پابندی کے پہلے دن شاہراہ فورسز چھاونی میں تبدیل

0
0

شمال سے جنوب تک شہر ی آمدورفت پر مکمل پابندی
این سی ، پی ڈی پی، پی سی سمیت متعدد سیاسی پارٹیوں کا احتجاج
عام لوگوں کےساتھ ساتھ مریضوں،تیمارداروں، طلبا اور تجارت پیشہ افراد کو سخت مشکلات کا سامنا
جے کے این ایس
سرینگرحکومت کی طرف سے 300کلومیٹر لمی سرینگر جموں شاہراہ پر ہفتے میں دو روز تک سیول ٹریفک پر پابندی عائد کرنے سے شمال و جنوب میں ہوکا عالم چھایا رہا جس دوران متعدد مقامات پر ہتھیار بند فورسز اہلکاروں کو تعینات کرتے ہوئے شاہراہ کو فورسز چھاونی میں تبدیل کیا گیاتھا۔ اس دوران اتوار کو عام تعطیل کے پیش نظر بارہمولہ سے اُدھم پور تک شاہراہ پر الو بولتے ہوئے نظر آئے جس دوران ضرورت مند افراد بالخصوص بیماروں اور تیمارداروں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ادھرعلاقائی مین اسٹریم سیاسی پارٹیوں بشمول نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے حکومتی فیصلے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے آرڈر کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔اس دوران سیاسی و غیر سیاسی حلقوں کے علاوہ تجارتی انجمنوں نے سرکاری فیصلے کو پاگل پن ، انسانی المیے اور ظالمانہ ہتھکنڈے سے تعبیر کیا وہیں سماجی رابطہ سائٹوں پر لوگوں نے مذکورہ فیصلے کو فوری طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔ کشمیرنیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق حکومت کی طرف سے سرینگر جموں شاہراہ پر فورسز کانوائے کو جنگجوﺅں کے حملوں سے محفوظ رکھنے اور فورسز اہلکاروںکی سلامتی کو یقینی بنانے کی خاطر لیے گئے تازہ فیصلے جس میں شاہراہ کو ہفتے میں 2روز تک عام لوگوں کی نقل و حمل پرقدغن عائد کرنا شامل ہیں، کے پہلے روز بارہمولہ سے اُدھم پور تک 300کلومیٹر لمبی شاہراہ پر اتوار کو مکمل ہوکا عالم چھایا رہا جس دوران یہاں کسی بھی عام شہری کو فورسز اہلکاروں نے پر مارنے کی اجازت نہیں دی۔ معلوم ہوا کہ بارہمولہ، پٹن، لاوے پورہ، ایچ ایم ٹی، پانتھ چوک، پانپور، لیت پورہ، بارسو، اونتی پورہ، چرسو، سنگم، بجبہارہ، اننت ناگ، قاضی گنڈ ، بانہال، رام بن پتنی ٹاپ، اُدھم پور وغیرہ شامل ہیں میں انتظامیہ نے فورسز کی اضافی اور خصوصی دستوں کو تعینات کیا تھا جنہوں نے دوران شب ہی شاہراہ سے ملنے والے لنک روٹوں پر خار دار تاریں نصب کرنے کےساتھ ساتھ یہاں فورسز کے خصوصی دستوں کو الرٹ رکھا تھا۔بارہمولہ سے قاضی گنڈ تک بالخصوص شاہراہ سے لگنے والے علاقوں کو ملانے والی رابطہ سڑکوں پر فورسز نے سخت بندشیں عائد کررکھی تھیں جس کے نتیجے میں مذکورہ علاقوں سے کسی بھی شخص کو شاہراہ کی جانب آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ عینی شاہدین نے کشمیرنیوز سروس کو بتایا کہ اتوار کی صبح جونہی لوگ اپنی اپنی بستیوں سے معمول کے مطابق اشیائے ضروریہ کی خریداری کے لیے گھروں سے باہر نکلے تو وہ اُس وقت حیران ہوئے جب یہاں سرینگر جموں شاہراہ سے ملنے والے لنک روٹوں پر فورسز نے خار دار تاروں کےساتھ ساتھ ٹین کی چادریں نصب کی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ لوگوں نے اگر چہ صبح سویرے دودھ اور روٹی کی خریداری کے لیے یہاں موجود فورسز اہلکاروں سے منت سماجت کی تاہم اہلکاروں نے انہیں آگے جانے کی اجازت نہیں دی۔ بعض مقامات سے موصولہ اطلاعات کے مطابق شاہراہ پر تعینات فورسز اہلکاروں نے لوگوں کی نقل و حمل کو شاہراہ سے دور رکھنے کے لیے ڈھنڈوں اور لاٹھیوں کا بھی استعمال کیا جس کے نتیجے میں اننت ناگ، پلوامہ اور بارہمولہ کے کئی علاقوں میں دن بھر افرا تفری کا ماحول گرم رہا۔ موصولہ اطلاعات کے شاہراہ پر سیولین ٹریفک کی نقل وحرکت پر پابندی کے پہلے روز شمال و جنوب میں بیماروں، مریضوں اور تیمارداروں کو سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ شمالی کشمیر کے کنسپورہ، پٹن اور چھور نامی علاقوں سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ضرورت مند افراد بالخصوص بیماروں اور تیمار داروں کو سرینگر کی جانب پیش قدمی کرنے کی اجازت نہیں دی گئی جس کے نتیجے میں کئی بیماروں کو سرراہ درد سے کراہتے ہوئے پایا گیا۔اس دوران جنوبی کشمیر کے کولگام، اننت ناگ اور پلوامہ کے کئی علاقوں سے لوگوں نے بتایا کہ اتوار کے سبب انہیں بذریعہ شاہراہ مختلف علاقوں کا سفر کرنا تھا تاہم حکومت کے تازہ فیصلے کے تنیجے میں انہیں اپنی تمام مشغولیات کو مو¿خر کرنا پڑا جس کے نتیجے میں اُن کا قیمتی وقت ضائع ہوا۔ لوگوں نے بتایا کہ وادی کشمیر میں شادیوں کا موسم شروع ہوا تھا جس دوران بیشتر شادیاں سنیچر اور اتوار کو ہی طے پاتی ہے تاہم حکومت کے تازہ فیصلے نے بہت سارے خاندانوں کو مایوس کردیا ہے کیوں کہ اپابندی کے نتیجے میں لوگوں کا اتوار کے روز شاہراہ پر سفر کرنا ناممکن ہے۔انہوں نے بتایا کہ اگر حکومت فورسز اہلکاروں کی سلامتی سے متعلق واقعی فکر مند دکھائی دے رہی ہے تو اسے عام لوگوں کو مزید تکلیف دینے کے بجائے فورسز اہلکاروں کو متبادل کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا چاہیے۔ انہوں نے بتایاعام لوگوں کو تکلیف دہ صورتحال سے گزارنے کے بجائے حکومت کو چاہیے کہ وہ دوران شب ریل سروس کی خدمات حاصل کرتے ہوئے فورسز اہلکاروں کو اپنے اپنے مقامات پر منتقل کریں۔ ادھر پابندی کے پہلے روز شاہراہ کو فورسز چھاونی میں تبدیل کیا گیا تھا جس دوران شمال و جنوب میں شاہراہ پر فوج، سی آر پی ایف اور دیگر فورسز اہلکاروں کو بندوقوں، لاٹھیوں اور ڈھنڈوں کے ساتھ تیاری کی حالت میں دیکھا گیا۔ اس دوران جہاںسیاسی و غیر سیاسی حلقوں کے علاوہ تجارتی انجمنوں نے سرکاری فیصلے کو پاگل پن ، انسانی المیے اور ظالمانہ ہتھکنڈے سے تعبیر کیا وہیں سماجی رابطہ سائٹوں پر لوگوں نے مذکورہ فیصلے کو فوری طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور ریاست کے سابق وزیرا علیٰ عمر عبداللہ نے بارہمولہ سے اُدھم پور تک شاہراہ کو ہفتے میں دو روز تک عام لوگوں کی نقل و حمل کے لیے بند کئے جانے کے فیصلے کو پاگل پن قرار دیا ہے۔سماجی رابطہ سائٹ ٹویٹر پر حکومتی فیصلے پر اپنے ردعمل کا ا ظہار کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے بتایا کہ ”میں اُوری کی طرف چل رہا ہوں جس دوران میں نے اپنی آنکھوں سے حکومتی فیصلے کا مشاہدہ کیا ہے جس سے عام لوگوں کوعبور و مرور میں سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور یہ سب اس لیے کیوں کہ حکومت کی طرف سے ایک ایسا فیصلہ لیا گیا ہے جو پاگل پن پر مبنی ہے“۔پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے شاہراہ پر عام لوگوں کی نقل و حمل پر حکومت کی طرف سے پابندی عائد کرنے کی کارروائی پر اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے لوگوں کو شاہراہ پر آکر کرفیو جیسی بندشیں توڑنے کی اپیل کی ۔محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ کشمیر کشمیریوں کا ہے اور یہاں کی سڑکیں کشمیریوں کی ہیں۔انہوں نے اس موقعے پر بتایا کہ ”لوگوں کو شاہراہ پر چلنے کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت ہند کو ایسے ظالمانہ اور جابرانہ اقدامات سے گریز کرنا چاہیے، وہ کشمیر میں قابض طاقت نہیں ہے لیکن اس فیصلے کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیاجائےگا۔محبوبہ مفتی نے بتایا کہ میں اپنے لوگوں کا اس طرح تڑپتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی، میں نے شاہراہ پر متعدد مقامات پر ضرورت مند نوجوانوں اور بزرگوں کو پیدل سفر کرتے ہوئے دیکھا۔ محبوبہ مفتی نے بتایا کہ حکومتی فیصلہ کا مقابلہ کرنے کی خاطر پی ڈی پی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے گی، پی ڈی پی ان ظالمانہ ہتھکنڈوں کو ٹھنڈے پیٹ برداشت نہیں کرےگی۔ادھر پی سی چیر مین اور سابق وزیر سجاد غنی لون نے سرینگر جموں شاہراہ کو عام لوگوں کی نقل و حمل کے لیے ہفتے میں دو روز تک مکمل طور پر بند رکھنے کے حکومتی فیصلے کو انسانی المیہ قرار دیا ہے۔سماجی رابطہ سائٹ ٹویٹر پر حکومتی فیصلے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے موصوف نے کہا کہ ”شاہراہ پر پابندی اب انسانی المیے کی شکل اختیار کررہی ہے، ریاست بھر سے سینکڑوں لوگوں نے فون کالز کرتے ہوئے اپنے خدشات کا اظہار کیا ، لوگ سخت مشکلات میں ہیں اور روز مرہ کے معاملات کے نپٹارے کے لیے وہ خود کو بے یار و مددگارمحسوس کررہے ہیں۔ گورنر ستیہ پال ملک کو چاہیے کہ مذکورہ غیر انسانی حکم نامے کو فی الفور منسوخ کریں“۔اس طرح سماجی رابطہ سائٹس پر مختلف لوگوں نے حکومتی فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے عام لوگوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ ایک سینئر صحافی نے سماجی رابطہ سائٹ پر تحریرکیا کہ ”جو لوگ چناوی جلسوں میں شرکت کرنے کے لیے جارہے ہیں انہیں بھی شاہراہ پر سفر کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے“۔انہوں نے مزید لکھا کہ ”الیکشن کے پیش نظر شاہراہ سے موصول ہونے والی تصاویر اور ویڈیوز واقعی طور پر غور طلب ہیں، شمالی کشمیر سے تعلق رکھنے والے لوگ چناوی جلسوں میں شریک ہونا چاہتے ہیں تاہم انہیں شاہراہ پر موجود فورسز اہلکار آگے جانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں“۔ٹویٹر پر ایک اور سینئر صحافی جس نے شاہراہ سے متعلق ایک ویڈیو بھی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر اپلوڈ کیا، نے حکومتی فیصلے کو ”نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن“ یعنی دو مصیبتوں کے درمیان پھنس جانے سے تعبیر کیا ہے۔انہوں نے حکومتی فیصلے کو مضحکانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ”پابندی اُن لوگوں کے لیے غیر سارکاری دوڑ کی مانند ہے جنہیں آج اس شاہراہ پرسفر کرکے اپنی اپنی منزلوں کو پہنچنا تھا، مجھے اپنے لوگوں کے درپیش مشکلات کا احساس ہے، عام لوگوں کے لیے بھی، جنہیں دو مصبیتوں کے درمیان پسا جارہا ہے۔ادھر شہر کی پریس کالونی میں بھی حکومتی فیصلے کے خلاف متعدد تجارتی اداروں نے اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے فیصلے کو منسوخ کرنے کی مانگ کی۔ احتجاج کرتے ہوئے تجار پیشہ افراد نے میڈیا کو بتایا کہ حکومت کی طرف سے شاہراہ کو سیولین مومنٹ کے لیے بند کرنے سے 90فیصدی آبادی کو شہر آنے سے روکا گیا جس کے نتیجے میں شہر سرینگر کا کاروباربری طرح سے متاثر ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ خریداروں کے بغیر یہاں تجارتی اداروں کا کوئی مطلب نہیں ہے۔تجار نے بتایا کہ اتوار کو چونکہ شہر سرینگر کے گھونی کھن، ریذیڈنسی روڑ، ریگل چوک، بتہ مالو، ہری سنگھ ہائی اسٹریٹ، لل دید، لعل چوک، کورٹ روڑ جیسے تجارتی مقامات پر خریداروں کا جم غفیر اُمڈ آتا تھا تاہم آج حکومت کی جانب سے پابندی کے نتیجے میں شہر کا کاروبار مکمل طور پر ٹھپ ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ اتوار کی صبح سے لعل چوک میں تجارتی سرگرمیاں ماند دکھائی دے رہی ہیں۔دوکانداروں نے اس موقعے پر حکومت پر زور دیا کہ وہ پابندی کے فیصلے کو فوری طور پر منسوخ کریں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا