ہم سے ہماری شناخت چھینی گئی ہم نہ ہندوستانی ہیں نہ پاکستانی اور نہ نیپالی ہیں!

0
0

سابق جنگجو¶ں کی پاکستانی بیویوں کا بھارتی شہریت اور سفری دستاویز کی فراہمی کے لئے احتجاج
یواین آئی

سرینگر سنہ 2010 میں اعلان شدہ سابق جنگجو¶ں کی باز آباد کاری پالیسی کے تحت اپنے شوہروں کے ساتھ وادی وارد ہوئی پاکستانی خواتین نے جمعہ کے روز یہاں بھارتی شہریت اور سفری دستاویز کی فراہمی کے مطالبوں کو لیکر احتجاج درج کیا۔ واضح رہے کہ سال 2010 میں عمرعبداللہ کے دور حکومت میں جنگجو¶ں کی بازآباد کاری پالیسی کے تحت قریب ساڑھے چار سو کشمیری جواسلحہ تربیت کے لئے سرحد پار کر گئے تھے، اپنی بیویوں کے ساتھ واپس وادی کشمیر آئے۔جمعہ کی صبح درجنوں پاکستانی خواتین تاریخی لال چوک میں واقع پرتاب پارک میں جمع ہوئیں اور پھر ریلی کی صورت میں پریس کالونی پہنچیں۔ ان خواتین نے اپنے ہاتھوں میں ایک بڑا بینر اٹھا رکھا تھا جس پر یہ تحریر درج تھی: ‘اپیل برائے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان صاحب، اپیل برائے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی صاحب، اپیل برائے انصار برنی ٹرسٹ’۔ ان خواتین نے ‘ہم کیا چاہتے سفری دستاویز، وی وانٹ جسٹس، ہماری مانگیں پوری کرو’ جیسے نعرے لگائے۔سابق جنگجو¶ں کی پاکستانی بیویوں کا کہنا ہے کہ سالہاسال سے کشمیر میں رہنے کے باوجود انہیں گوناگوں مشکلات کا سامنا ہے۔انہوں نے کہا کہ ان کے بچوں کو اسکولوں میں پاکستان یا پاکستان زیر زنتظام کشمیر میں پیدا ہونے کی بنا پر داخلہ نہیں دیا جاتا ہے اورانہیں اپنے میکے جانے کے لئے سفری دستاویز فراہم نہیں کئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے میکے میں خوشی کی تقریب ہو یا غم کی مجلس میں شرکت کرنے سے قاصررہ جاتی ہیں جس کے نتیجے میں درجنوں خواتین نفسیاتی بیماریوں کی شکار ہوئی ہیں۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ ان کے شوہروں کو باز آباد کاری کے تحت دیئے جانے والے فوائد سے محروم رکھا گیا جس کی وجہ سے وہ افلاس وغریبی میں مبتلا ہوئے ہیں اور ان کے شوہروں کو نوکریاں بھی نہیں مل رہی ہیں۔طیبہ نامی ایک خاتون جس کا بارہمولہ میں بیاہ ہوا ہے اور پاکستان کے ایبٹ آباد کی رہنے والی ہے، نے اپنی روداد بیان کرتے ہوئے کہا ‘یہاں گذشتہ دس پندرہ سالوں سے قریب ساڑھے تین سو پاکستانی لڑکیاں اپنے شوہروں کے ساتھ قیام پذیر ہیں لیکن سفری دستاویز نہ ملنے کی وجہ سے اکثر خواتین مختلف نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوئیں اور انہوں نے خود کشی کی’۔انہوں نے کہا کہ ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اپنے میکے میں کسی خوشی کی تقریب میں شرکت کرسکتے ہیں نہ غم کی کسی مجلس میں شریک ہوسکتے ہیں۔انہوں نے ہندوستان اور پاکستان کے وزرائے اعظم اور مرکزی وزیر خارجہ سشما سوراج سے اپیل کی کہ وہ ان کے معاملے کا نوٹس لے کر ان کے مشکل کو حل کریں۔