یہ مسلمان ہیں جنھیں دیکھ کر شرماے یہود….

0
0
محمد کلیم 
                                                      9325855143
مہنگائی کے اس دور میں جہاں عام زندگی متاثر ہیں وہیں ہم نے شادی کی بےجا رسومات سے نکاح کیے آسان عمل کو مشکل بنا دیا ہےجس کی وجہ سے سینکڑوں  لڑکیاں بالوں میں چاندی لیے شادی کی منتظر بیٹھی ہے پہلے معاشرے میں جہیز کی لعنت نے اپنی پکڑ مضبوط کر رکھی ہے اور معاشرے میں نیی نیی خرافات نے جنم لیا ہےجس کی وجہ سے آب غرباء کو شادی بہت مشکل ہو گیا ہے
ریاکاری نام نمود کی خاطر نکاح کی سنت کو مذاق بنا کر رکھ دیا گیا
سستی شہرت کے لئے اسلامی تعلیمات پر کوئی دھیان نہیں دیا جا رہا ہے جہالت کی وجہ سے غیر اسلامی عمل پر عمل پیرا ہے
 ہلدی کی رسم میں انڈے کھیلنا، ڈی جے میں ناچ گانا، بیہودگی کو بڑھاوا دینا مہنگے اسٹیج  سجانا، مہنگی کاروں کی نمائش کرنا، انگلی پکڑنے کے رسم، منہ دیکھائی کی رسم، جوتا چھپانے کی رسم، قافلے کی شکل میں نکاح کیلئے جانا، پٹاخہ کا شور و غوغا، ہارن بجانا، ہلڑ بازی کرنا، ٹریفک کے مسائل پیدا کرنا، جس سے حادثات کا خدشہ ہوتا ہے یا کئی بار حادثات ہوتے بھی ہے 
نکاح کو آسان کرنے کا حکم ہے جسے ہم نے مشکل بنا دیا ہے اگر یہ سب کرنا ہے تو اپنے گھر میں کیجئے ایسا عمل کرے جس سے کسی کو کوئی تکلیف نہ ہو اسلامی وہ مذہب ہے جس میں راستے سے پتھر ہٹانے کے لیے بھی ثواب دیا گیا ہے ایسے میں اگر ہماری وجہ سے کسی کو تکلیف ہوگی تو کیا یہ صحیح ہے؟ 
ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہمیں لوگوں کو نہیں خدا کو راضی کرنا ہے  مہنگی شادیاں کرنے سے مہنگے اسٹیج سجانے سے مہنگی گاڑیوں کی نمائش کرنے سے کیا خدا ہم سے راضی ہوگا؟ جس میں غرباء کو نظر انداز کر کے امیروں کی ضیافت کی جائے…. 
کب تک ہم معاشرے کی بیجا خرافات کے غلام بنے رہیں گے اور کب تک اسلامی تعلیمات سے غافل رہیں گے اسلام نے تمام انسانوں کا لحاظ رکھتے ہوئے نکاح کا معیار مقرر کیا ہےاگر ہم بلوغت کی عمر میں سنت کے مطابق نکاح کا رواج عام کرے تو معاشرے سے خود بخود اخلاقی برائی، بے حیائی اور بہت سی برائیاں ختم ہوجائیں گی
سادگی سے نکاح کرے فضول خرچی سے بچے اسلامی میں باراتیوں کے کھانے کا کوئی تصور نہیں ہے لہذا بارات پر مکمل پابندی عائد کی گئی ہے لڑکی والوں کا کھانا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اسلام میں اس کا کوئی تصور ہےنکاح مسجد میں ہو اور رخصتی لڑکی کے گھر سے ہو ولیمہ جائز ہے جس کی ذمہ داری لڑکے پر ہے لیکن آج ولیمے میں کے نام پر لاکھوں  اڑا دیئے جاتے ہیں سمجھ نہیں آتا سنت ادا کررہے ہیں نمائش کر رہے ہیں…. 
سب وہی رسم رواج ہے جس کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے اور نہ ہی کسی کتاب میں اس کا کوئی ذکر ملتا ہے یہ ہماری پیدا کی گئی خرافات ہے جس کی وجہ سے آج ہم پریشان ہیں
ان خرافات کے ساتھ ایک ناجائز عمل بھی جوڑ دیا گیا ہے جو کچھ دن پہلے میرے مشاہدے میں آیا گزشتہ دنوں ہمارے دوست کی شادی ہوئی نکاح اور وداعی کے بعد نوشا کی دوستوں نے چائے پینے کے لئے اصرار کیا نوشا  بھی چائے پینے کے لیے راضی ہو گئے لیکن چائے پینے کے لئے نوشوں کو ایک سو پندرہ کلومیٹر دور ہوٹل میں لے جائے گیا رات کے تقریبا دو بجےچائے نوش کی گئی 
ساتھی دوستوں میں کسی کو بھی اس بات کا خیال نہیں رہا کہ گھر پر نیی دلہن اپنے شوہر کا انتظار کر رہی ہےدونوں کو ساتھ نماز شکرانہ ادا کرنا ہے جب نوشا نے واپسی کی ضد کی تو فوری گاڑیوں میں گانے لگائے گئے اور نوشہ سے ناچنے کے لیے کہا گیا جس کے عوض اسے گھر چھوڑا جائیگا مرتا کیا نہ کرتا مجبوری میں اسے ناچنا پڑا
رات کے آخری پہر میں گاڑیوں کا قافلہ برق رفتاری سے گھر کی طرف رواں دواں ہوا ان گاڑیوں میں نوشہ بھی موجود ہے اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ ہوجاتا تو اس کا ذمہ دار کون رہتا؟ جس کا ابھی گھر نہیں بسا اس کا گھر اجاڑ جاتا تو اس کا ذمہ دار کون ہوتا؟ یہ واقع غور کرنے کی ہے خدارا شادیوں میں ایسی کوئی حرکت نہ کرے جس کا  نقصان اٹھانا پڑےاس معاملے کے لیے جتنے  دوست احباب ذمدار ہے اتنے ہی ذمہ دار ان کے والدین اور بزرگ ہےاگر نوشا کے والد کہہ دے کہ رات میں کیی باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے تو دوستوں کی کیا مجال جو اسے ساتھ لے کر جا سکے اور اس طرح کے گھناونے مذاق کرسکے 
جس سے نقصان ہوایسے مذاق سے اجتناب کرے جس سے جانی نقصان کا خطرہ لاحق ہو… 
معاشرے کے خرافات سے بچے  آسان نکاح کے عمل کو رائج کرے یہ سنت بھی ہے اس میں ہماری بھلائی بھی…

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا