پابندی کے پہلے روز صرف 165فورسز گاڑیوں نے سفر کیا
کے این ایس
سرینگرسرینگر جموں شاہراہ پر سیولین ٹریفک پر مکمل پابندی کے پہلے روز فورسز کی صرف 165گاڑیوں نے شاہراہ پر سفر کیا ہے ۔ معلوم ہوا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے بارہمولہ سے اُدھم پور شاہراہ کو مکمل طور پر فورسز کی تحویل میں دئے جانے اور حالات و واقعات کی نگرانی کے لیے 100کے قریب مجسٹریٹوں کو تعینات کرنے کے بعد سرینگر سے جموں کی جانب 45جبکہ جموں سے سرینگر کی طرف120فورسز کاڑیوں نے ہی سفر کیا۔ کشمیر نیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق سرینگر جموں شاہراہ پر بارمولہ سے اُدھم پور تک سیولین ٹریفک پر مکمل پابند ی کے پہلے روزفورسز کی صرف 165گاڑیوں نے سرینگر سے جموں اور جموں سے سرینگر کا سفر کیا ہے۔ میڈیا میں شائع خبر کے مطابق بارہمولہ سے اُدھم پور شاہراہ کو مکمل طور پر فورسز کی تحویل میں دئے جانے اور حالات و واقعات کی نگرانی کے لیے 100کے قریب مجسٹریٹوں کو تعینات کرنے کے بعد سرینگر سے جموں کی جانب 45جبکہ جموں سے سرینگر کی طرف120فورسز کاڑیوں نے ہی سفر کیاہے۔رپورٹ کے مطابق قومی شاہراہ44پر سرینگر سے جموں کی جانب 45گاڑیوں سے سفر کیا جبکہ اس دوران بارہمولہ سے اُدھم پور تک اتوار کو پورے دن لاکھوں نفوس پر مشتمل آبادی مکمل طور پر مفلوج رہی ۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ شاہراہ کو فورسز اہلکاروں کی تحویل میں دیئے جانے کے بعد ڈوڈہ، کشتوار، رام بن، چنینی، اُدھم پور سمیت کئی مقامات پر لاکھوں لوگوں پر مشتمل آبادی کو حکومتی فیصلے کے نتیجے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔سرکاری افسر کا رپورٹ میں حوالہ دے کر بتایا گیا ہے کہ سرینگر سے جموں کی جانب اتوار کی صبح صرف فورسز کی 45گاڑیوں نے سیکورٹی کے کڑے حصار میں سفر شروع کیاجس دوران بارہمولہ سے قاضی گنڈ تک سینکڑوں مقامات پر فورسز نے خار دار تاروں کے ساتھ ساتھ ٹین کی موٹی موٹی چادریں نصب کی تھیں تاکہ عام لوگوں کی نقل و حرکت کو شاہراہ کی جانب محدود کی جائے۔افسر کا حوالہ دے کر رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فورسز اہلکاروں نے پابندی کے پہلے روز اتوار کو کسی بھی شہری کو شاہرہ پر چلنے کی اجازت نہیں دی تاہم صرف چند مخصوص گاڑیوں کو جنہیں انتظامیہ کی طرف سے خصوصی منظوری فراہم کئے گئے تھے، کو چلنے کی اجازت دی گئی۔انہوں نے بتایا کہ اتوار کو جموں سے سرینگر کی جانب 120گاڑیوں پر مشتمل سی آر پی ایف کانوائے نے کڑے سیکورٹی حصار میں سفر کیا اور شام دیر گئے جواہر ٹنل کو عبور کرنے میں کامیاب ہوئی۔افسر کا مزید کہنا تھا کہ ان 165گاڑیوں کے علاوہ سرینگر جموں شاہراہ پر کوئی بھی گاڑی نہیں چلی جبکہ اس دوران چند گاڑیوں پر مشتمل فورسزقافلہ بارہمولہ سے علی الصبح سرینگر کی جانب چلا جو بعد دوپہر بادامی باغ کیمپ پہنچ گئی۔ادھر معلوم ہو اکہ انتظامیہ نے شاہراہ کے قریب رہنے والے علاقوں میں رہائش پذیر آبادی کو بھی شاہراہ پر سفر کرنے کی اجازت نہیں دی جنہیں اس سڑک کے علاوہ اور کوئی متبادل نہیں ہے۔ انتظامیہ نے پانتھ چوک اور ناربل جیسے علاقے جو شاہراہ کے ساتھ ہی پڑتے ہیں ، میں رہائش پذیر آبادی کو بھی شاہراہ پر سفر کرنے کی اجازت نہیں دی کیوں کہ ان لوگوں کے پاس اس راستے کے علاوہ اور کوئی متبادل نہیں ہے۔حکومت کے تازہ فیصلے میں اگر چہ سیاحوں کو پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے تاہم وادی کشمیر میں کام کررہے ٹور آپریٹروں کا کہنا ہے کہ فورسز اہلکاروں نے درجنوں مرتبہ شاہراہ پر سیاحوں کو روکتے ہوئے انہیں آگے جانے کی اجازت نہیں دی۔یعقوب دینو نامی ٹور آپریٹر کا کہنا تھا کہ سرینگر اور بجبہارہ کے درمیان فورسز اہلکاروں نے سیاحوں کو 50مرتبہ روکتے ہوئے ان کے معاملات میں خلل ڈالا۔سرکاری ذرائع سے ملی رپورٹ کے مطابق ڈپٹی کمشنر پلوامہ، اننت ناگ، بڈگام اور بارہمولہ نے بالترتیب 128،210، 45اور 110گاڑیوں کو خصوصی پاسز فراہم کئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ نے سیاحوںکے لیے مخصوص 493گاڑیوں کو خصوصی پاسز اجرا کئے تھے جنہیں حکومت کی طرف سے نافذ پابندی سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا۔ذرائع سے ملی اطلاعات کے مطابق حکومت کی طرف سے شاہراہ پر عوامی نقل و حمل کے لیے مکمل طور پر بند کردینے کے فیصلے پر متعدد سیکورٹی ایجنسیوں اور گورنر انتظامیہ نے اپنی حمایت ظاہر نہیں کی ہے۔خفیہ ذرائع سے موصولہ تفصیلات کے مطابق سیکورٹی ایجنسیوں کے اعلیٰ حکام نے سرینگر جموں شاہراہ کو ہفتے میں دو مرتبہ سیولین ٹریفک کے لیے بند کرنے کی کارروائی کی مخالفت کی ہے۔ معلوم ہوا کہ گزشتہ دنوں گورنر ستیہ پال ملک کی سربراہی میں منعقدہ سیکورٹی میٹنگ میں متعدد سیکورٹی ایجنسیوں کے اعلیٰ حکام نے شاہراہ پر عوامی نقل و حمل پر پابندی عائد کرنے کی کارروائی کی مخالفت کرتے ہوئے اس پر اپنی ناراضگی جتائی ہے۔انہوں نے بتایا کہ میٹنگ میں پولیس، آرمی، سی آئی ڈی، آئی بی کے علاوہ سی آر پی ایف کے چند اعلیٰ افسران اور انتظامیہ سے وابستہ افسران نے شاہراہ پر لوگوں کے چلنے پھرنے پر پابندی عائد کرنے کی کھلے الفاظ میں مخالفت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیکورٹی ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ گورنر ستیہ پال ملک نے بھی مرکزی حکومت کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔خیال رہے 14فروری 2019کو لیت پورہ پلوامہ میں جنگجوﺅں نے سی آر پی ایف کانوائے پر خود کش حملہ کرتے ہوئے 49اہلکاروں کو ہلاک کردیا جس کے بعد مرکزی وزارت داخلہ نے شاہراہ پر فورسز اہلکاروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کی پیش گوئی کی تھی۔