کشمیر میں لوگوں کو اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے: پولیس سربراہ دلباغ سنگھ
یواین آئی
سرینگرسری نگر میں قائم فوج کی 15 ویں کور کے جنرل آفیسر کمانڈنگ لیفٹیننٹ جنرل کنول جیت سنگھ ڈھلوں نے کہا کہ وادی کشمیر میں امسال اب تک 69 جنگجو مارے گئے جبکہ دیگر 12 کو گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پلوامہ حملے کے بعد جنگجو مخالف آپریشنوں میں تیزی لائی گئی اور 41 جنگجوﺅں کو ہلاک کیا گیا جن میں سے 25 کا تعلق ‘جیش محمد’ سے تھا۔لیفٹیننٹ جنرل ڈھلوں نے کہا کہ مقامی نوجوانوں کے جنگجوﺅں کی صفوں میں شمولیت کے رجحان میں نمایاں کمی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو کوئی بندوق اٹھائے گا مارا جائے گا۔جبکہ جموں وکشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے کہا کہ ہم وادی میں کسی بھی شہری کو اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی کشمیر کے موجودہ حالات کے چلتے ضلع اننت ناگ میں 13 اعشاریہ 63 فیصد ووٹنگ کافی ہے۔فوج کی پندرہویں کور کے جی او سی بدھ کی شام یہاں پولیس کنٹرول روم سری نگر میں سینئر سیکورٹی عہدیداروں بشمول پولیس سربراہ دلباغ سنگھ، آئی جی پولیس کشمیر سوئم پرکاش پانی اور سی آر پی ایف کے آئی جی آپریشنز ذوالفقار حسن کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔انہوں نے کہا ‘امسال اب تک 69 جنگجوﺅں کو مارا جاچکا ہے۔ 12 دیگر گرفتار کئے جاچکے ہیں۔ پلوامہ حملے کے بعد 41 جنگجو مارے گئے جن میں سے 25 کا تعلق جیش محمد سے تھا۔ ان 25 میں سے 13 پاکستانی اور 13 اے زمرے کے جنگجو تھے’۔لیفٹیننٹ جنرل ڈھلوں نے کہا کہ پلوامہ حملے کے بعد ‘جیش محمد’ کے جنگجو سیکورٹی فورسز کا بنیادی ہدف رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وادی کشمیر میں اب اس تنظیم کا کوئی لیڈر نہیں بچا ہے۔انہوں نے کہا ‘ہم نے جیش محمد کی لیڈرشپ کو اپنا ہدف بنایا۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ وادی کشمیر میں کوئی بھی جیش محمد کی لیڈرشپ اپنے ہاتھوں میں لینے کے لئے تیار نہیں ہورہا ہے’۔انہوں نے کہا ‘پاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود ہم جیش محمد کو ختم کرنے کا کام جاری رکھیں گے۔ میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ میدانی علاقوں اور سرحدوں پر جنگجوﺅں کے خلاف آپریشنز جاری رہیں گے’۔لیفٹیننٹ جنرل ڈھلوں نے مقامی جنگجوﺅں سے خودسپردگی اختیار کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ‘مقامی نوجوانوں کے جنگجوﺅں کی صفوں میں شمولیت کے رجحان میں نمایاں کمی آئی ہے۔ میں تمام مقامی جنگجوﺅں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ خودسپردگی اختیار کریں’۔انہوں نے کہا ‘گذشتہ چند ماہ کے دوران کچھ مقامی جنگجوﺅں نے خودسپردگی اختیار کی۔ انہوں نے خودسپردگی اختیار کی اور اب اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ان کے بارے میں کسی کو خبر بھی نہیں ہے۔ خودسپردگی اختیار کرنے والے نوجوانوں کی سیکورٹی اور سیفٹی کا خیال رکھا جائے گا’۔انہوں نے کہا ‘میں میڈیا کے ذریعے مقامی نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مسلح تصادم کی جگہوں کا رخ نہ کریں۔ تصادم کے دوران کراس فائرنگ کا واقعہ پیش آسکتا ہے اور تصادم کے بعد پھٹنے سے رہ گیا دھماکہ خیز مواد انسانی جانوں کے زیاں کا سبب بن سکتا ہے’۔پندرہویں کور کے جی او سی نے مقامی نوجوانوں کے جنگجوﺅں کی صفوں میں شمولیت کے رجحان میں آئی کمی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ‘مقامی جنگجوﺅں کی تعداد میں بھی نمایاں کمی آرہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنگجوﺅں کی صفوں میں شمولیت کے رجحان میں کمی آئی ہے۔ یہ ایک مثبت پہلو ہے۔ ہم اس کے لئے کشمیری نوجوانوں اور والدین کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں’۔تاہم انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ جو کوئی ہتھیار اٹھائے گا مارا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا ‘ہمارے پاس یہ اعداد وشمار ہیں کہ وادی کے کس علاقے میں کتنے جنگجو موجود ہیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ان میں سے کتنے غیرملکی اور کتنے مقامی ہیں۔ لیکن میں یہ اعداد وشمار یہاں پر ظاہر نہیں کرنا چاہوں گا۔ جو کوئی بندوق اٹھائے گا مارا جائے گا’۔اس دوران جموں وکشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے کہا کہ ہم وادی میں کسی بھی شہری کو اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی کشمیر کے موجودہ حالات کے چلتے ضلع اننت ناگ میں 13 اعشاریہ 63 فیصد ووٹنگ کافی ہے۔دلباغ سنگھ نے کہا کہ ریاست میں بلدیاتی و پنچایتی انتخابات کے بعد اب پارلیمانی انتخابات بھی پرامن ماحول میں اختتام کو پہنچ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رواں انتخابات میں تشدد کے واقعات پیش نہ آنا زمینی سطح پر کام کرنے والے پولیس افسران کی عرق ریزی کا نتیجہ ہے۔پولیس سربراہ دلباغ سنگھ بدھ کی شام یہاں پولیس کنٹرول روم سری نگر میں سینئر سیکورٹی عہدیداروں بشمول فوج کی پندرہویں کور کے جی او سی لیفٹیننٹ جنرل کنول جیت سنگھ ڈھلوں، آئی جی پولیس کشمیر سوئم پرکاش پانی اور سی آر پی ایف کے آئی جی آپریشنز ذوالفقار حسن کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔انہوں نے رواں انتخابات میں ووٹنگ کی شرح میں کمی ریکارڈ کئے جانے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا ‘میرے خیال میں ووٹنگ کی شرح کم نہیں ہے۔ جنوبی کشمیر کے حالات کے چلتے 13 فیصد سے زیادہ پولنگ کافی اچھا ہے۔ دھمکیوں کے باوجود لوگ ووٹ ڈالنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ ووٹ ڈالنا ہر ایک کا جمہوری حق ہے۔ کسی کو ووٹ ڈالنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ میںاس پر تبصرہ نہیں کرنا چاہوں گا کہ کم لوگوں نے ہی ووٹ کیوں ڈالا’۔انہوں نے کہا ‘پارلیمانی انتخابات کے تین مرحلوں کی پولنگ ہوچکی ہے۔ ہمیں کسی سنگین لاءاینڈ آڈر صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ہمیں کسی بھی جگہ2017 ئ جیسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ یہ سب زمینی سطح پر کام کرنے والے ہمارے افسروں کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ جنوبی کشمیر میں انتخابات کے دو مرحلے باقی ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ وہ دو مرحلے بھی پرامن طور پر اختتام کو پہنچیں گے’۔یہ پوچھے جانے پر کہ ‘کیا انتخابات کے پیش نظر جنگجو مخالف آپریشن روک دیے گئے ہیں’ پولیس سربراہ دلباغ سنگھ کا کہنا تھا ‘اس وقت ہمارا بنیادی مقصد انتخابات کا پ±رامن انعقاد ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جنگجو مخالف آپریشن بند کئے گئے ہیں۔ آپریشنز جاری ہیں، تاہم طرفین کا آمنا سامنا ہونے کے واقعات میں کمی آئی ہے’۔اس موقع پر لیفٹیننٹ جنرل کنول جیت سنگھ ڈھلوں نے انتخابات کے پہلے مرحلے میں ضلع کپواڑہ میں فورسز کی کارروائی میں پیش آئے ہلاکت کے واقعہ پر کہا ‘کپوارہ میں لڑکے کی ہلاکت کا واقعہ انتخابات مکمل ہونے کے بعد پیش آیا۔ جب پولنگ عملہ اور فورسز اہلکاروں واپس جارہے تھے تو سنگبازوں نے ان پر سنگباری کی۔ اس کے نتیجے میں وہ لڑکا مارا گیا۔ یہ واقعہ انتخابات کے دوران پیش نہیں آیا’۔انہوں نے کشمیر شاہراہ پر سویلین ٹریفک کی نقل وحرکت پر عائد دو روزہ پابندی پر کہا ‘ہائی وے پر دو روزہ پابندی ایک عارضی اقدام ہے۔ کچھ پابندیاں پہلے ہی ہٹائی گئی ہیں’۔پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے ہائی وے پابندی پر کہا ‘جنوبی کشمیر میں انتخابات ختم ہونے کے بعد ہائی وے پر عائد پابندی میں مزید نرمی کی توقع ہے’۔انہوں نے کہا کہ وادی میں سنگباری اور لاء اینڈ آڈر کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے۔انہوں نے کہا ‘رواں سال ہمارے لئے کامیاب رہا۔ ہمارے فورسز اہلکاروں نے کامیاب آپریشن انجام دیے۔ اب تک قریب 70 جنگجوﺅں کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔ لاء اینڈ آڈر کی صورتحال کنٹرول میں ہے’۔پولیس سربراہ نے کہا کہ جنگجوﺅں کی صفوں میں شمولیت کے رجحان میں نمایاں اور مسلسل کمی آرہی ہے۔ ان کا کہنا تھا ‘مقامی نوجوانوں کے جنگجوﺅں کی صفوں میں شمولیت کے رجحان میں نمایاں اور مسلسل کمی آرہی ہے۔ سنہ 2018 کے دوران 272 جنگجو مارے گئے۔ اس کے علاوہ جنگجوﺅں کی ایک اچھی خاصی تعداد کو گرفتار کیا گیا’۔انہوں نے مزید کہا ‘نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جن کو جنگجوﺅں کی صفوں میں شمولیت کے لئے ذہنی طور پر تیار کیا گیا تھا، کو ہم نے واپس لایا۔ ہم ان کی تعداد ظاہر کریں گے نہ شناخت’۔