نہاں نورین (نور)
ریسرچ اسکالرحیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی
سر سید احمد خاں ایک مختلف الحیثیات شخص تھے. وہ واقعتاً جدید ذہن کے مالک تھے. سر سید احمد خاں کو بر صغیر میں مسلم علحدگی پسندی کا بانی قرار دے کر کوئی انھیں اچھا کہتا ہے تو کوئی ب±را۔تقریباً ایک صدی کے گزر جانے کے بعد بھی ان کا نام آج بھی زندہ جاوید ہے. سر سید انیسویں صدی کی اہم آواز ہے. سر سید وہ شخص ہے جو اپنے زمانے میں ایک صدی آگے کی بات کرتے تھے. اور آج ہم اکیسویں صدی میں قدم رکھ چکے تو یوں لگتا ہے کہ مسلم بر صغیر فکری طور پر ترقی معکوس پر چل رہی ہے. ان کی ولادت ایسے تاریکی زمانے میں ہوئی جس میں قوم ظلم و ستم کا شکار تھی. سر سید نے ایسے میں قوم کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا..
ان کے نظریات اور عقائد سے وہ ہندوستانیوں اور خاص طور سے مسلمانوں کے سچے خواہ تھے. آپ نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ سیاست سے دور ہوتے ہوئے اپنے تمام تر توجہ تعلیم کے حصول کے لیے دے تاکہ وہ دوسروں کے برابر مقام حاصل کرسکے. سر سید ہندو مسلم اختلافات کو ختم کرکے اتحاد کی راہ پر گامزن ہونے کے قائل تھے. سر سید کی سیاسی حکمت عملی کی بنیاد دو قومی نظریہ تھا. سر سید نے مسلمانوں کو ایک علاحدہ قوم ثابت کیا.. سر سید تہذیب کو فکری چیز مانتے ہیں. اور یہ فطری چیز ان کے نزدیک وحشی، نیم وحشی اور ترقی یافتہ قوموں میں کسی نہ کسی صورت میں موجود رہتی ہے. پسند نہ پسند، اچھے برے کی تفریق میں ب±ری چیز سے اچھی چیز کی طرف انسان کی رغبت فطری ہے. اسی کو وہ تہذیب کی جڑ کہتے ہیں.. ان کا عقیدہ تھا کہ اگر ہندوستانی مسلمانوں اور برطانوی حکومت کے درمیان غلط فہمیاں رہیں تو تعلیمی، سماجی اور اقتصادی میدانوں میں اپنے ہم وطنوں کے مقابلے میں وہ ہمیشہ پسماندہ رہیں گے. ایسے میں انھوں نے اسباب بغاوت ہند لکھ کر انگریزوں کے دلوں میں ہندوستانیوں کی طرف سے پیدا ہونے والے شکوک کو دور کرنے کی کوشش کی تھی.
انیسویں صدی کا آخری نصف ہندوستان کی تاریخ میں بڑی تبدیلیوں کا زمانہ رہا ہے. ایک طرف وہ زندگی تھی جو سینکڑوں سال سے ایک ہی حال پر چل رہی تھی. اور دوسری طرف، مغربی تعلیم، انگریزی ادب، سیاسی خیالات اور نءزندگی… ان دونوں میں بڑا فرق تھا. عام لوگوں کے لیے یہ بات بڑی مشکل تھی کہ وہ ان کی کشمکش کو سمجھیں. مگر سرسید انگریزی زبان نہ جانتے ہوے بھی اس کو اچھی طرح سمجھتے تھے.
وہ جانتے تھے کہ باہر سے جو خیالات آرہے ہیں ان میں سے کون سے خیالات ملک کی ترقی کے لئے مفید ہے. ترقی کی راہ میں جو رکاوٹیں تھیں. وہ انہیں بھی جانتے تھے. اس طرح اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق وہ نئے اور پرانے پورب اور پچھم کو ملا کر ہندوستانیوں اور خاص کر مسلمانوں کو ایک نئی زندگی کا پیغام دینا چاہتے تھے. تبدیلی کا یہ پیغام ایسا تھا کہ جو لوگ اس کو نہیں سمجھ سکتے تھے. وہ سر سید کو مذہب اور قوم کا دشمن سمجھنے لگے. لیکن زمانہ جس تیزی سے بدل رہا ہے. اسے دیکھتے ہوئے ان کے خیالات کو غلط نہیں کہا جاسکتا. وہ سماج میں طریقہ، تعلیم میں اور شعر و ادب میں ہر چیز میں تبدیلی چاہتے تھے. اور ان پرانے رسم و رواج کو توڑ کر لوگوں کو آگے بڑھنے کی تلقین کرتے تھے..
تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ سر سید کی شخصیت پہلو تھی. زندگی کے ہر شعبے میں ان کا خلوص نمایاں تھا. وہ جہاں بھی جاتے ہر ایک چیز کو باریک بینی سے دیکھتے اور اس پر غور و فکر کرتے. جیسا کہ لندن گئے تو وہاں کی ہر چیز کو مائل بہ ترقی دیکھ کر اپنے ملک کی پسماندگی پر افسوس کرتے رہے.. وہاں کے عجائب خانوں، کتب خانوں، دستکاریوں، کارخانوں اور تعلیمی اداروں کو دیکھا تو فوراً انھیں خیال آیا کہ ایسی ترقی ہمارے ملک میں کیوں نہیں ہے؟
یورپ کے طرز معاشرت، طریقہ تعلیم اور اعلی ترقیات کو دیکھ کر انھیں اپنے ملک کی بد حالی پر رونا آیا.. یورپ کے درمیان سفر مس کار پینٹر جیسی روشن خیال عورتوں کو دیکھ کر انھیں اپنے ملک کی جاہل عورتیں یاد آئیں.. غرض ہر لمحہ ہر پل انھیں اپنے ملک کی ترقی کا خیال رہا اور وہ اس کے لیے منصوبے بناتے رہے. اس دور میں سر سید پہلے ہندوستانی تھے جن کی انگلینڈ میں ہر جگہ ہر جلسے و ہر تقریر میں پذیرائی ہوئی. بڑے بڑے سربراہ و اعلیٰ حکام نے ان کا خیر مقدم کیا. ان کے اعزاز میں تقاریب کیں. اور خطابات سے نوازا.
سر سید راجہ رام موہن رائے کی اصلاحی تحریک سے متاثر تھے. راجہ رام موہن رائے ترقی یافتہ سماج کی تشکیل چاہتے تھے. اور سر سید بھی ترقی یافتہ معاشرہ کے خواہاں تھے. ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد اس وقت مضبوط نہیں ہوتی. جب تک ہم وطنوں میں اتحاد و اتفاق نہ ہو. ان کا کہنا تھا کہ قوم کی بنیاد مذہب نہیں بلکہ ملک ہوتا ہے. اور ملک میں سماجی ہم آہنگی کو قایم رکھنے کے لیے قومی یکجہتی اور قومی ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے. پٹنہ میں لکچر دیتے ہوئے سرسید نے کہا تھا کہ :-
“اے عزیزو!….. ہندوستان ہی ہم دونوں کا وطن ہے، ہندوستان ہی کی ہوا سے ہم دونوں جیتے ہیں. مقدس گنگا کا پانی ہم دونوں ہی پیتے ہیں ہندوستان کی ہی زمین کی پیداوار ہم دونوں کھاتے ہیں. مرنے میں جینے میں ہم دونوں کا ساتھ ہے. ہندوستان میں رہتے رہتے دونوں کا خون بدل گیا. دونوں کی رنگتیں ایک سی ہوگئی ہیں. دونوں کی صورتیں بدل کر ایک دوسرے کے مشابہ ہوگئی… "
سر سید اسی لکچر میں آپسی اتفاق اور ہمدردی کو ملک اور قوم کے لئے ضروری بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ :-
آپس کے نفاق اور ضد و عداوت ایک دوسرے کی بد خواہی سے ہم دونوں برباد ہونے والے ہیں. افسوس ہے ان لوگوں پر جو اس نکتہ کو نہیں سمجھتے”
سر سید ہندوستان میں رہنے والے ہندو اور مسلمان کو لفظ ‘ہندو’ سے تعبیر کرتے ہیں. یعنی ہندوستان میں رہنے والی قوم، ان کے یہاں قوم کا لفظ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں استعمال ہوا ہے بلکہ ہندو اور مسلمان دونوں کے لیے ہے. جیسا کہ امرتسر کی ایک تقریر میں انھوں نے کہا تھا کہ :-
مدرسہ العلوم بے شک ایک ذریعہ قومی ترقی کا ہے. یہاں پر قوم سے میری مراد صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو اور مسلمان دونوں سے ہے "(تقریر امرتسر 26 جنوری 1889)
