اننت ناگ میں محض 13.63 فیصد ووٹنگ

0
0

محبوبہ مفتی کے آبائی حلقے میں سب سے کم 2.04 فیصد
شاہ ہلال/یواین آئی

اننت ناگ/سرینگرجنوبی کشمیر کے حساس ترین چار اضلاع پر مشتمل اننت ناگ پارلیمانی نشست کے لئے تین مرحلوں میں ہونے والی پولنگ کے پہلے مرحلے میں منگل کو ضلع اننت ناگ میں محض 13 اعشاریہ 63 فیصد ووٹنگ ریکارڈ کی گئی۔ سنہ 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں اس پارلیمانی حلقے میں 39 اعشاریہ 37 فیصد ووٹ پڑے تھے۔سرکاری ذرائع نے بتایا کہ تشدد کے چند چھوٹے موٹے واقعات کو چھوڑ کر مجموعی طور پر پولنگ کا دن پ±رامن رہا۔منگل کو ضلع اننت ناگ کے چھ اسمبلی حلقوں بشمول اننت ناگ، ڈورو، کوکر ناگ، شانگس، بجبہاڑہ اور پہلگام میں ووٹ ڈالے گئے۔ ضلع میں قائم کئے گئے 714 پولنگ اسٹیشنوں میں سے اکثر پر دن بھر سناٹا چھایا رہا۔ تاہم پہلگام، کوکرناگ اور ڈورو میں بعض پولنگ اسٹیشنوں پر رائے دہندگان کی قطاریں بھی دیکھی گئیں۔ اسمبلی حلقہ پہلگام میں سب سے زیادہ 20 اعشاریہ 37 فیصد جبکہ بجبہاڑہ میں سب سے کم 2 اعشاریہ صفر چار فیصد ووٹنگ ریکارڈ کی گئی۔قابل ذکر ہے کہ بجبہاڑہ اسمبلی حلقہ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کا آبائی قصبہ اور پانچ برس قبل پی ڈی پی کا مضبوط گڑھ مانا جاتا تھا۔چیف الیکٹورل افسر شلیندر کمار نے منگل کی شام یہاں صوبائی کمشنر بصیر احمد خان اور آئی جی پولیس سوئم پرکاش پانی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران نامہ نگاروں کو پولنگ سے متعلق تفصیلات فراہم کیں۔انہوں نے کہا کہ بجبہاڑہ حلقہ میں صرف ایک ہزار 905 رائے دہندگان نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔شلیندر کمار نے کہا کہ اننت ناگ میں 3 اعشاریہ 47 فیصد، ڈورو میں 17 اعشاریہ 28 فیصد، کوکرناگ میں 19 اعشاریہ 50 فیصد اور شانگس میں 15 اعشاریہ 10 فیصد ووٹنگ ریکارڈ کی گئی۔انہوں نے کہا کہ ضلع اننت ناگ میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 5 لاکھ 29 ہزار 256 ہے جن میں سے 71 ہزار 777 ووٹرز نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔ انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ پولنگ کا عمل پ±رامن طور پر اختتام پزیر ہوا۔انہوں نے مزید کہا کہ ریاست میں رواں پارلیمانی انتخابات میں اب تک مجموعی طور پر 48 اعشاریہ 87 فیصد ووٹ پڑے ہیں۔اننت ناگ رواں پارلیمانی انتخابات میں ملک کا واحد ایسا حلقہ ہے جس میں تین مرحلوں میں ووٹ ڈالے جانے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ جنوبی کشمیر کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے لیا ہے۔ضلع اننت ناگ میں پولنگ کے بعد اب 29 اپریل کو ضلع کولگام جبکہ 6 مئی کو پلوامہ اور شوپیاں اضلاع میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ضلع اننت ناگ میں پولنگ کا عمل صبح سات بجے شروع ہوکر سہ پہر چار بجے تک جاری رہا۔ انہوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے اننت ناگ پارلیمانی نشست کے لئے پولنگ کے اوقات میں دو گھنٹوں کی تخفیف کی ہے۔ اننت ناگ پارلیمانی حلقے میں اگرچہ 18 امیدوار اپنی قسمت ا?زمائی کررہے ہیں لیکن اصل اور سخت مقابلہ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی، کانگریس کے ریاستی صدر غلام احمد میر اور نیشنل کانفرنس کے جسٹس (ر) حسنین مسعودی کے درمیان ہے۔ سی پی ا?ئی ایم جس نے اس حلقے سے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا ہے، نیشنل کانفرنس کی امیدوار کو حمایت کرے گی۔ پیپلز کانفرنس جس کی حلقے میں کوئی خاص پوزیشن نہیں ہے، نے چودھری ظفر علی کو کھڑا کیا ہے۔ بی جے پی جس کو گذشتہ عام انتخابات میں اس حلقے میں صرف 1.26 فیصدی ووٹ حاصل ہوئے تھے، نے صوفی یوسف جو ایم ایل سی بھی ہیں، کو کھڑا کیا ہے۔سیکورٹی ذرائع نے یو این آئی کو بتایا کہ ضلع اننت ناگ کے سبھی چھ اسمبلی حلقوں میں پولنگ کا عمل پ±رامن رہا۔ انہوں نے بتایا ‘سنگ باری کے چند معمولی واقعات کو چھوڑ کر کہیں پر بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا’۔موصولہ اطلاعات کے مطابق ضلع اننت ناگ کے چند ایک علاقوں میں مقامی نوجوانوں نے پولنگ اسٹیشنوں پر پتھراﺅ کیا جس کے بعد سیکورٹی فورسز نے آنسو گیس کا استعمال کرکے احتجاجیوں کو منتشر کیا۔ جھڑپوں میں کسی کے شدید طور پر زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔انتظامیہ نے ضلع میں پولنگ کے دوران تشدد کے خدشے کے پیش نظر سیکورٹی فورسز کی 170 کمپنیاں تعینات کی تھیں۔ اس کے علاوہ ریاستی پولیس کی بھاری نفری کو بھی تعینات کیا گیا تھا۔دوسری جانب پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کے آبائی قصبہ بجبہاڑہ میں قائم ایک پولنگ اسٹیشن پر پی ڈی پی کے کارکنوں نے نیشنل کانفرنس کے ایک پولنگ ایجنٹ کو شدید زد وکوب کیا۔واقعہ کی چند ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہیں جن میں پی ڈی پی کارکنوں کو نیشنل کانفرنس کے پولنگ ایجنٹ کو دھکے، مکے اور لاتیں مارتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ پی ڈی پی کے چند کارکن این سی پولنگ ایجنٹ پر پتھر مارتے ہوئے بھی نظر آرہے ہیں۔ ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پولنگ اسٹیشن پر تعینات فورسز اہلکاروں کی مداخلت کے بعد ہی پی ڈی پی کارکنان مذکورہ پولنگ ایجنٹ کو مارنا بند کرتے ہیں۔اطلاعات کے مطابق تشدد کا نشانہ بننے والے پولنگ ایجنٹ نے پی ڈی پی کی جانب سے مبینہ بوگس ووٹنگ پر اعتراض کیا جس پر پی ڈی پی کارکنان نے انہیں نشانہ بنایا۔ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے واقعہ پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی پی کو اپنی ہار نظر آرہی ہے۔ انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ‘انہیں اپنی ہار نظر آرہی ہے۔ لوگوں کو پیٹنے سے تقدیر نہیں بدلے گی’۔انہوں نے ایک اور ٹویٹ میں کہا ‘مفتی کے آبائی قصبہ میں کم فیصد ووٹنگ سے پی ڈی پی کے غنڈے حواس باختہ ہوگئے ہیں۔ انہوں نے اپنا غصہ ایک غریب این سی ورکر پر نکالا’۔الیکشن کمیشن کے مطابق ضلع اننت ناگ میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 5 لاکھ 29 ہزار 256 ہے۔ ان میں 2 لاکھ 69 ہزار 603 مرد، 2 لاکھ 57 ہزار 540 خواتین، 2102 سروس ووٹرز اور 11 خواجہ سرا ووٹرز شامل ہیں۔الیکشن کمیشن کے مطابق اننت ناگ پارلیمانی حلقے میں جو 18 امیدوار میدان میں ہیں، ان میں نیشنل کانفرنس کے حسنین مسعودی، بی جے پی کے صوفی یوسف، کانگریس کے غلام احمد میر، پی ڈی پی کی محبوبہ مفتی، نیشنل پنتھرس پارٹی کے نثار احمد وانی، پیپلز کانفرنس کے چودھری ظفر علی، مانو ادھیکار پارٹی کے سنجے کمار دھر، پرگتی شیل سماج وادی پارٹی کے سریندر سنگھ اور آزاد امیدوار امتیاز احمد راتھر، رضوانہ صنم، ریاض احمد بٹ، زبیر مسعودی، شمس خواجہ، علی محمد وانی، غلام محمد وانی، قیصر احمد شیخ، منظور احمد خان اور مرزا سجاد حسین بیگ شامل ہیں۔شمس خواجہ نامی امیدوار نوئیڈا اتر پردیش کا رہنے والا ہے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے ایک وکیل ہے۔ جموں و کشمیر کی انتخابی تاریخ میں پہلی بار عام انتخابات کے لئے ایک غیر ریاستی امیدوارانتخابات میں حصہ لے رہا ہے۔الیکشن کمیشن کے مطابق اننت ناگ پارلیمانی حلقے میں رائے دہندگان کی مجموعی تعداد 13 ہزار 97 ہزار 272 ہے۔ ان میں 7 لاکھ 20 ہزار 337 مرد،6 لاکھ 72 ہزار 879 خواتین اور 35 خواجہ سرا ووٹرز شامل ہیں۔سال 2104 کے اسمبلی انتخابات میں 16 اسمبلی سیٹوں میں سے11 اسمبلی سیٹوں پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد اننت ناگ پارلیمانی حلقہ پی ڈی پی کے لئے گڑھ ماناجاتا تھا لیکن پی ڈی پی کی طرف سے بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملانے کے بعد اس حلقے میں حالات میں کافی تبدیلی واقع ہوئی۔اگرچہ اننت ناگ پارلیمانی حلقے میں تمام سیاسی پارٹیوں بشمول نیشنل کانفرس، کانگریس، پی ڈی پی اور بی جے پی نے سخت حفاظتی حصار میں انتخابی جلسے کئے لیکن ان میں لوگوں کی بہت قلیل تعداد نے شرکت کی اور انتخابی مہمیں جنگجوو¿ں کے حملوں کا بھی نشانہ بنیں۔ پلوامہ کے ترال علاقے میں نیشنل کانفرنس کے ایک لیڈر کے گھر پر گرینیڈ حملہ کیا جہاں پارٹی کار کنوں جلسہ ہورہا تھا اس کے علاوہ محبوبہ مفتی کے قافلے پر پتھراو¿ بھی ہوا۔ضلع اننت ناگ میں انتخابی مہم کے دوران سیاسی جوش وخروش یکسر مفقود رہا۔ یہاں بڑے جلسوں اور ریلیوں کا انعقاد کہیں نظر نہیں آیا بلکہ سخت حفاظتی حصار میں چھوٹی چھوٹی میٹنگوں کا اہتمام کیا گیا جن میں بہت کم تعداد میں لوگ جن میں اکثریت کارکنوں کی تھی، نے شرکت کی۔بتادیں کہ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی جنوبی کشمیر کے کئی علاقوں میں منعقدہ انتخابی جلسوں میں لوگوں کی قلیل تعداد دیکھ کر بار ہا شکوہ سنج ہوئیں یہاں تک ایک جلسے میں لوگوں کی عدم دلچسپی کو دیکھ کر آبدیدہ بھی ہوئیں۔کانگریس امیدوار غلام احمد میر کے لئے سینئر پارٹی لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد نے انتخابی جلسوں سے خطاب کیا۔ بی جے پی کے لئے پارٹی کے قومی ترجمان شہنواز حسین نے اپنے امیدوار صوفی یوسف کے حق میں منعقدہ ایک انتخابی جلسے سے خطاب کیا۔یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ رواں انتخابات کے دوران تعمیر ترقی کے نعروں کے بجائے لیڈراں دفعہ 370، دفعہ 35 اے، قومی شاہراہ پرسیول ٹریفک کے لئے دو روزہ پابندی کے معاملات پر لوگوں سے ووٹ طلب کررہے ہیں۔جملہ جماعتوں کے لیڈراں نے اپنے انتخابی خطابوں میں متذکرہ دفعات کے تحفظ کے لئے لوگوں سے ووٹ مانگ کر اپنے آپ اور اپنی اپنی پارٹیوں کو ہی ان دفعات کی ڈوبتی نیا کا ناخدا قرار دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔تمام پارٹیاں بالخصوص نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی ایک دوسرے کو ریاست کی موجودہ صورتحال کی ذمہ دار قرار دینے پر ایڑی چوٹی کی زور آزمائی کررہی ہیں۔قابل ذکر ہے کہ جنوبی کشمیر میں سال 2014 کے اسمبلی انتخابات میں 16 سیٹوں میں سے 11 سیٹوں پر پی ڈٰ ی پی نے ہی کامیابی حاصل کی تھی جبکہ نیشنل کانفرنس نے صرف دو سیٹیں حاصل کی تھیں اور دو سیٹوں پر کانگریس نے قبضہ کیا تھا اور ایک سیٹ سی پی ا?ئی ایم کی جھولی میں گئی تھی۔ تاہم بعد ازاں جب پی ڈی پی نے بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملا کر ریاست میں اقتدار کی گدی سنبھالی تو صورتحال نے بھی یکسر کروٹ بدلی۔اننت ناگ پارلیمانی سیٹ پر سب سے پہلے کانگریس کے محمد شفیع قریشی نے سال 1967 میں قبضہ کیا تھا انہوں نے لگاتار دوبار اس سیٹ پر کامیابی حاصل کی بعد ازاں سال 1980 سے سال 1989 تک اس سیٹ پر نیشنل کانفرنس کے تین امیدوار غلام رسول کوچک، زوجہ شیخ محمد عبداللہ بیگم اکبر جہاں اور پی ایل ہنڈو بھاری بھاری براجمان رہے۔بعد ازاں وادی میں ملی ٹنسی شروع ہوئی جس کے باعث یہاں سال 1991 سے سال 1996 تک انتخابات نہیں ہوسکے۔تاہم سال 1996 میں جب یہاں دوبارہ عام انتخابات ہوئے تو اننت ناگ پارلیمانی سیٹ پر جنتا دل کے محمد مقبول ایک غیر معروف سیاسی لیڈر نے کامیابی کا جھنڈا گاڑا اس کے بعد سال 1998 کے عام انتخابات میں اس سیٹ پر پی ڈی پی کے بانی مرحوم مفتی محمد سعید نے کانگریس کی ٹکٹ پرکامیابی حاصل کی۔تاہم اننت ناگ پارلیمانی نشست پر سال 2004 سے سال 2014لگاتار پی ڈی پی براجمان ہے، سال 2004 میں محبوبہ مفتی، سال 2009 میں محبوب بیگ اور سال 2014 میں پھر محبوبہ مفتی نے اس سیٹ پر کامیابی حاصل کی۔ سال 2014 میں مفتی سعید کی رحلت کے بعد جب محبوبہ مفتی نے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا تو یہ سیٹ خالی ہوئی تب سے ہنوز خالی ہی ہے کیونکہ نامساعد حالات کے باعث اس سیٹ پر عام انتخابات نہ ہوسکے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا