شگفتہ خالدی
کشمیر کی حالت یہ ہے کہ یہ ہندوستان میں سب سے زیادہ بیروزگارتعلیم یافتہ نوجوان کی ریاست ہے۔کل بیروزگار ہندوستانی تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ملکی سطح کی تیرہ اعشاریہ دو فیصدمیں ریاست جموں و کشمیرکا تناسب ساڑھے چوبیس فیصد کے ساتھ اول نمبر پرہے ۔یعنی اس کو آپ یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہندوستان میں چار بے روزگار نوجوانوں میں ایک کشمیری ہے ۔وادی میں حکومت کی کوئی واضح معاشی پالیسی نہیں ہونے کی وجہ سے اس کا خمیازہ نوجوانوں کو بھگتنا پڑرہا ہے۔اس معاملے میں حکومت کی پالیسی انتہائی ناقص ہے ۔صرف زبانی وعدے کے سوا کچھ نہیں۔ان کا وعدہ بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کا وعدہ اب اپنی اہمیت کھوتا جارہا ہے ۔اقتدار میں آنے سے قبل بے روز گاری ختم کرنے کے وعدے اور اب دور دور تک اس تعلق سے کوئی کارروائی نظر نہیں آتی اور نا ہی اس تعلق سے پالیسی سازی میں حکومت سنجیدہ نظر آتی ہے ۔تعلیم یافتہ بیروزگارنوجوانوں کا نصیب اب یہ رہ گیا ہے کہ وہ آئے دن پریس کالونی میں ڈگری ڈپلومہ یافتہ انجینئر ،ڈاکٹر و دیگر ڈپلوما اور ڈگری یافتہ بے روزگار کیلئے احتجاج کریں یا دفتروں کے چکر لگاتے ر ہیں ۔حکومت نے تقریباً دس سال قبل رہبر تعلیم ،رہبر جنگلات ،رہبر کھیل،رہبر زراعت وغیرہ منصوبہ بنایا اس منصوبہ کے تحت کام کرنے والوں کو جو معاوضہ دیا جاتا ہے اسے سن کر ہنسی آتی ہے اور غصہ بھی ۔کیا آپ جانتے ہیں کہ انہیں اس کام کیلئے تین تا پانچ ہزار تک اجرت ادا کی جاتی ہے ۔ اس کمر توڑ مہنگائی میں وہ ان پیسوں سے کس طرح زندکی گزار سکتے ہیں۔حکومت کے اس رویہ اور اس کے معاوضہ کے معیار سے کیا آپ یہ محسوس نہیں کرتے کہ یہ حکومت تعلیم یافتہ نوجوانوں کا مذاق اڑارہی ہے اور وہ ان کی لیاقت کو ریاست کی ترقی میں استعمال کرنے کی بجائے اسے یونہی برباد ہونے دے رہی ہے ۔ اسی طرح کئی محکموں جن میں محکمہ صحت ،محکمہ بجلی اور محکمہ واٹر ورکس اور دیگر سرکاری دفتروں میں روزانہ اجرت پر کام کرنے والے ملازموں کی ماہانہ اجرت آٹھ دس مہینوں کے بعد ادا کی جاتی ہے ۔یہ بے حسی کی انتہا ہی کہی جائے گی کہ حکومت اپنے کام کیلئے ،اپنی سہولت کیلئے نوجوانوں کا استعمال کرے اور انہیں معاوضہ آٹھ ماہ بعد دیا جائے ۔آخر یہ حکومت کون سے زمانے اور کون سی دنیا کے لوگوں سے بھری ہے جسے انسانی ضروریات کا ہی پتہ نہیں کہ وہ اپنی ضروریات کہاں سے پوری کرے گا۔اس حکومت کو یہ احساس ہی نہیں کہ اس کی وجہ سے ان کی فیملی فاقہ کشی کا شکار ہوتی رہتی ہے ۔کسی کی فیملی کا فاقہ کشی کرنا کسی سربراہ فیملی کے لئے کتنی تکلیف کی بات ہوتی ہے ۔اس بات کو یہ حکومت کب جان پائے گی۔تعلیم یافتہ نوجوانوں کو صرف سرکاری زمرے کا ہی آسرا تھا وہ بھی حکومت کی عدم توجہی ،تساہلی اور بے حسی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔وادی میں نجی زمرے نہیں ہونے کے برابر ہیں اگر وہ ہوتے تو بیروزگاری کا مسئلہ اتنا شدید نہیں ہوتا اور نا ہی ہر آنے والے دنوں کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا ۔کچھ غیر سرکاری کمپنیاں ہیں بھی تو وہ وہاں کے حالات کا فائدہ اٹھا کران کا استحصال کرتے ہیں ان کام کرنے والے ملازموں کو تنخواہیں بہت دیتے ہیں ۔یعنی وہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں مصروف ہیں ۔یہ کمپنیاں بھی یہاں کے پڑھے لکھے نوجوانوں کا خون پینے پر اُتر آئی ۔ ان سب معاملات میں حکومت کو عوام کے درد کا علاج کرنا چاہئے تھا لیکن وہ خاموش تماشائی بنی ہے ۔اس بیروزگاری کی عفریت اور حکومت کی اس جانب عدم توجہی نے نوجوانوں کو ذہنی طور پر متاثر کرنا شروع کردیا ہے ۔یہاں کے پڑھے لکھے نوجوان ذہنی کوفت کے شکار ہورہے ہیں۔وہی نوجوان طبقہ جو کسی بھی ریاست ،ملک یا قوم کا سرمایہ افتخار ہوتا ہے وہ حکومت کی غلط پالیسی کے سبب خود ایک بوجھ محسوس کرنے پر مجبور لیکن زندگی گزارنے کیلئے کوئی نہ کوئی سبیل تو ضروری ہے سویہی نوجوان انتہائی مجبوری اور مایوسی کے عالم میں اب وہ اپنے والدین و اہل و عیال کو چھوڑ کر باہر جانے کو مجبور ہو گئے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ یہاں کے پڑھے لکھے بیروزگار نوجوانوں کیلئے ایسی پالیسی سازی کرے کہ ان کی زندگی تباہ ہونے سے بچ جائے ۔