سر سید کو یہ احساس بہ خوبی تھا کہ مغربی اثرات روکے نہ روکیں گے اور ملک کی تہذیبی زندگی پر اثر انداز ہوکر رہیں گے. لہٰذا ملک میں سماجی ہم آہنگی کی فضائ قایم رکھنے کے لیے سیکولرزم کی دوڑ کو مضبوط رکھنا چاہیے. یہ قدر آور اور بلند و بالا شخصیت سر سید احمد خاں کی تھی. جنہوں نے بار بار احساس دلایا کہ مسلمانوں کی تباہی، بربادی، پستی اور تنزل کی ذمہ داری کافی حد تک مسلمانوں پر آتی ہے. وہ مسلمان جن کی آنکھوں پر غفلت کے پردے پڑے ہوے ہیں. سر سید نے ہمیشہ تعلیم پر زور دیا ہے. اپنے ایک مضمون میں تعلیم کو ایک خوبصورت مثال کے ذریعے اجاگر کرتے ہوئے سر سید نے لکھا ہے کہ :-
انسان کی روح بغیر تعلیم کے سنگ مر مر کی چٹان کے مانند ہے. جب تک سنگ تراش اس میں ہاتھ نہیں لگاتا. اس کو تراش خراش کر سیڈول نہیں بناتا اور اس کو پالش اور جلا سے آراستہ نہیں کرتا اس وقت تک اس کے جواہر اسی میں چھپے رہتے ہیں "
سر سید کا کہنا ہے کہ انسان کے اندر کی چھپی ہوئی صلاحیت عمدہ تعلیم سے ابھر کر سامنے آتی ہے. لیکن اس تعلیم میں سر سید تربیت کو خاص مقام دیتے ہیں.. تربیت کے بغیر وہ اعلی تعلیم کو ناقص قرار دیتے ہیں.. سر سید کی مسلمانوں سے بار بار اپیل رہی ہے کہ وہ خود بھی اپنی تعلیم اور معاش کے لیے جہد مسلسل سے کام لیں. آج اکیسویں صدی میں ہم قدم رکھ چکے ہیں آج بھی مختلف ترقیاتی منصوبے بنتے ہیں مگر ان پر اس طرح عمل نہیں ہوتا. غدر کے بعد تعلیمی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے سر سید عملی دنیا میں بے خوف کود پڑے..سر سید نے ملک و قوم میں جدید تعلیم پھیلانے کے لئے جو منصوبے بنائے انہیں عملی جامعہ بھی پہنایا. غازی پور کے مدرسے کا قیام سائنٹفک سوسائٹی، علی گڑھ کی بنیاد، سفر انگلستان کے مقاصد، تہذیب الاخلاق کا اجرائ اس سلسلے کی اہم کڑیاں ہیں.اج دنیا سر سید احمد خاں کے تعلیم و سیاست کے نظریات کو تسلیم کر چکی ہے. حقیقت تو یہ ہے کہ سر سید احمد خاں نے اسلام کی مدافعت مسلمانوں کی تعلیم اور ان کی سیاست کے لئے جو حکمت عملی وضع کی وہ سب قوم کی ترقی کے لئے کی. تا حیات بس قوم کی ترقی کے کام کرتے رہے. اپنے خیالات کو لوگوں تک پہنچایا. قوم کی دل و جان سے خدمت کی. سر سید اپنی سماجی، معاشرتی، معاشی مذہبی اور ادبی فکر کے حوالے سے بہت اہم شخصیت ہیں. وہ ترقی و تبدیلی کے اثرات کی اہمیت کو سمجھتے تھے. اور ان اثرات کو ضروری خیال کرتے تھے. سر سید احمد خاں تاریخ کے اچھّے عالم بھی تھے.
زندگی بھر جو شخص قومی مفاد کی خاطر ایک ایک پیسہ جمع کرتا رہا جب مرا تو خود اس کے اپنے بکس میں کل روپے تھے. ایک بار پھر محسن الملک چندہ دیتے ہیں لیکن یہ چندہ دوسری نوعیت کا تھا. ہمیشہ محسن الملک نے سر سید کو قوم کے واسطے چندہ دیا تھا آج
محسن الملک نے قوم کے مسیحا کی تدفین و تکفین کے لیے پچاس روپے یہ کہہ کر دیے تھے کہ "
یہ سر سید کا آخری چندہ ہے، پھر کب وہ چندہ مانگنے آویں گے”
کتابیات :-
1)سر سید کے فکری زاویے از ڈاکٹر نفیس بانو
2)سر سید احمد خان اور جدت پسندی از ڈاکٹر ایم علی صدیقی
3)سر سید کی بصیرت از اسرار عالم
نہاں نورین (نور)
ایم فل اردو ریسرچ اسکالر
حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی
میل :-nehanoor994 @gmail. Com
موبائل نمبر :-9032643273