بروقت تیاری ہی جموں کشمیر کو زلزلے کی تباہ کاریوں سے بچا سکتی ہے

0
0
ارجن ٹھاکر
ڈوڈہ، جموں
پہاڑی علاقے جتنے خوبصورت نظر آتے ہیں اتنے ہی خطرناک ہوتے ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جو زلزلوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ پھر چاہے وہ اتراکھنڈ کا علاقہ ہو یا جموں و کشمیر کا علاقہ جسے زمین پر جنت کہا جاتا ہے۔ جموں و کشمیر کے پہاڑی علاقے کو قدرتی آفات جیسے بادل پھٹنے یا لینڈ سلائیڈنگ کے ساتھ ساتھ زلزلوں کے لیے بھی بہت خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ 8 اکتوبر 2005 کو جموں و کشمیر میں آنے والا 7.6 شدت کا زلزلہ آج بھی لوگوں کو خوفناک تصویروں کی یاد دلاتا ہے۔ جس میں 1350 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور نجی اور سرکاری املاک کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا تھا۔ حالیہ دنوں میں آنے والے زلزلوں کے کچھ جھٹکوں نے ایک بار پھر لوگوں کو خوفزدہ کر دیا ہے جب کہ ماہرین ارضیات کے لیے یہ ایک وارننگ کی طرح بھی ہے۔اس سال اپریل میں جموں و کشمیر سے شائع ہونے والے ایک معروف انگریزی اخبار نے امریکہ کی کولوراڈو یونیورسٹی میں سیسمولوجسٹ اور جیولوجی کے پروفیسر راجر بلہم کی اس علاقے میں کی گئی ایک تحقیق کے حوالے سے بہت سی اہم معلومات شائع کی ہیں۔ جس میں پروفیسر بلہم نے خبردار کیا ہے کہ 9 کی شدت کا ایک بڑا زلزلہ جموں و کشمیر میں لینڈ سلائیڈنگ اور اس کے نتیجے میں تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ ان حساس علاقوں میں پیر پنجال اور وادی چناب خاص طور پر نمایاں ہیں۔ حالیہ دنوں میں ڈوڈہ، کشتواڑ اور رامبن اضلاع میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس گئے ہیں۔ سائنسی طور پر بھی ضلع ڈوڈہ کی شناخت زلزلوں کے لحاظ سے سب سے زیادہ خطرناک علاقوں میں کی گئی ہے۔ جہاں کئی سالوں سے مسلسل کم شدت کے زلزلے آتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود اس ضلع میں بغیر تحقیق اور انجینئروں کے مشورے کے بڑے گھروں کی تعمیر جاری ہے۔ مکان بنانے سے پہلے زمین کی جانچ نہیں کی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے آنے والے وقتوں میں وادی چناب بالخصوص ضلع ڈوڈہ کے علاقوں میں خوفناک تباہی کا خدشہ ہے۔
اس کی ایک چھوٹی سی مثال ہمیں گزشتہ دنوں دیکھنے کو ملی جب ڈوڈہ کی تحصیل ٹھٹھری کے علاقے پہاڑی بستی میں کئی گھروں میں بڑی بڑی دراڑیں نمودار ہوئیں جس سے مقامی لوگوں میں خوف وہراس پھیل گیا۔ دوسری جانب چند روز قبل ضلع ڈوڈہ کی تحصیل بھلیسہ میں واقع شنو علاقہ کی ایک پوری بستی کے تقریباً 15 سے 16 مکانات میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ جس کے بعد ضلع انتظامیہ کے افسران نے خود علاقے کا دورہ کیا اور تمام گھروں کو غیر محفوظ قرار دے دیا۔ اس قسم کی تباہی کلوہتراں، کہل جوگا سر اور بھلیسہ کے دیگر کئی علاقوں میں بھی ہوئی ہے۔ یہ گھر اب رہنے کے قابل نہیں رہے۔ بھلیسہ میں واقع ہلور کنٹواڑا پنچایت کے سرپنچ کے مطابق 13 جولائی کو آنے والے زلزلے کے دوران اس پنچایت کے 21 گھروں میں دراڑیں پڑ گئی تھیں۔ خوش قسمتی سے جان و مال کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ آنے والے وقت میں ڈوڈہ، کولگام، پیر پنجال کے کئی علاقے زلزلوں کی وجہ سے تباہ ہو سکتے ہیں۔ وادی چناب کے کشتواڑ میں ’دھول ہستی‘ اور رامبن میں ’بگلیہار‘ جیسے کئی چھوٹے اور بڑے ڈیم ہیں جو اس زلزلے کی زد میں آ سکتے ہیں۔ کئی ماہرین کا یہاں تک کہنا ہے کہ ان ڈیموں کی تعمیر سے وادی چناب میں زلزلوں کا سلسلہ بڑھ گیا ہے کیونکہ ڈیموں کی تعمیر کے دوران مٹی کا کٹاؤ اور پانی کا بہاؤ مکمل طور پر روکنا بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ پروفیسر راجر بلہم کے مطابق اگر مستقبل میں اس خطے میں 9 شدت کا زلزلہ آیا تو دریائے جہلم لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بند ہو جائے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو 3 ماہ کے اندر وادی کشمیر پانی میں ڈوب سکتی ہے۔ پروفیسر بلہم کے گلوبل پوزیشننگ سسٹم (GPS) ڈیٹا ریڈنگ سے پتہ چلتا ہے کہ وادی کشمیر کے شمال میں واقع زنسکار پہاڑوں میں چٹانوں کی بتدریج حرکت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ زلزلے کی وجہ سے آنے والے وقت میں ایسے علاقوں کے پھٹنے کے زیادہ امکانات ہیں اور یہ علاقہ تقریباً 200 کلومیٹر چڑا ہو سکتا ہے۔ اس خطے میں وادی کشمیر کے کئی علاقے شامل ہیں، جن میں سری نگر شہر بھی شامل ہے، جہاں تقریباً 1.5 ملین افراد رہتے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر مستقبل میں ایسا ہوا تو جموں و کشمیر بالخصوص وادی چناب اور وادی کشمیر کے تقریباً 3 لاکھ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔
ڈوڈا ضلع (بھلیسہ) کے نیلی کے رہنے والے ایوب زرگر، جو محکمہ ہائر ایجوکیشن میں کام کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ہمالیہ کا مغربی حصہ، جس میں جموں و کشمیر شامل ہے، زلزلہ زون 5 کے تحت آتا ہے۔ جو سب سے خطرناک اور زلزلے کا شکار علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ فعال ٹیکٹونک پلیٹس کی وجہ سے ان خطوں میں کسی بھی وقت اعتدال سے لے کر زیادہ شدت کے زلزلے آ سکتے ہیں۔ جس کا تجربہ بھی حالیہ دنوں میں ہوا ہے۔ ایوب زرگر کا کہنا ہے کہ عوام اور انتظامیہ کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور ہمہ وقت الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔ جن عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے ان کے پیچھے وجوہات کو سمجھنا ہوگا۔ زلزلہ مزاحم عمارتوں کی تعمیر وقت کی ضرورت ہے تاکہ بڑے نقصان سے بچا جا سکے۔ احتیاطی تدابیر کے لیے آگاہی پھیلائی جائے اور مزید احتیاطی تدابیر جاننے کے لیے ماہرین کی ٹیم کو فیلڈ میں تعینات کیا جائے۔ زلزلے کے دوران جن کے گھر تباہ ہوئے ان کے لیے زلزلہ پروف مکانات بنانے کی ضرورت ہے۔ نئی عمارتیں اس طرح تعمیر کی جائیں کہ زلزلے کے دوران کم سے کم نقصان ہو۔ڈوڈہ ضلع کے ماہر جغرافیہ پردیپ کوتوال کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عمارتوں کو پہنچنے والے نقصان کا انحصار صرف زلزلے کی شدت پر نہیں بلکہ تعمیر کی قسم پر بھی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کشمیر میں بنائے گئے صدیوں پرانے خصوصی شکل کے گھر آج بھی محفوظ کھڑے ہیں۔ لچکدار ہونے کی وجہ سے لکڑی سے بنے گھر بہت سارے سانحات کو بچانے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ لیکن آج جدید طرز پر رہنے کی وجہ سے اس قسم کے گھروں کا رجحان ختم ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے مستقبل میں مالی نقصان کے ساتھ ساتھ جانی نقصان بھی بڑھ سکتا ہے۔ محفوظ عمارت کی تعمیر کے لیے انجینئر کی تجویز سب سے اہم ہو جاتی ہے۔ کیا زمین گھر بنانے کے لیے موزوں ہے؟ کیا گھر پرانے انداز کے مطابق بنایا جا رہا ہے یا جدید ترین شہری ڈیزائنوں کے مطابق؟ان سوالوں کے جواب کے بعد ہی مکان کی تعمیر شروع کی جانی چاہئے۔
اس وقت جموں و کشمیر میں تقریباً 60 لاکھ لوگ ہائی رسک زون میں رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کافی تباہی دیکھی جا سکتی ہے۔ ایسے میں حکومت کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ان ہائی رسک زونز کے اندر کس قسم کے مکانات بنانے کی اجازت دی جائے؟ جبکہ سرکاری فنڈز اور سرکاری مدد سے بنائے گئے مکانات بھی ایسی جگہوں پر بنائے جا رہے ہیں۔ان میں پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت بنائے جانے والے مکانات بھی شامل ہیں جو کسی بھی وقت زلزلے کی وجہ سے تاش کے ڈھیر کی طرح گر سکتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اتنی بڑی تباہی کو روکنے کے لیے ایک نیا بلڈنگ سسٹم نہیں لا سکتے تاکہ مستقبل میں کسی بڑے سانحے کو وقت سے پہلے روکا جا سکے۔ توقع ہے کہ حکومت اور مقامی انتظامیہ موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس سمت میں سنجیدگی سے کام کریں گی تاکہ مستقبل میں کسی بھی بڑے سانحے کو وقت سے پہلے روکا جاسکے۔ (چرخہ فیچر)

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا