قلم کی طاقت سے تبدیلی ممکن ہے

0
0
ہیما راول
گنی گاؤں، باگیشور
 اتراکھنڈ
جدید ٹیکنالوجی نے دنیا کو بالکل بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس ڈیجیٹل دور میں ہر چیز صرف ایک کلک پر دستیاب ہے۔ اس کے باوجود اگر کچھ نہیں بدلا تو وہ قلم کی طاقت ہے۔ مشہور شاعر اکبر الہ آبادی کا کہنا بالکل درست ہے کہ”جب توپ کا مقابل ہو تو اخبار نکالو“، کیونکہ اس سے نکلا ہوا ہر لفظ نہ صرف بدعنوانی کی صورت میں حائل رکاوٹ کو دور کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے، بلکہ عوام الناس کو بیدارکرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتاہے۔ میں خود اس کی مثال ہوں۔ میری تحریر اور بیداری کی وجہ سے پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت میرا مکان تین ماہ میں مکمل ہوا جو پچھلے پانچ سالوں سے کاغذوں میں پھنسا ہوا تھا۔ میں اتراکھنڈ کا ر کے ضلع باگیشور میں واقع گروڈ بلاک کے گنی گاؤں کی رہنے والی ہوں۔یہ گاؤں پہاڑوں کی وادیوں میں واقع ہے۔ اس گاؤں کی آبادی تقریباً 800 افراد پر مشتمل ہے۔ یہ پہاڑی علاقہ برسات کے موسم میں بہت خوبصورت لگتا ہے۔ لیکن اس دوران آنے والی قدرتی آفت گاؤں والوں کے لیے کسی پریشانی سے کم نہیں ہوتی ہے۔ بارش کے موسم میں یہاں کے مکینوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا تصور کرنا مشکل ہے۔ بارش کے موسم میں اس گاؤں پر پہاڑ سے مٹی یا چٹان گرنے کا خطرہ ہمیشہ رہتا ہے۔ اس دوران کئی بار ایسے حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔ زیادہ بارش کی وجہ سے کئی خاندان اس قسم کے حادثات کا شکار ہو چکے ہیں۔ کچے مکان کی وجہ سے جان و مال کا نقصان ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے گھر کے حوالے سے بھی بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ہم نے کئی سال صرف ایک کمرے کے کچے گھر میں گزارا ہے۔ ہر بارش میں ڈر لگتا تھا کہ چھت ٹوٹ کر ہم پر گر نہ جائے۔ کہیں ہم سب ملبے تلے دب کر مر نہ جایں؟ ایک دن واقعی ہمارا خوف سچ ثابت ہوا۔ جب ملحقہ پہاڑ سے ایک بہت بڑا ملبہ ہمارے گھر پر گرا۔ تیز بارش کی وجہ سے ہماری چھت مکمل طور پر ٹوٹ کر گر گئی۔ کسی طرح ہم نے اپنے گھر کو دوبارہ رہنے کے قابل بنایا۔ اس دوران پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت گھر بنانے کے لیے پنچایت میں درخواست بھی دی گئی۔ لیکن 5 سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہمیں گھر کی کوئی سہولت نہیں ملی۔ دو سال پہلے، میں نے چرخہ ڈیولپمنٹ کمیونیکیشن نیٹ ورک، دہلی کے دیشا پروجیکٹ میں شمولیت اختیار کی، جو نوعمر لڑکیوں کو تحریر کے ذریعے بااختیار اور باخبر بنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ جہاں میں نے نہ صرف مختلف مسائل پر لکھنا سیکھا بلکہ دیہی علاقوں کی ترقی کے لیے حکومت کی طرف سے چلائی جا رہی مختلف اسکیموں کے بارے میں بھی سیکھا۔ہم نے سیکھا کہ ایک عام شہری پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت مکان حاصل کرنے کا حقدار کیسے ہے؟ اس کے بعد میں چرخہ کی ضلع کنوینر نیلم گرانڈی کے ساتھ بلاک آفس گروڑ گئی جہاں میں نے درخواست لکھ کر بلاک آفس میں جمع کرائی۔ تقریباً 3 ماہ کے بعد میری محنت رنگ لائی اور ہمیں پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت مکانات بنانے کے لیے رقم مل گئی۔ آج ہمارے پاس 2 کمروں کا پکا گھر ہے۔ اب ہم اپنے گھر میں محفوظ ہیں۔ ہم بارش سے بھی نہیں ڈرتے۔ میرے 41 سالہ والد آنند سنگھ ان مشکل دنوں کی اپنی یادیں بتاتے ہوئے کہتے ہیں،”ہمارے پاس صرف ایک کمرہ تھا، وہ بھی ایک کچا گھر۔ ہر رات ہمیشہ اس خوف میں گزرتی تھی کہ بارش کے دنوں میں پہاڑ پھسل جائے گا اور ملبہ ہمارے گھر پر گرے گا تو میرے خاندان کا ہو گا؟“وہ کہتے ہیں کہ ”میں نے بہت سی چیزوں کو بہت قریب سے محسوس کیا ہے، میں نے بارش کا پانی اور ملبہ گھر کے اندر آتے دیکھا ہے، ایک دن ہم بھی اس آفت کا شکار ہو گئے، جب 2022 کی ایک رات ہم پر اچانک بارش برسی، اس رات میں اپنے بچوں، میرے بوڑھے والد اور میرے خاندان کے ساتھ سو رہے تھے کہ اچانک ایک حادثہ ہوا کہ اس ملبے کا ڈھیر گھر کے پیچھے گرگیا۔اس میں سب کچھ ٹوٹ گیا۔ کھانے کے برتن، ہمارا راشن، کپڑے سب پانی میں تیرنے لگے، شکر ہے میرے خاندان کے تمام افراد بچ گئے، ہم رات بھر بارش کے رکنے کا انتظار کرتے رہے، صبح ہوتے ہی ہم نے اپنے گھر کو دوبارہ بنانے کی کوشش کی۔
اس سلسلے میں گاؤں کی سرپنچ ہیما دیوی کا کہنا ہے کہ”تمام ضرورت مندوں کی درخواستیں پنچایت کی طرف سے جمع کرائی گئی ہیں، ہم پوری کوشش کرتے ہیں کہ ان کے گھر کے نمبر جلد مل جائیں، لیکن اس عمل میں کئی سال گزر جاتے ہیں، دوسری طرف گاؤں کے کچھ لوگوں کا الزام ہے کہ پنچایت میں بدعنوانی کا راج ہے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گاؤں کی ایک خاتون نے الزام لگایا کہ گاؤں کی سرپنچ صرف پیسے دینے والے یا صرف چند افراد کو مکان دلاتی ہے۔جو لوگ ضرورت مند ہیں، ان کا کام ان کی ضرورت کے مطابق نہیں ہوتا ہے۔“ خاتون کا الزام ہے کہ ”ہمارے پاس ابھی ایک ہی کمرہ ہے۔ وہ بھی پہاڑ کیگرنے سے پتھروں کے نیچے دب گیا جس کے نیچے ہمارے جانور بھی دب گئے۔ میں نے پردھان منتری آواس یوجنا کے لیے کئی سال پہلے پنچایت میں درخواست بھی دی تھی، لیکن آج تک مجھے اس کا کوئی فائدہ نہیں ملا ہے۔“اس حوالے سے نیلم گرانڈی کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے ہاؤسنگ سکیم کے تحت غریب لوگوں کو گھر دیے جاتے ہیں لیکن کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ گاؤں کے سربراہان کی عدم توجہی کی وجہ سے لوگوں کو یہ سہولتیں نہیں مل پاتی ہیں جس کی وجہ سے انہیں کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ گاؤں کے سربراہوں کو علم ہی نہیں ہوتا، وہ ضرورت مندوں کو ضرورت کے پیش نظرسہولت فراہم نہیں کرتے ہیں۔ جن لوگوں کے گھر کچے ہیں اور وہ گھر پہاڑ کے بالکل قریب ہیں، ایسے بہت سے خاندان ایسی قدرتی آفات کا شکار ہو چکے ہیں۔“
تاہم، حکومت سب کو یکساں طور پر تعلیم دینے کی کوشش کرتی ہے کیونکہ تعلیم ہی معاشرے کو بدلنے کی طاقت رکھتی ہے۔ صرف طالب علمی کی زندگی میں ہی نہیں بلکہ تعلیم بالغاں کے ذریعے بزرگ بھی تعلیم حاصل کر کے معاشرے کو بدل سکتے ہیں۔ تعلیم ہی معاشرے کے شعور کو بیدار کر سکتی ہے۔ میری کہانی اس حقیقت کی گواہ ہے کہ ”قلم کی طاقت سے تبدیلی ممکن ہے۔“ (چرخہ فیچرس)

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا