تعاون فراہم کریں۔ انہوں نے کہا کہ انگریز سامراج کے دوران ہندوستان میں بھی حکومت نے ا±س وقت کے اخبارات کو مالی تعاون فراہم کیا ہے۔صحافت کے مدرس اورسینئرصحافی راشد مقبول کا کہنا تھا کہ جدید دور میں متعدد صحافتی ادارے ایسے ہیں جو حکومتی تعاون پر انحصار کرنے کے بجائے عوامی عطیات پر تکیہ کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ متعدد ایسے قومی ادارے اب بھی کام کررہے ہیں جو ”کراﺅڈ فنڈنگ“ کے ذریعے آزاد صحافت کو پروان چڑھارہے ہیں۔ اس طرح کے نظام میں جہاں حق گوئی پر بھی تلوار نہیں لٹکتی وہیں صحافیوں کو مالی آسودگی دستیاب ہوجاتی ہے۔انہوں نے آزاد صحافت کو یقینی بنانے کےلئے ”کراوڈ فنڈنگ“ کو ناگزیر قرار دیا۔پریس کلب کے صدر اور انڈیا ٹوڈے کے بیورو چیف شجا ع الحق نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اردو صحافت سے جڑے صحافیوں کو اپنے اندر وسعت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صحافیوں کو درپیش مشکلات کے ازالے کی خاطر انفرادی کوششوں کے بجائے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے جس کے لئے پریس کلب آف کشمیر اپنا بھر پور تعاون دینے کےلئے تیار ہے۔شجا ع الحق نے کہا کہ صحافیوں کی جدید طرز پر مخفی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی خاطر مشترکہ ورکشاپ منعقد کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ مالی مسائل کو دور کرنے کی خاطر ہمیں مشترکہ طور پر جدوجہد شروع کرنی چاہیے۔ انہوں نے موجودہ غیر یقینی حالات میں کام کررہے صحافیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ کٹھن اور سخت حالات میں حقائق کو منظر عام پر لانے والے صحافی داد تحسین کے مستحق ہے۔شجاع الحق نے بتایا کہ جہاں آج کے دن کے موقعے پر ہم اپنے مسائل و مشکلات کو ا±جاگر کرتے ہیں، وہیں ہمیں ا±ن صحافیوں کو بھی یاد کرنا چاہیے جنہوں نے اپنے پیشہ ورانہ فرائض کو انجام دیتے دیتے اپنی زندگیاں اس راہ میں نچھاور کیں۔ سیمینار سے بی بی سی(اردوسروس) سے وابستہ ریاست کے سینئرصحافی اورتجزیہ نگار ریاض مسرور نے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسا صحافی جو غلط ذرائع سے روپے پیسے اینٹھنے کاروادار نہ ہو، وہی اپنی اُجرت کو بڑھانے کا مطالبہ کرے گا۔انہوں نے صحافیوں کو درپیش مالی مسائل و مشکلات کے ازالے کی خاطر ”ویج بورڈ“تشکیل دینے پر زور دیا۔ ریاض مسرور کے مطابق سہ رکنی ٹیم صحافیوں کے نمائندوں، اخبار مالکان اور غیر جانبدار افراد پر مشتمل ہوگا ،جو جدید دور کے تمام پہلوﺅں کا احاطہ کرنے کے بعد ”ویج بورڈ“ تشکیل دیں۔ اپنے صدارتی خطبے میں مہمان خصوصی،سابق ناظم اطلاعات محمد سعید ملک نے بتایا کہ میں نے 60برس صحافتی میدان میں صرف کئے، جو شکایات اور نکات یہاں دیگر صحافیوںنے ا±بھارے ،ا±ن پر سنجیدگی کےساتھ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ”ویج بورڈ“ کے حوالے سے انہوںنے بتایا کہ ہم کافی عرصے سے اس حوالے سے سوچ رہے ہیں کہ مالی مشکلات کے ازالے کی خاطر ٹھوس اقدامات ا±ٹھائے جانے چاہیں۔ انہوں نے شرکا پر زور دیا کہ وہ صحافتی میدان میں اعلیٰ معیار کی خدمات انجام دیں۔حکومت کی جانب سے اشتہارات پر پابندی کے موقعے پراداروں کی جانب سے صحافیوں کی ماہانہ اجرتوں میں کٹوٹی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی غلط بات ہے کہ اخبار مالکان نقصان کے موقعے پر صحافیوں کی ماہانہ آمدن پر ضرب لگانے سے نہیں کتراتے تاہم فائدہ حاصل ہونے کی صورت میں صحافیوں کو قطعی طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے جس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔انہوںنے بتایا کہ اردو صحافت سے متعلق لوازمات کو ملحوظ نظر رکھنے کی ضرورت ہے تب ہی یہاں کسی بہتری کی ا±مید کی جاسکتی ہے۔سیمینا رکے آخر پر انجمن اُردو صحافت جموں وکشمیر کے صدر اور ہفت روزہ نوائے جہلم کے چیف سب ایڈیٹر ریاض ملک نے ذی عزت مہمانوں اورشرکاءکا شکریہ ادا کرتے ہوئے اُردو صحافت سے جڑے صحافیوں کو درپیش مشکلات پر بات کی۔