خصوصی پوزیشن کی حفاظت ضروری ،1953کی پوزیشن ہماری منزل:ڈاکٹر فاروق عبداللہ
کے این ایس
بڈگامنیشنل کانفرنس صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے خصوصی پوزیشن کے حق میں بولتے ہوئے کہا کہ دفعہ 370کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جائےگی۔ انہوں نے عوام پر زور دیا کہ وہ ایسے نمائندوں کا انتخاب کریںجو پارلیمنٹ میں اُن قوتوں کو للکاریں جو ریاست کو حاصل خصوصی مراعات کو زک پہنچانے کی مذموم کوششیں کررہے ہیں۔ کشمیر نیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق وسطی کشمیر کے بیروہ بڈگام میں بدھوار کو چناری جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ جموں و کشمیر کی سرزمین کے مالک یہاں کے لوگ ہیں اور کسی کو بھی ریاست کی آئینی حیثیت کیساتھ کھلواڑ کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ جموں وکشمیر کے عوام کو ایسے نمائندوں کا انتخاب کرنا ہوگا جو پارلیمنٹ میں اُن طاقتوں کو للکاریں جو ریاست کو حاصل خصوصی مراعات کو زک پہنچانے کی مذموم کوششیں کررہے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ ”آج ہندوستان میںوہ سرکار ہے جو انسانوں کو مذہب کے نام پر بانٹ رہی ہے اور کوشش کررہی ہے ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو الگ الگ کھڑا کیا جائے۔آج ہماری لڑائی اُنہی عناصر کیخلاف ہے جو ملک میں بے چینی پیدا کرنا چاہتے۔“ انہوں نے کہا کہ جب ہندوستان آزاد ہوا تو اس میں ہر کسی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو برابر حقوق ملے لیکن آج ان حقوق پر شب خون مارا جارہا ہے، اقلیتوں کو پشت بہ دیوار کیا جارہا ہے۔ اسی آئین میں ایسی چیزین بھی رکھی گئیں جس سے ہماری ریاست کے تشخص کو تحفظ فراہم کیا گیا۔ لیکن بعد میں ریاست کی خصوصی پوزیشن کو دھیرے دھیرے کمزور کیا گیا، اس عمل میں مقامی لیڈران نے بھی مکمل تعاون دیا اور ان لیڈران نے یہ تعاون لوگوں کے لئے نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفادات کیلئے فراہم کیا۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ اب خصوصی پوزیشن میں جو کچھ بچا ہے ہمیں اُس کی حفاظت کرنی ہے اور ہماری منزل 1953کی پوزیشن کو بحال کرانا ہے۔ شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ نے جب 1975میں حکومت سنبھالی تو اندرا گاندھی کی اسی یقین دہانی پر سنبھالی کہ ہم 1953کی پوزیشن پر واپس جائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ آج یہ لوگ ہمیں دبانے کی کوشش کررہی ہیں، انہیں ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ ہم دبنے والے نہیں، مہاراجہ نے بھی ہم کو دبایا تھا پھر ایسا ہوا کہ اُسے راتوں راتوں بھاگنا پڑا۔ انہوں نے مرکز سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ”ہمارے ساتھ انصاف کرو،ہمیں اپنا حق دو،ہم اس ریاست کے لوگوںکا حق مانگتے ہیں، جو آپ نے ہم سے چھیناہے اور کچھ نہیں مانگتے،آگر آپ سمجھتے ہو کہ فوج کے بلبوتے پر ہمیں دبا سکتے ہو ، تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے،یہ قوم دبنے والی نہیں، میں رہوں یا نہ رہوں ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب آپ کو ہماری خصوصی پوزیشن واپس کرنی پڑے گی، کیونکہ آپ کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوگا۔“کانگریس کے منشور پر بات کرتے ہوئے صدرِ نیشنل کانفرنس ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ریاست کے تین خطوں کیلئے 3مصالحت کار نامزد کرینگے، میں کانگریس سے کہتا ہوں کہ وہ جسٹس صغیر رپورٹ، ووہرا کی رپورٹ اور پڈگاﺅنکر کی رپورٹ کو پڑھیں اور ان پر عملدرآمد کریں۔کشمیرنیو زسروس کے مطابق انہوں نے کہا کہ ہمارے اُتنے دشمن باہر نہیں جتنے اندر ہے، جن لوگوں نے یہاں بی جے پی اور آر ایس ایس کو لایا وہی آج واویلا کررہے ہیں۔ جن لوگوں نے بھاجپا کیساتھ ملکر خصوصی پوزیشن کو تہس نہس کیا وہی آج اس کے دفاع کی بات کررہے ہیں۔ جی ایس ٹی کا اطلاق عمل میں لاکر ہماری مالی خودمختاری ختم کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ 1996میں جب ہم نے حکومت سنبھالی تو یہاں کئی کئی برسوں کا ٹیکس واجب الادا تھا اور ہم نے نہ صرف اس میں رعایت کروائی بلکہ ٹیکس 20سال میں قسطوں میں ادا کرنے کی ڈھیل بھی دی اور تاجروں، صنعت کاروں اور دیگر لوگوں نے آرام سے ٹیکس اداکیا۔ آج حالت یہ ہے کہ اگر ہمیں 10پیسہ بھی معاف کرنا ہوگا تو ہمیں جی ایس ٹی کونسل کو رجوع کرنا پڑے گا اور اُن کے سامنے بھیک مانگنی پڑے گی۔ یہ مہربانی پی ڈی پی کی حکومت کے دوران محبوبہ مفتی اور اُن کے وزیر خزانہ نے ہم پر کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنا جی ایس ٹی بنا سکتے تھے لیکن ان لوگوں نے وہی قانون ریاست پر نافذ کیا جو پورے ملک میں لاگو ہوااور اس کا خمیازہ آج یہاں کے لوگ بھگت رہے ہیں۔ اس موقعے پر پارٹی کے نائب صدر عمر عبداللہ، جنرل سکریٹری علی محمد ساگر، صوبائی صدر ناصر اسلم وانی، ترجمانِ اعلیٰ آغا سید روح اللہ مہدی، ایم ایل سی آغا سید محمود، شمی اوبرائے ،تنویر صادق ، فاروق احمد شاہ اور ڈاکٹر محمد شفیع کے علاوہ کئی عہدیداران موجود تھے۔