ہم بھارت کے ساتھ امن چاہتے ہیں لیکن مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر یہ ممکن نہیں:شہباز شریف

0
0

کہااگر خط کے معاملے میں ذرہ برابر بھی سچائی ثابت ہوئی تو میں وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے کر گھر چلا جاو¿ں گا
یواین آئی

اسلام آبادپاکستان کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے سے قبل شہباز شریف نے کہا کہ وہ ملک میں ہم آہنگی چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھارت کے ساتھ امن چاہتے ہیں لیکن مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر امن ممکن نہیں۔میری پہلی ترجیح قومی ہم آہنگی ہے۔ پاکستانی میڈیا کے مطابق نامزد وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہم بھارت کے ساتھ امن چاہتے ہیں لیکن مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر امن ممکن نہیں۔اسلام آباد میں جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ نئی کابینہ اپوزیشن رہنماو¿ں کی مشاورت سے بنائی جائے گی۔پاکستانی میڈیا کی خبر کے مطابق، "میں ملک میں ایک نئے دور کا آغاز کروں گا اور باہمی احترام کو فروغ دوں گا،” شہباز شریف نے مزید کہا کہ وہ ملک کی معیشت کو بہتر بنا کر عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کریں گے۔نواز شریف کی واپسی اور کیس سے متعلق سوال پر شہباز شریف نے کہا کہ ان کے کیس کو قانون کے مطابق نمٹایا جائے گا۔پاکستان کی قومی اسمبلی نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو ملک کا 23 واں وزیرِ اعظم منتخب کر لیا ہے۔ 174 ارکانِ اسمبلی نے ان کے حق میں ووٹ دیا۔نئے قائد ایوان کے عہدے کے لیے متحدہ اپوزیشن کی طرف سے شہباز شریف جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے شاہ محمود قریشی کو امیدوار نامزد کیا گیا تھا تاہم پیر کو پی ٹی آئی کی جانب سے اس الیکشن کا بائیکاٹ کیا گیا۔ وزیراعظم پاکستان منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ اگر خط کے معاملے میں ذرہ برابر بھی سچائی ثابت ہوئی تو میں وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے کر گھر چلا جاو¿ں گا۔اپنے پہلے خطاب میں شہباز شریف نے کہا ہے کہ وہ مراسلے کے معاملے پر پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کی ان کیمرہ بریفنگ کا انتظام کریں گے اور اگر سازش ثابت ہوئی تو استعفیٰ دے دیں گے۔پاکستان کی قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد 174 ووٹوں کے ساتھ کامیاب ہوئی تھی۔سپیکر اسد قیصر کے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے اور ڈپٹی سپیکر کے اجلاس کی صدارت سے انکار کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت ایاز صادق نے کی۔پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے بلایا جانے والا اجلاس ووٹنگ کے بغیر 16 اپریل تک کے لیے ملتوی کیا گیا تاہم اپوزیشن نے ایک علامتی اجلاس میں حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ منتخب کیا۔مسٹر شریف نے اس سے قبل۲۰۱۸ءمیں بھی وزیر اعظم کے عہدے کے لیے الیکشن لڑا تھا جس میں مسٹر خان کو۱۷۶ ووٹ ملے تھے اور اس وقت مسٹر شریف صرف۹۶ ووٹ حاصل کر سکے تھے۔مسٹر شریف سابق وزیراعظم نواز شریف کے بھائی ہیں جو اس وقت لندن میں سیاسی جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔مسٹر شریف کا آبائی گاﺅں امرتسر کے قریب جاتی امرا گاﺅں ہے جہاں سے ان کے آباﺅ اجداد ہجرت کر کے لاہور آئے تھے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ میں کہتا ہوں کی اس خط پر پارلیمان کی سیکیورٹی کمیٹی میں ان کیمرہ بریفنگ دی جائے۔انہوں نے کہا اس خط پر پارلیمان کی سیکیورٹی کمیٹی کی ان کیمرہ بریفنگ میں مسلح افواج کے سربراہان، خط لکھنے والے سفیر اور اراکین پارلیمنٹ موجود ہوں۔انہوں نے کہا کہ اگر خط کے معاملے میں ذرہ برابر بھی سچائی ثابت ہوئی تو میں وزارت عظمیٰ سے اسعتفیٰ دے کر گھر چلا جاو¿ں گا۔ڈان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے مراسلہ قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ قوم جاننا چاہتی ہے کہ اس خط میں کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کی معیشت کو پروان چڑھانا ہے، جمہوریت اور ترقی کو آگے بڑھانا ہے تو ڈیڈ لاک نہیں ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، تقسیم نہیں، تفہیم سے کام لینا ہوگا، نہ کوئی غدار تھا ہے نہ کوئی غدار ہے، ہمیں احترام کے ساتھ قوم بننا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی عوام کی دعاو¿ں سے آج وزیر اعظم منتخب ہوا، یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی، حق کو فتح حاصل ہوئی، باطل کو شکست ہوئی، اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو قوم کی دعاو¿ں سے بچا لیا۔انہوں الزام لگایا کہ یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ دھاندلی کی پیداوار وزیر اعظم کو آئینی اور قانونی طریقے سے گھر بھیجاگیا۔نو منتخب وزیراعظم نے کہا کہ ایک ہفتے سے ڈرامہ چل رہا ہے کہ کوئی خط آیا ہے، کہاں سے آیا ہے، میں نے نہ وہ خط دیکھا نہ مجھے وہ خط کسی نے دکھایا، میں سمجھتا ہوں کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہیے۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ تبدیلی باتوں سے نہیں آتی، اگر باتوں سے تبدیلی آنی ہوتی تو پاکستان کی معیشت کا اتنا برا حال نہیں ہوتا، ملک کی معیشت انتہائی گھمبیر صورتحال سے دوچار ہے، باتوں سے تبدیلی آنی ہوتی تو ہم ایک ترقی یافتہ قوم بن چکے ہوتے۔انہوں نے کہا کہ میں نے پی ٹی آئی کی حکومت کو میثاق معیشت کی پیش کش کی، انہوں نے ہماری پیشکش کو مسترد کیا، اگر ہماری بات مان لی جاتی تو پاکستان میں ترقی ہوتی اور اس کا کریڈٹ ان کو ملتا۔انہوں نے کہا کہ اگر ملک کی معیشت کو اپنے پاو¿ں پر کھڑا کرنا ہے تو محنت اور محنت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا