بی جے پی میں جمہوریت کے بجائے آمریت کادور دورہ : شترگھن سنہا
یواین آئی
نئی دہلیمشہور فلم اداکار اور بی جے پی کے پارلیمانی رکن شتروگھن سنہا نے آج کانگریس کا ہاتھ تھام لیا۔شتروگھن سنہا نے کانگریس ہیڈ کوارٹر میں کانگریس جنرل سکریٹری کے سی وینو گوپال، پارٹی کے مرکزی ترجمان رنددیپ سنگھ سرجے والا اور بہار کے پارٹی انچارج شکتی سنگھ گوہل کی موجودگی میں پارٹی کی رکنیت حاصل کی۔بعداذاں پارٹی کے صدر دفتر می ہی منعقد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ دل پر پتھر رکھ کر بی جے پی سے الگ ہوئے ہیں جہاں جمہوریت کی جگہ آمریت نے لے لی ہے ۔بی جے پی کے ٹکٹ پر 2014 میں لوک سبھا پہنچے والے شتروگھن سنہا ادھر کافی دنوں سے پارٹی قیادت سے ناراض چلے آرہے تھے ۔کانگریس میں اپنی شمولیت کو ایک خوشگوار تبدیلی پر محمول کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں سیاسی وابستگی بدلنے کی تحریک بہار کے سابق وزیر اعلی لالو پرسا یادو سے ملی جنہوں نے انہیں کانگریس میں شامل ہونے کی صلاح دی تھی ۔ گزشتہ ماہ کانگریس صدر راہل گاندھی سے شتروگھن سنہا نے ان کی رہائش گاہ پر یہ ملاقات کی تھی اور تب ہی سے ان کے کانگریس میں شامل ہونے کی امید کی جانے لگی تھی۔ بعد ازاں انہوں نے خود طے کیا تھا کہ وہ نوراترکے آغاز میں 6 اپریل کو کانگریس میں شامل ہوں گے ۔شتروگھن سنہا ہفتے کے روز بی جے پی کو چھوڑ کر کانگریس میں شامل ہوگئے اور پارٹی نے انھیں بہار کی پٹنہ صاحب سیٹ سے اپنا امیدوار بھی اعلان کر دیا ہے ۔ گذشتہ الیکشن میں وہ اسی سیٹ سے بی جے پی کی ٹکٹ پر جیتے تھے ۔ مسٹر سنہا نے ہفتے کے روز کانگریس کے ہیڈکوارٹر میں پارٹی کے جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال، پارٹی کے میڈیا سیل کے انچارج رندیپ سنگھ سورجے والا، پارٹی کے بہار کے انچارج شکتی سنگھ گوہل اور بہار کانگریس کے صدر مدن موہن جھا کی موجودگی میں رسمی طور پر کانگریس کی رسمی رکنیت حاصل کر لی۔ اس موقع پر منعقد پریس کانفرنس میں مسٹر سنہا نے وزیراعظم نریندر مودی کا نام لیے بغیر الزام عائد کیا کہ بی جے پی میں صرف ایک شخص کی ‘تاناشاہی’چل رہی ہے جو کسی اور کی بات نہیں سنتے ہیں اس لیے انہوں نے کانگریس میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔مسٹر سنہا نے کہا کہ بی جے پی میں انہوں نے ناناجی دیشمکھ جیسے قد آور سیاسی رہنما سے سیاست سیکھی ااور اٹل بہاری واجپئی جیسے بڑے رہنما کے ساتھ کام کیا۔ بی جے پی جن لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، جسونت سنگھ، یشونت سنہا جیسے بڑے رہنماو¿ں کی قیادت میں آگے بڑھی اور آج انہی سب بڑے رہنماو¿ں کو غیر فعال ‘مارگ درشک منڈل’ میں ڈال دیا گیا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ بی جے پی میں انہوں نے پانچ برس کے دوران بڑی تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ ایک شخص کی وجہ سے یہ پارٹی جمہوریت سے آمریت میں بدل گئی ہے ۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ وہ شخص کسی کی سننے کو تیار نہیں ہے ۔ اسے جو بھی صلاح دی جاتی ہے اسے سننے کے بجائے صلاح دینے والے کو باغی ماننے لگتا ہے ۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری وینوگوپال نے پارٹی میں مسٹر سنہا کے شامل ہونے کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ مسٹر سنہا اب صحیح پارٹی میں آگئے ہیں۔ مسٹر سنہا اچھے رہنما ہیں لیکن اب تک وہ غلط پارٹی میں تھے ۔ انہوں نے کہا کہ مسٹر سنہا اچھے پارلیمنٹیرین اور سیاست کی بہتر سمجھ رکھنے والے ہیں اور پوراملک انھیں ایک اداکار اور سیاسی رہنما جانتا ہے ۔ ان کی پارٹی میں شامل ہونے سے کانگریس کو بہت فائدہ ہوگا۔ انہوں نے بی جے پی کو غیر جمہوری اور ترقی مخالف پارٹی قرار دیا اور کہا کہ مسٹر سنہا جیسی شخصیت کے لیے بی جے پی ٹھیک نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ مسٹر سنہا کا خود کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے پارٹی میں خیر مقدم کیا ہے اور انھیں مکمل یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ پارٹی کے لیے اہم ثابت ہوں گے ۔ مسٹر گوہل نے کہا کہ مسٹر سنہا الیکشن میں کانگریس کے اسٹار تشہیر کار ہوں گے ۔ وہ بہار میں اپنی پارلیمانی حلقے میں مصروف رہنے کے ساتھ ہی ملک کے مختلف حصوں میں جاکر کانگریس کی تشہیر کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ ہفتے کانگریس کے صدر راہل گاندھی بہار میں پارٹی کے لیے تشہیر کریں گے اور مسٹر سنہا کے ساتھ ہی پارٹی تمام رہنما کانگریس کو مضبوط کریں گے ۔ قابل ذکر ہے کہ مسٹر سنہا بی جے پی کی ٹکٹ پر 2014 میں لوک سبھا پہنچے تھے اور وہ کافی وقت سے پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے ناراض چل رہے تھے ۔گذشتہ ماہ کانگریس کے صدر راہل گاندھی سے مسٹر سنہا نے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی تھی اور تبھی سے ان کے کانگریس میں شامل ہونے کو تقریباً یقینی سمجھا جا رہا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے خود طے کیا تھا کہ وہ ‘نو راتر’ کی شروعات میں 6اپریل کو کانگریس میں شامل ہوں گے ۔