جنوبی کشمیرمیں تکونی ٹکر؛پولنگ آج

0
0

اننت ناگ میں سیکورٹی کے غیرمعمولی انتظامات، فورسز کی 170 کمپنیاں تعینات
شاہ ہلال/یواین آئی

اننت ناگ؍وادی کشمیر کے حساس ترین علاقہ جنوبی کشمیر بالخصوص ضلع اننت ناگ کو پولنگ کے پیش نظر سیکورٹی فورسز کی بھاری تعداد میں تعیناتی سے فوجی چھاونی میں تبدیل کردیا گیا ہے۔جنوبی کشمیر کی اننت ناگ پارلیمانی نشست کے لئے تین مرحلوں پر محیط انتخابات کے پہلے مرحلے کی پولنگ منگل کو صبح 7 بجے سے سہ پہر 4 بجے تک ہوگی۔پہلے مرحلے میں ضلع اننت ناگ میں پولنگ ہوگی جو اننت ناگ، ڈورو، کوکر ناگ، شانگس، بجبہاڑہ اور پہلگام اسمبلی حلقوں پر مشتمل ہے۔اننت ناگ رواں پارلیمانی انتخابات میں ملک کا واحد ایسا حلقہ ہے جس میں تین مرحلوں میں ووٹ ڈالے جانے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ جنوبی کشمیر کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے لیا ہے۔سرکاری ذرائع نے یو این آئی کو بتایا کہ ضلع اننت ناگ جہاں منگل کے روز عام انتخابات کے تیسرے مگر اننت ناگ پارلیمانی نشست کے پہلے مرحلے کے تحت ووٹ ڈالے جانے ہیں، سیکورٹی کے غیرمعمولی انتظامات کئے گئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ضلع میں پولنگ کے دوران تشدد کے خدشے کے پیش نظر سیکورٹی فورسز کی 170 کمپنیاں تعینات کی گئی ہیں۔سرکاری ذرائع نے بتایا کہ پولنگ عملے کو فورسز کی معقول نفری کے ہمراہ متعلقہ پولنگ مراکز کی جانب روانہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا ‘ہر ایک پولنگ مرکز کے علاوہ تمام حساس علاقوں میں سیکورٹی فورسز اہلکار تعینات رہیں گے’۔ضلع مجسٹریٹ اننت ناگ خالد جہانگیر جو کہ اننت ناگ پارلیمانی حلقے کے ریٹرنگ افسر بھی ہیں، نے یو این آئی کو بتایا ‘ضلع میں پولنگ کے پُرامن انعقاد کو یقینی بنانے کے لئے تین دائروں والی سیکورٹی سمیت تمام انتظامات کرلئے گئے ہیں’۔انہوں نے بتایا ‘الیکشن کمیشن آف انڈیا کے نوٹیفکیشن کے مطابق اننت ناگ پارلیمانی نشست کے لئے انتخابات تین مرحلوں میں ہوں گے جس کا آغاز منگل کے روز سے ہوگا’۔ذرائع نے بتایا کہ اننت ناگ پارلیمانی نشست کے انتخابات کے لئے قائم کئے گئے 1842 پولنگ مرکز میں سے 90 فیصد کو حساس ترین جبکہ باقی دس فیصد کو حساس زمرے میں رکھا گیا ہے۔انہوں نے بتایا ‘پولنگ مراکز پر رائے دہندگان کو بہتر ماحول فراہم کرنے کے لئے ضروری ہر ایک قدم اٹھایا گیا ہے’۔واضح رہے کہ شمالی اور وسطی کشمیر میں انتخابات اختتام پذیر ہونے کے بعد اب تمام نظریں جنوبی کشمیر پر مرکوز ہیں۔ یہاں منگل کے علاوہ 29 اپریل اور6 مئی کو تین مرحلوں میں پولنگ ہوگی جس میں قریب 14 لاکھ رائے دہندگان 18 امیدواروں کے سیاسی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔چار اضلاع اننت ناگ، کولگام، شوپیاں اور پلوامہ پر مشتمل اننت ناگ پارلیمانی حلقے میں الیکشن کمیشن نے پولنگ اوقات میں دو گھنٹوں کی کمی کی ہے۔ سیکورٹی وجوہات کی بناء پر پولنگ صبح کے سات بجے شروع ہوکر سہہ پہر کے چار بجے اختتام پذیر ہوگی۔اننت ناگ پارلیمانی حلقے میں اگر چہ 18 امیدوار اپنی قسمت آزمائی کررہے ہیں لیکن اصل اور سخت مقابلہ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی، کانگریس کے ریاستی صدر غلام احمد میر اور نیشنل کانفرنس کے جسٹس (ر) حسنین مسعودی کے درمیان ہے۔ سی پی آئی ایم جس نے اس حلقے سے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا ہے، نیشنل کانفرنس کی امیدوار کو حمایت کرے گی۔ پیپلز کانفرنس جس کی حلقے میں کوئی خاص پوزیشن نہیں ہے، نے چودھری ظفر علی کو کھڑا کیا ہے۔ بی جے پی جس کو گذشتہ عام انتخابات میں اس حلقے میں صرف 1.26 فیصدی ووٹ حاصل ہوئے تھے، نے صوفی یوسف جو ایم ایل سی بھی ہیں، کو کھڑا کیا ہے۔ضلع اننت ناگ جہاں منگل کو ووٹ ڈالے جانے ہیں، میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 5 لاکھ 29 ہزار 256 ہے۔ ان میں 2 لاکھ 69 ہزار 603 مرد، 2 لاکھ 57 ہزار 540 خواتین، 2102 سروس ووٹرز اور 11 خواجہ سرا ووٹرز شامل ہیں۔ ضلع میں 714 پولنگ مراکز قائم کئے گئے ہیں۔اننت ناگ، ڈورو، کوکر ناگ، شانگس، بجبہاڑہ اور پہلگام اسمبلی حلقوں پر مشتمل ضلع اننت ناگ کے کوکر ناگ اسمبلی حلقے میں 48 ہزار 742 مرد اور 44 ہزار 948 خواتین اور 180 سروس ووٹروں سمیت سب سے زیادہ 93 ہزار 874 ووٹر درج ہیں جبکہ ڈورو میں 40 ہزار 764 مرد، 37 ہزار 889 خواتین اور 374 سروس ووٹروں سمیت سب سے کم 79 ہزار 29 ووٹر درج ہیں۔الیکشن کمیشن کے مطابق اننت ناگ پارلیمانی حلقے میں جو 18 امیدوار میدان میں ہیں، ان میں نیشنل کانفرنس کے حسنین مسعودی، بی جے پی کے صوفی یوسف، کانگریس کے غلام احمد میر، پی ڈی پی کی محبوبہ مفتی، نیشنل پنتھرس پارٹی کے نثار احمد وانی، پیپلز کانفرنس کے چودھری ظفر علی، مانو ادھیکار پارٹی کے سنجے کمار دھر، پرگتی شیل سماج وادی پارٹی کے سریندر سنگھ اور آزاد امیدوار امتیاز احمد راتھر، رضوانہ صنم، ریاض احمد بٹ، زبیر مسعودی، شمس خواجہ، علی محمد وانی، غلام محمد وانی، قیصر احمد شیخ، منظور احمد خان اور مرزا سجاد حسین بیگ شامل ہیں۔شمس خواجہ نامی امیدوار نوئیڈا اتر پردیش کا رہنے والا ہے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے ایک وکیل ہے۔ جموں و کشمیر کی انتخابی تاریخ میں پہلی بار عام انتخابات کے لئے ایک غیر ریاستی امیدوارانتخابات میں حصہ لے رہا ہے۔انتخابی کمیشن کے مطابق اننت ناگ پارلیمانی حلقے میں رائے دہندگان کی مجموعی تعداد 13 ہزار 97 ہزار 272 ہے۔ ان میں 7 لاکھ 20 ہزار 337 مرد،6 لاکھ 72 ہزار 879 خواتین اور 35 خواجہ سرا ووٹرز شامل ہیں۔کمیشن کے ایک عہدیدار نے بتایا ‘ضلع اننت ناگ کے لئے 23 اپریل، کوگام کے لئے 29 اپریل اور پلوامہ اور شوپیاں کے لئے 6 مئی کو پولنگ صبح سات بجے سے شام 4 بجے تک ہو گی۔ حلقے میں 1842 پولنگ مراکز قایم کئے گئے ہیں’۔الیکشن کمیشن نے اننت ناگ پارلیمانی حلقہ کے پولنگ اوقات میں تبدیلی لائی ہے۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ اننت ناگ پارلیمانی حلقہ کے تمام پولنگ مراکز پر پولنگ کے اوقات صبح 7 بجے سے سہ پہر 4 بجے تک ہوں گے۔کمیشن نے 28 مارچ کو یہ اوقات صبح7 بجے سے شام 6 بجے تک نوٹیفائی کئے تھے۔کمیشن نے ریاستی حکومت، ضلع انتظامیہ اور پولیس کی رپورٹوں اور امن و قانون کی صورتحال سے جڑے دیگر معاملات کو ملحوظ نظر رکھ کر پولنگ اوقات میں ترمیم کی ہے۔سال 2104 کے اسمبلی انتخابات میں 16 اسمبلی سیٹوں میں سے11 اسمبلی سیٹوں پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد اننت ناگ پارلیمانی حلقہ پی ڈی پی کے لئے گڑھ ماناجاتا تھا لیکن پی ڈی پی کی طرف سے بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملانے کے بعد اس حلقے میں حالات میں کافی تبدیلی واقع ہوئی۔اگرچہ اننت ناگ پارلیمانی حلقے میں تمام سیاسی پارٹیوں بشمول نیشنل کانفرس، کانگریس، پی ڈی پی اور بی جے پی نے سخت حفاظتی حصار میں انتخابی جلسے کئے لیکن ان میں لوگوں کی بہت قلیل تعداد نے شرکت کی اور انتخابی مہمیں جنگجوؤں کے حملوں کا بھی نشانہ بنیں۔ پلوامہ کے ترال علاقے میں نیشنل کانفرنس کے ایک لیڈر کے گھر پر گرینیڈ حملہ کیا جہاں پارٹی کار کنوں جلسہ ہورہا تھا اس کے علاوہ محبوبہ مفتی کے قافلے پر پتھراؤ بھی ہوا۔ضلع اننت ناگ میں انتخابی مہم کے دوران سیاسی جوش وخروش یکسر مفقود رہا۔ یہاں بڑے جلسوں اور ریلیوں کا انعقاد کہیں نظر نہیں آیا بلکہ سخت حفاظتی حصار میں چھوٹی چھوٹی میٹنگوں کا اہتمام کیا گیا جن میں بہت کم تعداد میں لوگ جن میں اکثریت کارکنوں کی تھی، نے شرکت کی۔بتادیں کہ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی جنوبی کشمیر کے کئی علاقوں میں منعقدہ انتخابی جلسوں میں لوگوں کی قلیل تعداد دیکھ کر بار ہا شکوہ سنج ہوئیں یہاں تک ایک جلسے میں لوگوں کی عدم دلچسپی کو دیکھ کر آبدیدہ بھی ہوئیں۔کانگریس امیدوار غلام احمد میر کے لئے سینئر پارٹی لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد نے انتخابی جلسوں سے خطاب کیا۔ بی جے پی کے لئے پارٹی کے قومی ترجمان شہنواز حسین نے اپنے امیدوار صوفی یوسف کے حق میں منعقدہ ایک انتخابی جلسے سے خطاب کیا۔یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ رواں انتخابات کے دوران تعمیر ترقی کے نعروں کے بجائے لیڈراں دفعہ 370، دفعہ 35 اے، قومی شاہراہ پرسیول ٹریفک کے لئے دو روزہ پابندی کے معاملات پر لوگوں سے ووٹ طلب کررہے ہیں۔جملہ جماعتوں کے لیڈراں نے اپنے انتخابی خطابوں میں متذکرہ دفعات کے تحفظ کے لئے لوگوں سے ووٹ مانگ کر اپنے آپ اور اپنی اپنی پارٹیوں کو ہی ان دفعات کی ڈوبتی نیا کا ناخدا قرار دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔تمام پارٹیاں بالخصوص نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی ایک دوسرے کو ریاست کی موجودہ صورتحال کی ذمہ دار قرار دینے پر ایڑی چوٹی کی زور آزمائی کررہی ہیں۔قابل ذکر ہے کہ جنوبی کشمیر میں سال 2014 کے اسمبلی انتخابات میں 16 سیٹوں میں سے 11 سیٹوں پر پی ڈٰ ی پی نے ہی کامیابی حاصل کی تھی جبکہ نیشنل کانفرنس نے صرف دو سیٹیں حاصل کی تھیں اور دو سیٹوں پر کانگریس نے قبضہ کیا تھا اور ایک سیٹ سی پی آئی ایم کی جھولی میں گئی تھی۔ تاہم بعد ازاں جب پی ڈی پی نے بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملا کر ریاست میں اقتدار کی گدی سنبھالی تو صورتحال نے بھی یکسر کروٹ بدلی۔اننت ناگ پارلیمانی سیٹ پر سب سے پہلے کانگریس کے محمد شفیع قریشی نے سال 1967 میں قبضہ کیا تھا انہوں نے لگاتار دوبار اس سیٹ پر کامیابی حاصل کی بعد ازاں سال 1980 سے سال 1989 تک اس سیٹ پر نیشنل کانفرنس کے تین امیدوار غلام رسول کوچک، زوجہ شیخ محمد عبداللہ بیگم اکبر جہاں اور پی ایل ہنڈو بھاری بھاری براجمان رہے۔بعد ازاں وادی میں ملی ٹنسی شروع ہوئی جس کے باعث یہاں سال 1991 سے سال 1996 تک انتخابات نہیں ہوسکے۔تاہم سال 1996 میں جب یہاں دوبارہ عام انتخابات ہوئے تو اننت ناگ پارلیمانی سیٹ پر جنتا دل کے محمد مقبول ایک غیر معروف سیاسی لیڈر نے کامیابی کا جھنڈا گاڑا اس کے بعد سال 1998 کے عام انتخابات میں اس سیٹ پر پی ڈی پی کے بانی مرحوم مفتی محمد سعید نے کانگریس کی ٹکٹ پرکامیابی حاصل کی۔تاہم اننت ناگ پارلیمانی نشست پر سال 2004 سے سال 2014لگاتار پی ڈی پی براجمان ہے، سال 2004 میں محبوبہ مفتی، سال 2009 میں محبوب بیگ اور سال 2014 میں پھر محبوبہ مفتی نے اس سیٹ پر کامیابی حاصل کی۔ سال 2014 میں مفتی سعید کی رحلت کے بعد جب محبوبہ مفتی نے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا تو یہ سیٹ خالی ہوئی تب سے ہنوز خالی ہی ہے کیونکہ نامساعد حالات کے باعث اس سیٹ پر عام انتخابات نہ ہوسکے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا