زبید خان (انشا اردو گائڈ)
سیکری،بھرتپور راجستھان
فون نمبر +918875350095
شادی کے پہلے شبینہ کو لگتا تھاکہ بچوں کی پیدا ئش کوئی مسئلہ نہیں،یہ ایک قدرتی نظام ہے کہ شادی ہوئی نہ کہ اولاد اللہ پاک گودی میں ڈال دیتے ہیں۔کچھ ایسی ہی سوچ شبینہ اپنے دماغ میں بنائے ہوئے تھی۔اور ہمیشہ کہتی بھی تھی کہ شادی کے کم سے کم دو سال تک بچے پیدا کرنے کا سوچوں گی بھی نہیں۔والدین نے لڑکاتلاش کیا اور شادی جیسے عظیم بندھن میں باندھ دیا گیا۔اب تک وہ صرف بیٹی اور بہن تھی لیکن اب وہ کسی کی بہو کسی بیوی بنا دی گئی تھی، ذمیداریاں کاندھوں پر آگئیں۔اس کے باوجود اس کے اندر ماں جیسا دل تھا نہ ماں جیسا سمجھدار دماغ۔اس کے ذہن میں ایک ہی بات رہتی کہ وہ جب چاہے تب ماں بن جائے گی۔لیکن افسوس!خوشی کے یہ پل چند ہی دنوں کے مہمان تھے۔
شادی کے پانچ مہینے بعد ایک روز اچانک اس کی طبیعت بگڑ گئی،اسے تھکان اور بوجھل پن محسوس ہونے لگا بستر پر لیٹے ہوئے وہ یہ سوچ رہی تھی کہ یہ اچانک طبیعت کو کیا ہو گیا؟پھر اسے شک ہونے لگا کہ کہیں وہ حاملہ تو نہیں!سارا دن اسی سوچ میں بیت گیا۔اس نے(pregnancy test) حاملہ جانچ بھی کروائے تب شک یقین میں بدل گیا۔لیکن وہ رنجیدہ نہیں بلکہ خوشی کا احساس تھا اس کے دل کا ہر گوشہ خوشیوں سے بھر گیا۔
گھر پر وہ ابھی بھی اکیلی تھی۔خاوند کسی کام سے باہر گیا ہوا تھا جو شاید دیر رات تک آئے گا۔کیا کرے؟کسے بتائے؟ اس کی خوشی کا ٹھکانا نا تھا۔وہ بار بار اپنے پیٹ پر ہاتھ لگاتی اس ننھی جان کو محسوس کرتی جو صرف ابھی کچھ ہی دنوں کا تھا۔یہ لمحہ اس کی زندگی کا سب سے خاص لمحہ تھاجس میں اس کے اندر ایک ننھی جان پل تھی۔
دل و دماغ میں ایک الگ ہی بے چینی تھی۔اچانک اسے دروازے پر دستک سنائی دی۔اس نے جلدی سے دروازہ کھولا، سامنے شوہر نامدار کو پاکر اسے بہت مسرت ہوئی۔ ہونٹوں پہ مسکان،آنکھوں میں شرم اور ماں بننے کی خوشی۔یہ لمحات بہت خوبصورت تھے شوہر کو یہ خوشی کی نوید سنا کروہ اپنے خاوند کو سب کچھ جلدی بتا کر خوش کرنا چاہ رہی تھی۔ایک لمحہ بھی ضائع کرنا اسے گوارہ نہ تھا۔ان کا غسل خانے سے نکلنے کا انتظار اتنی بے صبری سے ہو رہا تھا جتنا شادی کے وقت بھی نہیں ہوا ہوگا۔کیسے بتاو?ں گی؟کیا کہوں گی؟کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔جب شوہر freshہوکر کمرے میں داخل ہوئے تو انھوں نے شبینہ کی آنکھوں کی چمک دیکھ کر تعجب سے پو چھا۔ خیریت؟
جواب میں شبینہ نے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھتے ہو ئے شرمیلے انداز میں مسکرادیا اور خود کے ماں بننے کی خوشخبری سنائی۔یہ سن کر اس کا شوہر خوشی سے جھوم اٹھا۔ان دونوں نے اس خوشخبری کو خاندان کے بڑے بزرگوں کو سنایا۔
وہ جو کبھی ماں بننے کے نام سے ہی نفرت کیا کرتی تھی آج اس مسرت بھرے احساس سے ہی جھوم رہی تھی۔ اسے عورت کے وجود کے بارے میں پتا چلا کہ ایک لڑکی جب ماں بنتی ہے تو اس کا یہ احساس ہی دنیا کی تمام خوشیاں اس کی جھولی میں ڈال دیتا ہے۔ان خوشیوں کے درمیان ایک ڈر جو اس کے دل میں گھرا تھاوہ یہ کہ اس کی ننھی جان کو نو مہینے اپنے وجود میں محفوظ رکھنا ہے۔وہ سوچتی رہی کہ ایسا کیا کرےکہ اس سے کوئی بھی غلطی سرزد نہ ہو؟جیسے دھیرے چلنا،دھیرے سے بیٹھنا۔ہر لمحہ کسی کے ساتھ ہونے کا احساس اچھا لگ رہا تھا۔اس کاخاوندبہت خیال رکھ رہا تھا۔ایسا لگ رہا تھا کہ وہ دنیا کی سب سے خوش نصیب عورت ہے،ہر چھوٹی چیز کے لیے اس کا شوہر دوڑا ہواچلا آتا اور اسکی مدد کر دیا کرتا۔ہلکا سا وزن بھی اٹھانے نہیں دیتا۔اتنی محبت مل رہی تھی کہ وہ سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی۔اولاد اتنی خوشیاں دے سکتی ہے اسنے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
ایک دن اچانک صبح اس کے میکے سے فون آ یا کہ اس کے والد کوفالج کا اثر ہو گیا۔وہ یہ سن کر جیسے پاگل ہو گئی،ابو جسے وہ دنیا کے ہر رشتے سے بڑھ کر چاہا کرتی تھی ان کے ساتھ اس طرح ہو سکتا ہے اس نے سوچا بھی نا تھا۔روروکر برا حال ہوگیا پھر وہ والد صاحب سے ملنے چلی گئی۔والد صاحب کی خدمت کرنا چاہتی تھی لیکن پیٹ میں وجود کے اندر بیٹھی اس ننھی سی جان کا خیال رکھنا بھی اس کے لیے بے حد ضروری تھا۔اللہ کا شکر کے دھیرے دھیرے والد صاحب کی صحت کچھ بہتر ہونے لگی۔وقت تو اپنی رفتار سے آگے بڑھتا جا رہا تھا،لیکن پتا نہیں کیوں ہر وقت بے چینی سی لگی رہتی۔اس طرح سات ماہ گزر گئے۔اب وہ گھر کے کام کاج میں بھی بہت کم حصہ لیا کرتی۔وجود کا حصہ یہ ننھی سی جان اپنا احساس ہر لمحہ بلایا کرتی،جو نہایت مسرت کا باعث بنتا۔اس ننھی سی جان نے جب پہلی بار اپنی ہلکی سی ہلچل کا احساس دلایاتو اسے بہت اچھا لگا تھا۔اس طرح آٹھ ماہ مکمل ہو گیے اور ڈلیوری کا وقت قریب آگیا۔اس نے فون کر اپنی والدہ کو گھر اپنے پاس ہی بلوالیا۔
عشاءکی اذان کے وقت اسے کچھ درد محسوس ہوا،اس کے شوہر نے جلدی سے گاڑھی نکالی اور اسے لیکر ہسپتال روانا ہو گیے۔
شبینہ کے شوہر اور والدہ بہت فکر مند تھے کیوں کہ شبینہ درد سے بے چین کراہ رہی تھی اور چلا بھی رہی تھی۔شبینہ کو جب ہسپتال میں ایڈمٹ کیا گیا تو وہاں پر اس وقت ڈاکٹر ڈیوٹی پر نہ تھے اور کوئی نرس بھی ٹھیک سے کیئر نہیں کر پا رہی تھی۔دو اور خواتین تھیں جو درد زہ میں مبتلا تڑپ رہیں تھیں۔کمرے میں ایک نرس داخل ہوئی جو نرس نہیں بلکہ ملازمہ لگ رہی تھی۔وہ طنزیہ انداز میں کہنے لگی”ہر سال آجاتی ہو ایک ہزار چار سو روپیے لینے کے لالچ میں،شرم تو آتی نہیں تمہیں ”’۔
شبینہ کو جب لیبر ٹیبل پر لیٹایا گیا تو وہ گھبرائی ہوئی سی تھی۔نرس نے اسے حوصلہ دینے کے بجائے بہت زور سے ڈانٹا۔شبینہ خوف سے کانپنے لگی۔درد سے وہ چلائی تونرس،چڑھتی ہوئی غرائی”کیوں پورے ہسپتال کو سر پر اٹھا رکھا ہے؟تم اکیلی تو بچہ پیدا نہیں کر رہی ہو،چپ ہو جاو نہیں تو دھکے مار کر باہر نکال دونگی”۔شبینہ اپنا درد سہنے کی کوشش کرتے ہوئے،اس عورت کو دیکھنے لگی جسکے پیٹ پر وہ دونوں ہاتھوں سے ز ور زور سے دھکا لگا رہی تھی۔اس کی والدہ یہ دیکھ کر تعجب سے پوچھنے لگی کہ یہ تم کیا کر رہی ہو؟جواب میں نرس نے غصے سے انکی طرف دیکھا اور اپنی نظریں پھیرلیںاور کہنے لگی ڈلیوری کیسے کرائی جاتی ہے یہ بات اب آپ سے سیکھنی ہوگی؟
تب اس کی والدہ بڑی بے بسی سے ایک جانب ہوکر بیٹھ گئیں۔بس یہی تماشا چلتا رہا وہ نرس کبھی اس عورت کے پیٹ پر دھکے لگا دیتی تو کبھی دوڑ کرشبینہ کے پیٹ پر ہاتھ چلا دیتی۔
شبینہ پہلی دفعہ اپنے حاملہ ہونے سے ڈر رہی تھی اور یہ سوچ رہی تھی کہ یہ سب بھی سہنا پڑتا ہے؟اس نرس نے اس عورت سے دوبارا کہا ”تم جتنا زور سے چلا رہی ہو اگر اتنا ہی توجہ اپنے بچے کی جانب دو تو شاید ڈلیوری میں آسانی ہو”۔
کمرے کا یہ حال اب دیکھا نہیں جا رہا تھاشبینہ پر اب درد کی وجہ سے بے ہوشی غالب ہوئی جا رہی تھی۔تین چار گھنٹے کے بعدجب آنکھ کھلی اور ہوش آیا تو اسنے اپنے آپ کو ایک کمرے میں پایا۔اس کے بغل میں ایک خوبصورت پری جیسی لیٹی ہوئی تھی،لیکن وہ بے حس و حرکت تھی،جو شاید کہہ رہی تھی اس میں میرا کیا قصور۔۔۔۔