نہاں نورین
ریسرچ اسکالر آف حیدرآبادسنٹرل یونیورسٹی
دکن کی تاریخ میں سلطنت آصفیہ کے آخری نواب میر عثمان علی خاں آصف جاہ صابع کی علم دوستی اور ان کی ادب پروری اور ان کے کارناموں کو کون نہیں جانتا.. انھوں نے اپنے کارناموں کے ایسے کارناموں کے ایسے نقوش چھوڑے ہیں. جن کوصدیوں تک زمانہ نہیں بھلا سکتا. اس صوفی بادشاہوںنے تعلیم کو عام کرنے کے لیے جہاں بے شمار مدارس قائم کئے. تو ساتھ ہی جدید علوم و فنون کی تدریس کو ا±ردومیںعام کرنے کے لیے شہر حیدرآباد میں ایک عظیم درس گاہ کی بنیاد رکھی جسے ساری دنیا جامعہ عثمانیہ کے نام سے جانتی ہے. اور آج تک یہ جا معہ اپنی خدمات بخوبی انجام دے رہا ہے.
جامعہ عثمانیہ کا قیام 1917ءمیں ہوا. اس یونیورسٹی کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ ا±ردو زبان کو یونیورسٹی کے لیے ذریعہ تعلیم بنایا جائے. ان کا پہلا تجربہ انجینئرنگ، میڈیسن کا تھا ۔ طب اور قانون کی تعلیم بھی دی جاتی رہی. اس یونیورسٹی میں سائنس، کامرس، اردو مضامین پڑھائے جاتے تھے ۔لیکن اس بات کی شدید ضرورت محسوس ہوئی کہ یہ علوم و فنون کی کتابیں اردو میں تیار کی جائیں ۔ تاکہ طلبا کو پڑھائی جاسکے.
جامعہ عثمانیہ کے تعلیمی سفر کے آغاز کی بنیاد دارلترجمہ تھا. جامعہ عثمانیہ کے قیام کے سلسلے میں جو تجاویز پیش کی گئیں تھیں، ان کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی غور کیا جانے لگا کہ ایک ایسا ادارہ بھی اس جامعہ میں ہو جہاں نصاب اور علوم وفنون کی کتابوں کا اردو مین ترجمہ ہو ۔وہ تمام کی کتابیں جو یونیورسٹی کے نصاب میں شامل تھیںا ردو زبان میں ترجمہ کرایا جائے۔جب تک کتابیں اردو زبان میں موجود نہ ہوتیں. تعلیم کا آغاز بھی ممکن نہ تھا. اور ایک ہی عرصے میں مترجمین کو جمع کرنا اور کتابوںکو مختصر سے عرصہ میں تیار کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا. لیکن اس کے باوجود ان مترجمین نے کتابوں کو مختصر سے عرصہ میں تیار کیا جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے..
دارلترجمہ کی سفارش دراصل مولوی عبد الحق، پنڈت کشن راو، مولوی مرتضیٰ اور حافظ محمد مظہر نے مل کر میر عثمان علی خاں سے کی ۔اور میر عثمان علی خاں نے یہ سفارش منظور کرلی. اور اس طرح جامعہ عثمانیہ کے قیام سے تقریباً ایک سال قبل16ستمبر ۷۱۹۱ء کو دارلترجمہ کا قیام عمل میں لایا گیا. جس کے پہلے ناظم مولوی عبد الحق مقرر ہوے.مولوی عبد الحق نے نہ صرف یونیورسٹی کے قیام کی تحریک میں اپنی اعلیٰ صلاحیتوں سے جان ڈالی. بلکہ یونیورسٹی کے ہر امور میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا. چونکہ وہ کتابوں کے مرتب، مصنف تھے اور ترجمہ نگاری کے مسائل سے پوری طرح واقف تھے ۔اس لیے تراجم کاکام ان کے لیے مشکل نہیں تھا. اور ان کے دور میں ایک تالیف اور 6 ترجمے شایع ہوئے تھے..
اس کے بعد ایک اور نام جو سامنے آتا ہے وہ ہے وحید الدین سلیم کا. وحید الدین سلیم نے علی گڑھ انسٹیٹوٹ اور تہذیب الاخلاق کے لیے مضامین لکھے. اسی زمانے میں انہوں نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ ساتھ مل کر انجمن مترجمین کے نام سے ایک سوسائٹی قایم کی. جس کا کام انگریزی سے ا ±ردو میں علمی کتب کا ترجمہ کرنا تھا.
1919 ءمیں جب ان کا تقرّر دارلترجمہ میں ہوا تو انہوں نے کئی کتابوں کے ترجمے کئے. دارلترجمہ میں جن شخصیتوں نے اپنے گراں قدر کارنامے انجام دیے ان میں سید علی حیدر ،نظم طبا طبای، عالمہعبداللہ عمادی اور مولوی عنایت اللہ شامل تھے. یوں تو اس سے وابستہ علماء و اُدبا جو بھی تھے ان کی کافی طویل فہرست ہے.
ان علماء و اُدبا نے نہایت ہی بہترین کام انجام دیا ہے. اس کے بعد حمید احمد انصاری، محمد عنایت اللہ، سید محی الدین ،مقرر
کئے گئے. اس ادارہ کے وجود میں آنے کے بعد نظم طبا طبای، مولوی عبد اللہ عمادی، اور مولوی سید ابراہیم ندوی جیسے باکمال مترجمین کی حیثیت سے تقرر عمل میں لایاگیا. جن کا کام عربی اور فارسی کی کتابوں کا ا±ردو میں ترجمہ کرنا تھا. اور ان کے ساتھ ساتھ چند دانشوروں اور اسکالرس کی بھی مدد لی گئی.. دارلترجمہ کے قیام سے سب سے مشکل جو کام تھا وہ تھا کتابوں کا ترجمہ وہ حل ہوگیا. اس کے بعد مضامین کا ترجمہ کیا گیا. دارلترجمہ کی خدمات پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آج ہندوستان اور پاکستان میںاردوزبان کو ذریعہ تعلیم رائج کرنے میں دارلترجمہ نے کافی اہم رول ادا کیا ہے.
دارلترجمہ ہندوستان کی سماجی، سیاسی، ادبی، علمی اور تہذیبی زندگی میں منفرد اور اعلی مقام رکھتا ہے. دارلترجمہ نواب میرعثمان علی خاں نظام حیدرآباد کے عہد کا زرین کارنامہ ہے..یونیورسٹی کے قیام کے بعد سب سے اہم جو مسئلہ تھا وہ تھا ترجمہ کا. جس پر یونیورسٹی کی تعلیم کا دارومدار تھا. جب نصاب کے ترجمے کا مسئلہ سامنے آیا تو اب اور بھی ضروری ہوگیا تھا کہ کسی نہ کسی طرح ان کتابوں کے ترجمے کردیئے جاے. اس کے بعد انفرادی طور پر کتابوں کے ترجمے بھی کئے گئے. چنانچہ اس اہم ضرورت کے پیش نظر ایک نیا شعبہ "شبعہ تالیف و ترجمہ”” یعنی دارالترجمہ عثمانہ“ وجود میں آیا.. یونیورسٹی کے قیام سے قبل دکن کے اسکولوں میں جب میٹرک اور انٹرمیڈیٹ تک اردو کے ذریعے تعلیم کا رواج تھا.. اور بعض سائینسی موضوعات کے اردو ترجمے شمس االمراءکے دارلترجمہ میں ہوچکے تھے. لیکن جب ترجمے کے کچھ مشکلوں کا سامنا کرناپڑا تو سر اکبر حیدری نے دارلترجمہ کی ضرورت محسوس کی. اور اس کی اہمیت کو واضح کرتے ہوے ایک درخواست نظام
حیدرآباد کے سامنے پیش کی جس میں لکھا تھا :
” بااتباع فرمان مبارک نصاب تعلیم یونیورسٹی و دیگر امور متعلقہ کے بارے میں کام جاری ہے. لیکن جو چیز سب سے مقدم اورضروری ہے اور جس پر یونیورسٹی اور اس کا دارومدار ہے وہ ہے شعبہ تالیف و تراجم.. اور اس کے لیے سب سے بہتر اور قابل سے قابل اشخاص تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو اپنے فن میں ماہر ہونے کے علاوہ اردو اور فارسی اور عربی پردسترس رکھتے ہوں تاکہ وہ اپنے خیالات کو انگریزی زبان سے اردو میں ادا کرسکیں“
دارلترجمہ میں آرٹس کے تمام مضامین کے لیے سب سے پہلے ایک ایک مترجم کا تقرر کیا گیا۔ اور ایسے افراد کا تقرر کیا گیاجو اپنے مضمون کے ماہر تھے اور انگریزی، فارسی اور عربی اور اردو پر بھی عبور رکھتے تھے. اس کے لیے ساینٹفک طریقہ اپنایا گیا. اس سے قبل ترجمہ
نگاری کے کسی بھی ادارے نے اس بات پر توجہ نہیں دی تھی کہ مترجم کا ماہر فن اورزبان جس سے ترجمہ کر رہا ہو. ان دونوں زبانوں سے
واقف ہے بھی یا نہیں۔
دارالترجمہ کے قیام سے عثمانیہ یونیورسٹی کے لیے کئی راہیں کھل گئیں. اس میں سب سے پہلے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے ضروری نصابی کتب کا ترجمہ کردیا گیا تھا.چونکہ یہ ایک مسئلہ تھا کہ طلبا کے لیے پہلے نصابی کتب فراہم کی جائے. اس غرض سے انھوں نے شعبہ تالیف و ترجمہ کیاتھا. دارلترجمہ کے کام کا یہ طریقہ تھا کہ نصاب یونیورسٹی کمیٹی کے تمام شعبوں کی ضرورت کے مطابق نصابی کتب فراہم کرتی تھی. دارلترجمہ ابتداءمیں صرف تین سال کے لئے قایم کیا گیا تھا. لیکن اس کے بعد اس کی مدت بڑھا دی گئی. میرعثمان علی خاں نے دارلترجمہ کے کام اور مترجمین کی سہولت کے لیے دارلترجمہ کو دس سال قایم رکھنے کا فرمان جاری کیا.اس میں ترجمہ اور تالیف کے کاموں کو نہایت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیا جارہا تھا. اس شعبہ نے پہلی مرتبہ آرٹس،طب، انجینئرنگ، قانون اور سائنس کے مضامین کا ا±ردو میں ترجمہ کرکے یونیورسٹی کی تعلیم کو صرف ہندوستان میں نہیں بلکہ بیرون ہند میں بھی ایک مثال قائم کی..
ترجمہ کا کام جس قدر بہترین ہوا ہے اس کے پیچھے کوشش بھی اتنی ہی بہترین کی گئی تھی. ان میں پروفیسر ہارون خاں
شیروانی، پروفیسر ضیا الدین انصاری، مسعود علی محوی، رشید احمد، عبدالباری ندوی، عالمہ حکیم کبیر الدین، عبد المجیدصدیقی، ڈاکٹر یوسف حسین خان، احسان احمد کے علاوہ بیشتر اُدبا ءقابل ذکر ہیں. اور ان کی انتھک کوششوں سے دو نتیجے نکلے. ایک تو یہ کہ اردو زبان کا دامن وسیع ہوگیا. اور ساتھ ہی بیشتر کتابیں ترجمہ ہوکر آگی. اور اس ترجمے کی بدولت ایک نیا ادبی ماحول بنا. جس کی بدولت اردو میں علوم و فنون پر سینکڑوں کتابیں منتقل ہوئی. اور اس کے ساتھ ہی اردو ادب میں کافی اضافہ ہوا. اس طرح چند ہی عرصوں برسوں میں اردو زبان بھی دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں میں شمار کی جانے لگی.
دارلترجمہ کے قیام کا مقصد یہ بھی تھا کہ ہندوستانی عوام کو بیرونی ممالک کے علوم و فنون کے ساتھ جوڑا جاے. صرف علوم و فنون ہی نہیں بلکہ وہاں کی ترقی پسند تحریکوں سے واقف کروانا اور ان میں شعور بیدار کرنا تھا. اس شعبہ کے قیام سے اس ادارے نے تقریبا 15 سال میں معاشیات، سیاسیات، ً لوگوں میں علمی و ادبی ذوق کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی تربیت بھی ہوئی.طبیعیات وغیرہ کی 15 کتابیں ترجمہ کرکے شائع کی۔. صرف یہی نہیں بلکہ سرسید کے دور میں ساینٹفک سوسائٹی سے اردو میںترجمہ نگاری کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے.
کیونکہ ساینٹفک سوسائٹی کے قیام کے بعد اس کے کام کی رفتار اور بھی زیادہ بڑھ گئی تھی. مشرقی اور مغربی علوم کی بہت سی کتابیں اردو میں ترجمہ کی گئی. اس میں ابتدائی اور ثانوی جماعتوں کے لئے کتابیں ترجمہ کی گئی. جملہ 465 کتابوں کا اس میں ترجمہ ہوا. اس کے ساتھ ہی ا صلاح سازی کا کام بھی ساتھ ہی کیا جانے لگا.اصلاح سازی کا ذوق و شوق رکھنے والوں کو بھی بلایاگیا۔ اور ہندوستان کے کونے کونے سے مضامین میں مہارت رکھنے والے افراد کو بحیثیت مترجم حیدرآباد بلایا گیا.دارلترجمہ کے مترجمین کی علمی و ادبی حیثیت کو
جاننے کے لیے ان کے کام کا جائزہ بھی لیا گیا. کیونکہ ان میں بیشترمترجمین نے دارلترجمہ کے کام کے علاوہ اپنے مضامین میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں. اختصار کے لیے ان تمام مترجمین میں سے چند نہایت ہی اہم مترجمین کی خدمات کو الگ الگ مضامین کے ترجموں کے ساتھ تحریر کیا گیا.
صرف یہی نہیں بلکہ دارلترجمہ کے تراجم کی نوعیت کا اندازہ لگانے کے لئے سب سے پہلے تاریخ کے تراجم میں سے ترجمہ کے جدید علوم کویکجاکر کے اسے عوام میں روشناس کرانا چاہتے تھے. ±اردو میں منتقل اس طرح اس ادارے نے تقریبا پندرہ سال میں معاشیات، ًسیاسات، طبعیات، علم ہیت وغیرہ کی پندرہ کتابیں ترجمہ کرکے شائع کیں. سر سید تحریک سے متاثرہ افراد جب جدید مغربی علوم کی جانب دلچسپی دکھانے لگے تو اس وقت شدید ضرورت اس بات کی تھی کہ کوئی ایسا ادارہ بھی جو ایسا ترجمہ کرے جس کی مدد سے طلباءجدید مغربی علوم سے آشنا ہوسکے. اس طرح ترجمے کی مدد سے اہل ہند جدید مغربی علوم سے واقف ہوئے. دارلترجمہ میں قانون کی جماعتوں جیسے ایل ایل بی، ایل ایل ایم کے لیے ترجمے بھی کئے گئے تھے.
عثمانیہ کی تعلیم کا بندوبست اردو زبان میںیونیورسٹی ہندوستان کی پہلی یونیورسٹی تھی جس میں دوسرے مضامین کے ساتھ قانون کی تعلیم کااعلیٰ انتظام گیا تھا. قانون کے مترجمی میں مولوی مسعود علی، راے بیجا ناتھ، ڈاکٹر میر سیادت علی، ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے نام شامل ہیں. قانون کے علاوہ فزکس اور سائنس کے بھی ترجمے کئے گئے تھے
. عبدالحلیم شرر بھی دارلترجمہ میں مترجم کی حیثیت سے کام کرنے لگے. شرر اپنی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ تاریخ اسلام لکھ کر انجام دینا چاہتے تھے. اور ان کی یہ خواہش دارلترجمہ کے ذریعے اپنا کام انجام دیں. ان کے ذمہ جو تاریخ اسلام کی تالیف کا کام تھا وہ اس کو بخوبی انجام دینا چاہتے تھے.
عبدالحلیم شرر کو دراصل میر عثمان علی خاں کی سوانح عمری لکھنے کے لیے بالیا گیا تھا. اور تمام سرکاری دفاتر کو ہدایت دی گئی تھی کہ ان کے کارناموں کی تفصیلات انہیں بھیج دی جاے. لیکن عبد الحلیم کا نام تاریخ اسلام لکھنے کے لیے پیش ہوا توآصف سابع نے اپنی سوانح عمری لکھنے کا کام رُکوا دی. اور ان کو تاریخ اسلام لکھنے کے لیے مامور کردیا گیا. ہر عہد اپنی ایک تاریخ رکھتی ہے اور اپنا ایک خاص مزاج رکھتا ہے. اور یہ مزاج تاریخی، جغرافیائی معاشرت پر اثر انداز ہوتا ہے. اسی طرح مترجم بھی ان تہذیبی حالات کی قید میں رہتا ہے. جس میں شاعر اور ادیب اور مترجم پر ان دونوں سے زیادہ سماج کوسمجھنے اور اس کی زبان استعمال کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے. آرٹس کے تمام مضامین کے علاوہ دارلترجمہ کے علمی تراجم نے سائینس کی تمام شاخوں، فزکس، کیمسٹری، بائلوجی، ذوالوجی وغیرہ میں بی ایس سی اور ایم ایس سی تک تعلیم کےلئے دروازے کھول دیئے. جس سے طلبا کو کافی مدد ملی.
اس طرح دارلترجمہ کی بدولت اردو میں وہ سہولت پیدا ہوئی جو دنیا کی دوسری بڑی زبانوں میں دیکھی جاتی ہے. اس لئے ہم یہ
بات یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ دارلترجمہ عثمانیہ کے تراجم کافی افادیت پ±ر تھے. یہی وجہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان
کے ممتاز ماہرین نے اس تجربے کو سراہا ہے.
کتابیات۔
۱ ۔۱ دالترجمہ کی خدمات۔ پروفیسرمجید بیدار۔
۲۔ دارالترجمہ عثمانیہ کی علمی اور ادبی خدمات۔ڈاکٹر مجیب الاسلام۔