زیبہ نامی ایک اور خاتون جس کی شادی کپوارہ میں ہوئی ہے، نے کہا ‘میں نے مرکز کے مذاکراتکار برائے کشمیر دنیشور شرما کے ساتھ بھی بات کی لیکن میری داستان سننے کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم غیر قانونی مہاجرین ہیں، ایک غیر قانونی مہاجر کو چھ ماہ کے بعد واپس وطن بھیجا جاتا ہے لیکن ہمیں یہاں بلایا گیا ہے اور ہم یہاں چھپ کر نہیں بلکہ کھلے عام زندگی گذر بسر کررہے ہیں’۔انہوں نے کہا کہ ہم سے ہماری شناخت چھینی گئی ہے ہم نہ ہندوستانی ہیں نہ پاکستانی اور نہ نیپالی ہیں۔زیبہ نے کہا کہ اسما بٹ نامی ایک پاکستانی لڑکی جیل میں بند ہے اس پر غیر قانونی مہاجر ہونے کا الزام عائد ہے لیکن ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حکومت کویہ بات پانچ سال گذر جانے کے بعد یاد کیوں آئی۔انہوں نے کہا شوپیاں کی فوزیہ نامی ایک اور لڑکی بھی جموں میں مقید ہے اس کو پاسپورٹ نہ ہونے کے الزام میں بند کیا گیا ہے جبکہ ہم میں سے کسی کے پاس پاسپورٹ نہیں ہے اس کو پانچ برس کی سزائے قید سنائی گئی ہے جبکہ قانونی طور پر اگر وہ غیر قانونی مہاجر ہے تو اس کو چھ ماہ کے بعد ہی وطن واپس بھیجنا ہے۔زیبہ نے مطالبہ کرتے ہوئے کہا ‘ہمیں سفری دستاویز فراہم کئے جائیں یا واپس اپنے وطن بھیج دیا جائے’۔سیدہ صفیہ بخاری نامی خاتون جس کی شادی بارہمولہ کے ایک نوجوان سے ہوئی ہے، نے کہا ‘ہم سبھی خواتین آج یہاں جمع ہوئی ہیں۔ ہماری تعداد قریب ساڑھے تین سو ہے۔ ہم سبھی پاکستان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ہمیں بھارتی شہریت چاہیے۔ ہماری ان نوجوانوں کی بیویاں ہیں جو بہتر زندگی کے تلاش میں سرحد پار چلے گئے تھے۔ وہاں پر ان لوگوں نے اچھی طرح اپنی زندگی گزاری۔ جو پڑھنا چاہتے تھے انہوں نے مختلف تعلیمی اداروں میں داخلہ لیا۔ سنہ2010 میں عمر عبداللہ کی حکومت نے بازآبادکاری پالیسی کا اعلان کیا۔ اس میں اعلان کیا گیا کہ جو نوجوان پاکستان چلے گئے ہیں وہ بیوی بچوں سمیت واپس آسکتے ہیں۔ ہم نیپال کے راستے سے واپس آئے’۔انہوں نے کہا ‘ہمارا یہاں سسرال ہے اور پاکستان میں ہمارا میکہ ہے۔ کوئی لڑکی جب کسی جگہ شادی کرتی ہے تو اپنے میکے کو ہمیشہ کے لئے نہیں چھوڑتی۔ ہماری یہاں کی سرکار سے اپیل ہے کہ آپ ہمیں اپنا شہری تسلیم کریں اور ہمیں سفری دستاویز فراہم کریں۔ ہم وزیر اعظم مودی صاحب، سشما سوراج صاحبہ اور راجناتھ سنگھ صاحب اور ریاستی گورنر ستیہ پال ملک سے اپیل ہے کہ آپ ہمارے ساتھ انصاف کریں۔ ہم وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب اور شاہ محمود قریشی صاحب سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہمارے حق میں بات کریں۔ ہمارا مسئلہ ایک بہو اور بیٹی کا مسئلہ ہے۔ یہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے۔ انسانی ہمدردی کی بناءپر ہمارے مسئلے کو حل کیا جانا چاہیے’۔قابل ذکر ہے کہ ان پاکستانی خواتین نے کشمیر کے مفتی اعظم مفتی ناصرالاسلام سے بھی مداخلت کرنے کی گذارش کی ہے تاکہ وہ ان کا معاملہ حکومت کے ساتھ اٹھائیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا