اردو کا ایک خاموش تحقیق نگار: ڈاکٹر برج پریمی

0
0
  دیپک بدکی
نوئیڈا،یوپی
اردو ادب میں جب بھی اور جہاں بھی سعادت حسن منٹو کا چرچا ہوگا وہاں ڈاکٹر برج پریمی کا نام ضرور آئے گا۔ انھوں نے نا مساعد حالات کے باوجود فکر و تصور میں منٹو کی زندگی جی لی اور ایک غواص کی مانند اتھاہ گہرائیوں سے فنِ سعادت کے موتی نکالے۔منٹو پر مقالہ لکھتے وقت وہ یہ بھول گئے کہ وہ ایک اچھے افسانہ نگار ہیں کیونکہ انھوں نے اپنی ساری قوت منٹو کی حیات اور فن کو سمجھنے کے لیے صرف کرلی۔مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ ان کا تحقیقی مقالہ  ’سعادت حسن منٹو ۔ حیات اور کارنامے ‘جو ۱۹۸۶ء میں کتابی صورت میں شائع ہوا، بر صغیر ہند و پاک میں اپنی نوعیت کا پہلا مقالہ ہے۔ایسا نہیں ہے کہ اس مقالے سے پہلے منٹو پر کتابیں نہیں لکھی گئی تھیں مگر یہ مقالہ مبسوط اور کثیر الجہاتی ہے اور منٹو کی زندگی اور فن کے ہر پہلو پر روشنی ڈالتا ہے۔دراصل پریمیؔ نے منٹوؔ کے لیے وہی کام کیا جو عرصہ پہلے حالیؔ نے غالبؔ کے لیے کیا تھا۔
  ڈاکٹر برج پریمی (اصل نام :برج کرشن ایمہ) ۲۴ ستمبر ۱۹۳۵ء کو درابی یار ، سرینگر کشمیر میں پیدا ہوئے ۔ والد کے بے وقت سورگباش ہونے کی وجہ سے انھیں پڑھائی ترک کرنا پڑی اور والد مرحوم کی جگہ بحیثیت استاد ( بوائے سروس) نوکری کرنا پڑی۔ تاہم ملازمت کے دوران انھوں نے اپنی تعلیم جاری رکھی اور کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اردو (آنرز)، بی ایڈ اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔سائنس اسٹوڈنٹ ہونے کے باوجود انھیں بچپن ہی میں اردو ادب پڑھنے اورلکھنے کا شوق ہوا۔ ابتدا میںسکول میں معلمی کرنے پر اکتفا کیا اور بعد میں یونیورسٹی میں لکچرر بن گئے جہاں وہ ریڈر شعبۂ اردو کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ کئی اکادمیوں اور تنظیموں نے ان کو اعزازات اور انعامات سے نوازا ۔
برج پریمی کی یہ دیوانگی ان کو بہت دور تک لے گئی۔ ویسے بھی انھیں ادب وراثت میں ملا تھا اور والد کی وجہ سے گھر میں ادیبوں کی محفلیں سجتی تھیں تاہم انھوں نے اس میدان میں نام پیدا کرنے کے لیے ان تھک کوششیں کیں اور وقتی ناکامیوں کا سامناکرکے آخر کار کامیابی حاصل کر لی۔اپنی کچھ ناکامیوں کے بارے میں وہ فرماتے ہیں:
’’اسی زمانے میں(بیسویں صدی کی چھٹی دہائی ،جب عبدالقادر سروری شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی کے صدر تھے)کسی مقامی کالج میں اردو کے لیکچرر کی اسامی خالی ہوگئی تھی۔ سروری صاحب ماہر کی حیثیت سے انٹرویو بورڈ میں تھے۔میں بھی امید وار تھا۔ مجھے یہ زعم تھا کہ بڑا مضبوط امیدوار ہوں کیونکہ ایم اے میں امتیاز حاصل کیا تھا اور مقابلہ بھی سخت نہیں تھا۔ میرا انٹرویو بھی اچھا ہوا تھااور میں مطمئن تھا لیکن جب نتیجہ برآمد ہوا تو میں خوش قسمت امید وار نہیں تھا۔میرا پتہ کٹ گیا تھا۔‘‘
(مضمون ’عبدالقادر سروری‘ بحوالہ ذوقِ نظر)
اس واقعے کے بعد سروری صاحب نے پریمی کو بتایا کہ کسی سیاسی سفارش کے سبب اس کاپتہ کٹ گیا تھا ا ور ’’آپکی صلاحیت سے مطمئن ہوں ۔ اللہ نے چاہا اگلی بار آپ کا کام ہوگا۔‘‘ مگر سروری کے ہو تے ہوئے نہ وہ اگلی بار آئی اور نہ وہ لیکچر ر بنے اور اس پر طرّہ یہ کہ انھیں ریسرچ اسکالر کے طور پر یونیورسٹی میں داخلے کے لیے سات سال انتظار کرنا پڑا۔ خیر جب ۱۹۶۷ء میں رجسٹریشن ہوئی تو حامدی ؔکشمیری کو نگراں مقرر کیا گیا حالانکہ سروری صاحب بھی وقتاً فوقتاً رہنمائی کرتے رہے۔بہر حال سروری صاحب کے ساتھ برج پریمی کا تعلق ان کے پروجیکٹ ’تاریخ ادبیات کشمیر‘ کے حوالے سے تقریباً چھہ سال رہا جو ان کے لیے کافی فائدہ مند ثابت ہوا۔ آخر کار برج پریمی کو ۱۹۷۶ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگر ی تفویض ہوئی اور اس کے بعد ہی ان کی تقرری کشمیر یونیورسٹی کے اردو شعبے میں بھی ہوئی۔ان کے مقالے ’سعادت حسن منٹو ۔حیات اور کارنامے‘کو آخری روپ دینے میں ان کے فرزند پریمی رومانی کا کافی ہاتھ رہا۔ مکمل ہونے کے باوجود مقالہ بہت وقت تک الماری میں پڑارہا ۔ ایک روز پریمی رومانی ، جس کے ساتھ میرا دوستانہ انھیں دنوں شروع ہوا تھا، کو یہ معلوم ہوا کہ میں کتابت بھی کرلیتا ہوں۔ بازار سے کتابت کروانے میں ضروری تھا کہ تین کاپیوںکی الگ الگ کتابت کرائی جائے کیونکہ ان دنوں نہ تو فوٹواسٹیٹ تھا اور نہ کمپیوٹر۔ اس نے مجھ سے اس بارے میں بات کی اور میں نے اسے تینوں کاپیاں ایک ساتھ نکالنے کی ترکیب بتائی۔ اس کی درخواست پرمیں نے تھیسز کے قریباً ساٹھ فیصد حصے کی کتابت کرلی ۔ رات کے بارہ ایک بجے تک ہم دونوں اس کے گھر میں بیٹھے رہتے، اس کے والد صاحب نظر ثانی کیا ہوا مسودہ تھمادیتے اورشفیق ماں کئی بار چائے سامنے رکھ دیتیں۔ انہی دنوں میں آئی اے ایس کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا اور مجھے احساس ہوا کہ میں اپنے فوکس سے بھٹک رہا ہوں۔اس لیے میں نے پریمی رومانی کو باقی حصہ خود ہی مکمل کرنے کے لیے کہا جو اس نے بڑی لگن اور تندہی سے کیا۔ تھیسز تیار ہوئی البتہ بائنڈنگ کے سمئے میں نے ہر باب کے لیے منٹو کے خوبصورت کیری کیچرز(Caricatures) بناکر اس تھیسز کی تزئین کی۔ مقالہ یونیورسٹی میں داخل ہوا اور چند ہی مہینوں میں برج پریمی کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی گئی۔
برج پریمی کا مقالہ تاریخ ساز مقالہ ثابت ہوا۔ دراصل آزادی سے پہلے ہی سعادت حسن منٹو اپنی نگارشات کی وجہ سے کافی بدنام ہوچکے تھے اور پھر تقسیم وطن کے بعد وہ ہجرت کرکے پاکستان میں جا بسے۔ بٹوارے کے بعد یوں بھی اردو زبان سیاست کے ہتھے چڑھ گئی اور اس پر منٹو کو تحقیق کا موضوع بنانا جان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف تھا۔اس کے لیے دل گُردہ کی ضرورت تھی۔ برج پریمی نے یہ چیلنج قبول کر لیااور اپنی محنت شاقہ ، دقیقہ ریزی اور جانفشانی سے اس کام کو سر انجام دیا۔ منٹو اور ان کے اکثر ساتھی پاکستان ہجرت کر کے چلے گئے تھے، مواصلاتی نظام کی پابندیوں کے باعث پاکستان میں ان کے ساتھ رابطہ قائم کرنا مشکل ہو گیا اور وہ بھی کشمیر سے، پھر جو لوگ ممبئی میں بچے تھے اور منٹو کو جانتے تھے انھوں نے برج پریمی کے خطوط کا جواب نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا یہ تحقیقی کام بہت ہی معنی خیز ہے۔ اس مقالے کے بارے میں چند نامور نقادوں اور ادیبوں کے تاثرات پیش خدمت ہیں:
٭’’ڈاکٹر برج پریمی اردو کے ان معلمین میں سے ہیں جو خاموشی سے علمی کام کرتے رہتے ہیں۔ وہ ہندوستان کے ان معدودے چند لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے سعادت حسن منٹو کا مطالعہ نہایت دل سوزی سے کیا ہے۔  ( گوپی چند نارنگ)٭’’برج پریمی نے’ سعادت حسن منٹو ۔حیات اور کارنامے ‘ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھا ہے جو ابھی تک منٹوپر شائع ہونے والے سبھی مضامین او ر کتابوں پر بھاری ہے۔ منٹو کے خاندان ،اسلاف اور ان کی اپنی شخصیت کے بارے میں بڑی محنت اور دیدہ ریزی سے برج پریمی نے بڑی دلچسپ معلومات فراہم کی ہیں جو عام طور پر لوگوں کی علم میںنہیں ہیں۔‘‘  (پروفیسر محمد حسن)
برج پریمی نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا اور ان کے افسانے مقامی اور غیر مقامی اخباروں اور رسالوں میں چھپتے رہے۔وہ اپنی کہانیاں انجمن ارباب ذوق سرینگر اور حلقۂ علم و ادب سرینگر کی نشستوں میں بھی پڑھتے رہے۔ ان کا سب سے پہلا افسانہ ’آقا‘ ۱۹۴۹ء میں روزنامہ امر جیوتی سرینگر میں شائع ہوا جب وہ صرف ۱۴ سال کے تھے۔انھوں نے اپنے ذاتی غم کو سارے جہاں کے غم سے ہمکنار کرلیا اور کشمیر کے غریب کسانوں اور مزدوروں کی خستہ حالی اور بے کسی کو اپنا موضوع بنا لیا۔ ایک طرف وہ کرشن چندر کے بہت بڑے شیدا تھے اور دوسری طرف پریم ناتھ پردیسیؔ کو اپنا آئیڈیل مانتے تھے۔انھوں نے بہت سارے افسانے تحریر کیے مگر وادی سے ہجرت کی سبب کئی کہانیاں تلف ہوگئیں۔ ان کے فرزند پریمی رومانی نے آخرکار ان کی سولہ کہانیوں کو ’سپنوں کی شام ‘ کے عنوان سے شائع کیا۔ان افسانوں کے نام یوں ہیں: مانسبل جب سوکھ گیا، لرزتے آنسو، ہنسی کی موت، بہتے ناسور، ننھی کہانیاں، اجڑی بہاروں کے اجڑے پھول، یاد،شرنارتھی، چلمن کے سایوں میں، آنسوؤں کے دیپ، سپنوں کی شام،میرے بچے کی سالگرہ، امر جیوتی، لمحوں کی راکھ، ٹیسیں درد کی اورخوابوں کے دریچے۔ کشمیر کے تناظر میں لکھی گئی یہ کہانیاں حقیقت پسندی اور ترقی پسندی کا آئینہ ہیں۔برج پریمی کے یہاں حساس ذہن اور درد مند دل ہے جو ایک مساواتی سماج اور شفاف سیاسی نظام کا خواہاں ہے۔دھیرے دھیرے ان کے اندر چھپا ہوا محقق ان کی افسانہ نگاری پر حاوی ہوگیا اور انھوں نے افسانے لکھنا کم کردیا۔برج پریمی صحافت سے بھی جڑے رہے اور اپنے سوشلسٹ خیالات کا اظہار اپنے کالموں کے ذریعے کرتے رہے۔ ان کاسلسلہ وارکالم ’قاشیں‘ یگ دیپ کے قلمی نام سے ’مارتنڈ ‘اور’ جیوتی‘ میں چھپتا رہا جو کافی مقبول ہوا۔
منٹو پر ان کا تحقیقی مقالہ شائع ہونے کے بعد انھیں بحیثیت محقق اور تنقید نگار کے کافی شہرت ملی اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس طرف زیادہ توجہ دی۔ اس کے باوجود انھوںنے کبھی محقق یا نقاد ہونے کا زعم نہیں پالا۔
 موصوف ، جیسا کہ اس سے پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے ،ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے ۔ ان کی سوچ سیکولر اور دردمندانہ تھی ۔ وہ غریب ، مفلوک الحال کسانوں اور مزدوروں کی حمایت میں قلم اٹھاتے تھے ۔ ان کی تحریروں سے واضح ہے کہ انھوں نے زیادہ تر ترقی پسند شاعروں جیسے ساحر لدھیانوی، مہجورؔ، افسانہ نگاروں جیسے کرشن چندر، خواجہ احمد عباس اور اوپندر ناتھ اشک پر مضامین لکھے ہیں ۔ سعادت حسن منٹو کو بھی وہ ترقی پسند وں میں ہی شمار کرتے تھے۔ برج پریمی سے اردو زبان کو بہت ساری امیدیںتھیں مگر ایشور نے ۱۹۹۰ء میں انھیں جوانی میں ہی اپنے پاس بلایا ۔ انھوں نے عمر بھر سیکولر اور مساواتی معاشرے کے لیے اپنی ساری زندگی وقف کی مگر آخر کار انھیں مذہبی انتہا پسندی کے باعث اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا اور آخری وقت پر جموں میں پناہ گزینوں کی زندگی بسر کرنا پڑی جس صدمے کو وہ برداشت نہیں کر پائے اور اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پریمی رومانی نے نہ صرف بیٹے کا حق ادا کیا بلکہ جو کام ان کے سورگیہ پتا جی ادھورا چھوڑ گیے اس کی تکمیل کا بیڑا بھی اٹھایا جو ہنوز جاری ہے۔ مذکورہ بالا کتابوں کے علاوہ انھوں نے برج پریمی ۔ایک مطالعہ (۱۹۹۳ء) اور برج پریمی۔ شخصیت اور فن (۲۰۰۳ء)وغیرہم بھی شائع کیں۔ اول الذکر میں برج پریمی کو قریب سے جاننے والے دوست و احباب کے تاثرات اوران کی افسانوی، تحقیقی و تنقیدی تصانیف پر مشاہیر کی آرا جمع کی گئی ہیں جبکہ آخر الذکر میںمختصر خود نوشت، برج پریمی کی شخصیت ، ان کی حیات کے مختلف پہلوؤں، ان کی افسانہ نگاری اور دیگر تصانیف پر مشاہیر کی آرااور منظوم خراج عقیدت شامل کیے گئے ہیں۔قطع نظر اس کے برج پریمی اپنے ساتھ’ ادھورے خواب ‘ لے گئے۔ ان کے ذہن میں جوتجربات ، تحقیقات اور انتقادیات کا خاکہ تھا،جس کو انھوں نے مستقبل کے لیے رکھ چھوڑا تھا، وہ صفحۂ قرطاس پر آنے سے رہا اور اس طرح اردو ادب اس بیش بہا خزانے سے محروم رہ گیا۔
ان کو منٹویات کے حوالے سے اعلیٰ مقام پر جگہ دیتی ہے۔اتنا ہی نہیں ڈاکٹر صاحب کی کشمیریات اور شخصیات سے متعلق نگارشات بھی انھیں شہرت کی بلندیوں سے ہمکنار کرتی ہیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا