جموں و کشمیر سے افسپا ہٹانا فوجی جوانوں کو سولی پر چڑھانے کے مترادف: وزیر اعظم مودی
دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے جموں وکشمیر میں ترقی کی راہ میں رکاوٹ
یواین آئی
نئی دہلیوزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ مسئلہ کشمیر ڈھائی اضلاع کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ لداخ اور جموں میں کوئی مسئلہ نہیں ہے اور میڈیا کشمیر کے ڈھائی اضلاع میں پیش آنے والے واقعات کو پورے جموں وکشمیر کے ساتھ جوڑتا ہے۔نیوز 18 نیٹ ورک کے ساتھ ایک انٹریو میں وزیر اعظم نے کہا ‘لداخ میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جموں میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ وادی میں ڈھائی اضلاع ہے جہاں یہ مسئلہ ہے۔ ان ڈھائی اضلاع میں پیش آںے والے واقعات کو پورے جموں وکشمیر کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ یہ بیانیہ بدلنا چاہیے۔ اس میں میڈیا کے مدد کی ضرورت ہے’۔وزیر اعظم مودی نے مسئلہ کشمیر کے لئے آنجہانی پنڈت جواہر لال نہرو کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ اگر معاملہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کو سونپتا گیا ہوتا تو جوناگڑھ اور حیدرآباد کی طرح کشمیر میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا ‘یہ مسئلہ بہت پرانا ہے۔ اچھا ہوتا کہ اگر جموں وکشمیر کا معاملہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کو سونپا گیا ہوتا۔ آج جو ہم مصیبت جھیل رہے ہیں وہ نہیں جھیلنی پڑتی۔ انہوں نے اس کا راستہ ویسے ہی نکالا ہوتا جیسے جوناگڑھ کا نکالا، نظام کا نکالا، اس کا بھی نکالتے۔ یہ معاملے پنڈت نہرو نے اپنے پاس رکھا۔ یہ تبھی سے لیکر تنازعوں میں گھرا رہا ہے۔ اب تک ہمارے ہزاروں جوان مرے ہیں۔ کشمیر کے ساتھ کبھی بھی ناانصافی نہیں کی گئی۔ لیکن اس مسئلے کو صحیح سے سمجھ کر اس سے نمٹا جانا چاہیے۔ ایسا پہلی کی سرکاریں نہیں کرپائی’۔وزیر اعظم نے کہا کہ کشمیر بدل رہا ہے اور وہاں کے نوجوان ہر ایک شعبے میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ‘وہاں کے بچے ہونہار ہیں۔ وہاں کے بچے مسابقتی امتحانات میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ آج ہندوستان کی کسی بھی اعلیٰ یونیورسٹی میں جائیے آپ کو وہاں کوئی نہ کوئی کشمیری بچہ ضرور ملے گا۔ یہ ساری چیزیں ہورہی ہیں۔ ان کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے’۔وزیر اعظم مودی نے کہا کہ محبوبہ مفتی ریاست میں پنچایتی انتخابات نہیں کرانا چاہتی تھیں۔ انہوں نے کہا ‘ابھی وہاں پنچایت کے انتخابات ہوئے۔ 70 سے 75 فیصد سرپنچ جیت کر آئے ہیں۔ یہ انتخابات ایک طویل عرصے سے لٹکے ہوئے تھے’۔وزیر اعظم نے کہا ‘پی ڈی پی کے ساتھ اتحاد ایک تجربہ تھا۔ لوگوں نے ایسا منڈیٹ دیا تھا کہ کوئی ایک پارٹی حکومت نہیں بنا سکتی تھی۔ ہم انتظار کررہے تھے کہ این سی اور پی ڈی پی مل کر سرکار بنھائیں گے اور اس کو چلائیں گے۔ لیکن ان کا آپس میں ملن نہیں ہوا۔ ہم نے بات چیت کرکے حکومت بنائی۔ جب تک مفتی صاحب تھے کچھ اچھی چیزیں ہوئیں’۔انہوں نے کہا ‘بعد میں محبوبہ جی سامنے آئیں۔ جب پنچایتوں کا معاملہ سامنے آیا تو وہ ٹالتی رہیں۔ وہ کہتی تھی کہ خون خرابہ ہوجائے گا، لوگ مریں گے۔ بنگال میں ابھی پنچایتوں کے انتخابات ہوئے۔ ایک بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے۔ لیکن جموں وکشمیر کے انتخابات میں تشدد کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا’۔کانگریس کے انتخابی منشور میں اقتدار میں آنے پر جموں وکشمیر میں فوج کو حاصل خصوصی اختیارات والے قانون ‘آرمڈ فورسز سپیشل پاورس ایکٹ’ پر نظر ثانی کرنے کے وعدے کی سخت تنقید کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ ریاست میں افسپا ہٹانا فوجی جوانوں کو سولی پر چڑھانے کے مترادف ہے۔نیوز 18 نیٹ ورک کے ساتھ ایک انٹریو میں وزیر اعظم نے کہا ‘جموں کشمیر میں افسپا ہٹانے کا مطلب جوانوں کو پھانسی کے تختے پر چڑھانا ہے اور میں ملک کے جوانوں کے ساتھ ایسا نہیں ہونے دوں گا’۔انہوں نے کہا کہ افسپا ہٹانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے جوانوں کے ہاتھوں سے سارے اختیارات چھین رہے ہیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ ملک کے جوانوں کو اس طرح نہتا کرنا ٹھیک نہیں ہے۔انہوں نے کہا ‘ملک میں پہلے ایسے حالات پیدا کرنے چاہئے کہ افسپا عائد کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑ جائے، ہم نے اروناچل پردیش میں ایسی صورتحال پیدا کی اور کئی ضلعوں سے افسپا ہٹایا اور کچھ ریاستوں سے بھی افسپا کو ہٹایا’۔پی ایم مودی نے کہا ‘ 1980 سے پہلی بار افسپا ہٹانے کا کام ہم نے کیا لیکن ہم نے قانون کو بنائے رکھا ہے کیونکہ سرکار کے پاس ہتھیار ہونا چاہئے تاکہ جوانوں کو تحفظ مل سکے اور وہ لڑسکیں’۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی فوج پیس کیپنگ فورس میں جاتے ہیں اور سب سے زیادہ تعداد میں ہندوستان کے فوجی ہی اس میں جاتے ہیں لیکن ملک کی ایک پارٹی جس نے ساٹھ سال تک حکومت کی، افسپا ہٹانے کی باتیں کرتی ہیں جو بدقسمتی کی بات ہے۔قابل ذکر ہے کہ کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں کہا ہے کہ جموں کشمیر میں نافذ افسپا اور ڈسٹربڈ ایئریا ایکٹ پر نظر ثانی کی جائے گی اور سیکورٹی کی ضروریات اور لوگوں کے تحفظ کے توازن کو برقرار رکھنے کے تناظر میں مناسب تبدیلیاں کی جائیں گی۔بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے انتخابی منشور، جس میں جموں و کشمیر کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی دفعہ 370 کو ختم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے، کی اجرائی کے ایک دن بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ دفعہ 370 ریاست کی ترقی میں رکاوٹیں پیدا کررہی ہے۔نیوز 18 نیٹ ورک کے ساتھ ایک انٹرویو میں مسٹر مودی نے کہا کہ پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی پالیسیوں سے وادی کشمیر کی ترقی میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔ ریاست کے لوگ تبدیلی چاہتے ہیں چاہے وہ آرٹیکل 35 اے ہو یا پھر 370 ہو۔انہوں نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ دراصل 50 سیاسی خاندانوں کی وجہ سے ہے۔ وہ اس مسئلے سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ عام کشمیری کو کوئی فائدہ ملے۔ وہ عوامی جذبات کا اپنے سیاسی مفاد کے لئے غلط استعمال کر رہے ہیں۔ محکمہ انکم ٹیکس نے ایسے عناصر پر شکنجہ کسا ہے۔وزیر اعظم مودی نے کہا کہ جموں کشمیر میں سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع ہونے چاہئے۔ دفعہ 35 اے اوردفعہ 370 ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ وہاں کوئی سرمایہ کاری کے لئے نہیں جاتا۔ ہم آئی آئی ایم بنا سکتے ہیں لیکن پروفیسر وہاں جانے کے لئے تیار نہیں ہیں کیونکہ وہاں کے اسکولوں میں ان کے بچوں کو داخلہ نہیں ملتا ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ لوگ وہاں مکان نہیں لے سکتے ہیں۔ اس سے جموں و کشمیر کے مفادات کو نقصان ہوتا ہے۔ پنڈت نہرو کی پالیسیوں کی وجہ سے ریاست کی ترقی میں رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں۔ اس پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔قابل ذکر ہے کہ بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 370 اور دفعہ35 اے کو منسوخ کرنے کا وعدہ دوہرایا ہے۔انتخابی منشور میں دفعہ 35 اے کو جموں کشمیر کی خواتین اور غیر ریاستی باشندوں کے لئے ‘امتیازی شق’ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ‘دفعہ 35 اے جموں کشمیر کی تعمیر وترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے، ریاست کے تمام باشندوں کے لئے پُرامن ماحول کے قیام کو یقینی بنانے کے لئے تمام اقدام کئے جائیں گے، مہاجر پنڈتوں کی وطن واپسی کویقینی بنایا جائے گا اور مغربی پاکستان، پاکستان زیر قبضہ کشمیر اور چھمب کے مہاجروں کی بازآباد کاری کے لئے مالی مدد فراہم کی جائے گی’۔اس سے قبل کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں کہا کہ ریاست کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 370 کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی اور اس میں کسی تبدیلی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کانگریس کے الیکشن منشور میں کہا گیا ہے: ‘کانگریس 26 اکتوبر1947 میں الحاق نامہ پر دستخط ہونے سے جموں کشمیر کے حالات کی شاہد ہے اور کانگریس کا ماننا ہے کہ جموں کشمیر ہندوستان کا حصہ ہے۔ ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ریاست کی مخصوص تاریخ اور وہ مخصوص حالات جن کے تحت ریاست کا ہندوستان کے ساتھ الحاق ہوا اور جس کے باعث دفعہ370 آئین ہند میں شامل ہوا۔ آئینی پوزیشن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے یا اس کو تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی’۔بتادیں کہ دفعہ 35 اے اور دفعہ 370 کے خلاف دائر متعدد عرضیاں اس وقت سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ دفعہ 35 اے غیر ریاستی شہریوں کو جموں وکشمیر میں مستقل سکونت اختیار کرنے، غیر منقولہ جائیداد خریدنے، سرکاری نوکریاں حاصل کرنے، ووٹ ڈالنے کے حق اور دیگر سرکاری مراعات سے دور رکھتی ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ 1953 میں جموں وکشمیر کے اُس وقت کے وزیراعظم شیخ محمد عبداللہ کی غیرآئینی معزولی کے بعد وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی سفارش پر صدارتی حکم نامے کے ذریعہ آئین میں دفعہ 35 اے کو بھی شامل کیا گیا، جس کی رو سے بھارتی وفاق میں کشمیر کو ایک علیحدہ حیثیت حاصل ہے۔