زندگی کے آخری لمحات سکون کےساتھ گزارنا چاہتا ہوں: پنڈت روشن لعل
وادی واپس لوٹنے پر جو پیار اور استقبال ملااُسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا
کے این ایس
سرینگر29سال بعد کشمیر واپس لوٹے 72سالہ روشن لعل ماوا نے آبائی علاقے زینہ کدل میں نجی دکان کھولتے ہوئے اس بات کا برملا اظہار کیا کہ اتنا عرصہ بیرون ریاست گزارنے کے بعد بھی کشمیری کلچر میں کوئی بدلاﺅ نظر نہیں آریا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری باشعور قوم ہے اور یہاں آکر جو پیار مجھے ملا اُس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ کشمیرنیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق 29برس بعد کشمیر واپس لوٹنے والے 72سالہ روشن لعل ماوا نے جمعرات کو آبائی علاقے زینہ کدل میں نجی دکان کھولنے کے موقعے پر اس بات کا برملا اظہار کیا کہ اتنا عرصہ بیرون ریاست گزارنے کے بعد بھی کشمیری کلچر میں کوئی بدلاﺅ نظر نہیں آیا۔ روشن لعل کا کہنا تھا کہ میں نے قریباً30سال نئی دہلی میں گزارے تاہم اس عرصے کے دوران ہمیشہ سے میرے دل کے اندر کشمیر کی یاد ستاتی رہی۔ کشمیرنیوز سروس کے ساتھ بات کرتے ہوئے روشن لعل کا کہنا تھا کہ میرے والد اصل میں گاڈہہ کوچہ زینہ کدل سے تعلق رکھتے تھے اور یہاں ہماری دکان ہوا کرتی تھی۔کشمیرمیں جونہی 90کی دہائی میں حالات نے کروٹ لی تو اسی دوران 13اکتوبر 1990کو ایک نامعلوم نوجوان نے میرے پیٹ میں 4گولیاں داغیں جس کے نتیجے میں میں شدید زخمی ہوا اور مجھے ہسپتال منتقل کیا گیا۔ روشن لعل نے بتایا کہ اس کے بعد میرے اہل و عیال نے کشمیر چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور ہم نئی دہلی چلے گئے جہاں میں نے اپنا کاروبار شروع کیا۔ انہوں نے بتایا کہ نئی دہلی میں میں نے اپنا گھر خریدا لیکن اتنی سہولیات مہیا ہونے کے باوجود ہمیشہ کشمیر کی یاد لہریں مارتی تھی جس کے نتیجے میں میرے دل کا سکون غارت ہوچکا تھا۔انہوں نے بتایا کہ اس عرصے کے دوران ہمیشہ کشمیری بھائیوں کی یاد ستاتی رہی اور بالآخر میں نے اپنے بیٹھے کے ساتھ صلاح و مشورہ کرتے ہوئے وادی لوٹنے کا فیصلہ کیا کیوں کہ میری خواہش ہے کہ میرا آخری وقت کشمیر میں ہی اپنے بھائیوں کے ساتھ گزرے۔روشن لعل نے بتایا کہ یہاں پہنچنے پر جو پیار اور استقبال مجھے کشمیری بھائیوں سے ملا وہ ناقابل بیان ہے۔ اپنے کشمیری بھائیوں کے پیار کو میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔یہاں پہنچنے پر میری اور میرے بیٹے کی دستار بندی کی گئی، مٹھائیاں تقسیم کی گئی اور میرے کشمیری بھائی مجھ سے اور میرے اہل و عیال سے ملنے کے لیے جو ق درجوق آئے۔روشن لعل کے مطابق کشمیریت ایک الگ چیز ہے، میں حالانکہ ہندوستان کے ہر ایک شہر میں گھوما ہوں لیکن جو پیار اور محبت یہاں آکر ملا وہ کہیں نہیں مل سکتا۔انہوں نے کہا کہ بیرون ریاست گزرے 30سال کے دوران میں نے ہر آن ”آہے تہ وایے“ کیا اور آج جب واپس اپنے وطن لوٹا ہوں تب جاکر کہی آرام اور سکون میسر ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ کشمیری ایک باشعور قوم ہے اور کشمیر جنت ۔ کشمیر اور بیرون میں زمین و آسمان کا فرق ہے، یہاں آکر چین ملا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کشمیر میں حالات نے کروٹ لی ہے جس کے نتیجے میں ہمیں یہاں سے جانا پڑا۔ روشن لعل کے مطابق کشمیر کی 99فیصد آبادی انسان دوست اور پرامن لوگ ہیں جبکہ صرف 1فیصد آبادی کے ذہن میں کچھ خلش موجود ہے۔ وادی چھوڑچکے پنڈتوں کو وطن واپس لوٹنے کی اپیل کرتے ہوئے روش لعل کا کہنا تھا کہ انہیں بغیر کسی خوف و ڈر کے کشمیر لوٹنا چاہیے ۔