کنبہ پروری سے سب سے زیادہ نقصان ملک کے اداروں کو:نریندرمودی
یواین آئی
نئی دہلیوزیرا عظم نریندرمودی نے کانگریس کے صدر راہل گاندھی کا نام لیے بغیر آج کہا کہ کچھ لوگوں میں انھیں نام لے کر گالی دینے کی ہمت نہیں ہے اس لیے چوکیدار کو چور کہہ رہے ہیں اور یہی ان لوگوں کی فطرت ہے ۔مسٹر مودی نے ہولی کے موقع پر ملک بھر کے چوکیداروں اور سکیورٹی گارڈ سے ‘آڈیو برج’کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب مایوسی میں کیا جارہا ہے اورآگے بھی جاری رہے گا۔ چوکیدار کو بدنام کرنے کے لیے نئے طریقے ڈھونڈے جارہے ہیں۔ گذشتہ کچھ دنوں سے ملک میں گالی۔گلوج چل رہی ہے لیکن وہ گالی کو گہنا بناتے ہیں۔ چوکیدار کو چور بتائے جانے کا درد عوام میں ہے ۔ قابل ذکر ہے کہ کانگریس کے صدر راہل گاندھی گذشتہ کچھ وقت سے مسٹر مودی پر ‘چوکیدار چور ہے ’کا الزام عائد کررہے ہیں۔مسٹر مودی نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ انھیں پہلی بار ذلیل کیا جارہاہے ۔ انھیں ذلیل کرنے والوں کے اخلاق میں عدم برداشت ہے ۔ کام دار کچھ بھی کرے یہاں تک کہ وزیرا عظم بن جائے تب بھی ذلیل کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ آج ہر چوکیدار ملک میں ایمانداری سے کام کرنے کاحلف لے رہا ہے ۔ سنہ 2014 سے پہلے اور اس کے بعد جو فرق نظر آرہا ہے وہ چوکیدار کی وجہ سے ہے ۔ لاکھوں، کروڑوں کا گھپلہ کرنے والے اور بچولیے اپنی اصل جگہ پہنچ گئے ہیں۔وزیراعظم نے کہا،‘ہمیں بہت آگے بڑھنا ہے ، بچوں کو ڈاکٹر، انجینیئر بنانا ہے لیکن ان کے اندر کے چوکیدار کو زندہ رکھنا ہے ۔ ہر ہندوستانی میں چوکیدار زندہ رہے ’۔مسٹر مودی نے کہا کہ پلوامہ حملے کے بعد پاکستان کے سینے پر بم برسائے جانے سے ملک میں جولوگ پریشان ہیں انھیں پہچاننے کی ضرورت ہے ۔ بم برسائے جانے سے پاکستان کو چوٹ لگی ہے اور چیخ ہندوستان میں مچ رہی ہے ۔ پاکستان کے ریڈیو، ٹی وی اور اخبار میں ہماری آوز سنی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک فوج کی کاروائی کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ جب عام آدمی خود کو چوکیدار کہتا ہے تو وزیرا عظم اور شہری کے درمیان کی دوری ختم ہوجاتی ہے ۔ دوسروں کے خوابوں کو سجانے والا ہی چوکیدار ہے ۔ ان کی حکومت نے غریبوں کی ترقی کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔ آیوشمان بھارت یوجنا سے 50 کروڑ شہریوں کو بیماری سے لڑنے کی طاقت ملی ہے ۔ کسانوں کی مدد کی گئی ہے ۔ پردھان منتری سورکشا بیمہ یوجنا، جن دھن یوجنا سے بڑی تعداد میں لوگوں کو فائدہ ہواہے ۔مسٹر مودی نے دعویٰ کیا کہ ملک کے سوا سو کروڑ عوام چوکیداری کا فریضہ اداکریں تو ترقی کو کوئی روک نہیں سکتا۔دریں اثناءمودی نے بدھ کے روز کنبہ پروری کی سیاست پر زوردارحملہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے سب سے زیادہ نقصان ملک کے اداروں کو ہوا ہے ۔ مسٹر مودی نے ایک بلاگ میں کانگریس کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ کنبہ پروری کو فروغ دینے والی پارٹیوں کو آزاد اور بے خوف صحافت سے ہمیشہ سے ہی بے چینی محسوس ہوئی ہے ۔ کوئی تعجب نہیں کہ کانگریس حکومت کی طرف سے لائی گئی سب سے پہلی آئینی ترمیم ‘فری اسپیچ’ پر روک لگانے کے لئے ہی تھی۔ فری پریس کی اصل شناخت یہی ہے کہ وہ اقتدار کو سچ کا آئینہ دکھائے ، لیکن اسے فحش اورغیر مہذہب شناخت دینے کی کوشش کی گئی۔ متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے ) حکومت کے حالیہ دور حکومت میں بھی ایسا ہی دیکھنے کو ملا، جب حکومت ایک ایسا قانون لے کر آئی جس کے مطابق اگر آپ نے کچھ بھی توہین آمیز’ پوسٹ کیا تو آپ کو جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ یو پی اے کے طاقتور وزراءکے بیٹوں کے خلاف ایک ٹویٹ بھی معصوم آدمی کو جیل میں ڈال سکتا تھا۔ چھ دنوں قبل ہی ملک نے اس خوف کے سائے کو بھی دیکھا، جب کچھ نوجوانوں کو کانگریس کے اقتدار والی ریاست کرناٹک میں ایک پروگرام کے دوران اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے سبب گرفتار کر لیا گیا۔ مسٹر مودی نے لکھا کہ “میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ کسی بھی طرح کی دھمکی سے زمینی حقیقت بدلنے والی نہیں ہے ۔ اگر وہ زبردستی اظہار رائے کی آزادی کو روکنے کی کوشش کریں گے ، تب بھی لوگوں کا کانگریس سے متعلق تصور تبدیل نہیں ہوگا”۔ وزیر اعظم نے لکھا کہ 2014 میں ملک کے عوام اس بات سے کافی دکھی تھے کہ ہم سب کا پیارا ہندوستان آخر فریجائل فائیو ممالک میں کیوں ہے ؟ کیوں کسی مثبت خبر کی جگہ صرف کرپشن، چہیتوں کو غلط فوئدہ پہنچانے اور اقربا پروری جیسی خبریں ہی ھیڈلاین بنتی تھیں۔ تب عام انتخابات میں ملک کے عوام نے بدعنوانی میں ڈوبی ہوئی اس حکومت سے نجات حاصل کرنے اور ایک بہتر مستقبل کے لئے ووٹ دیا تھا، سال 2014 کا مینڈیٹ تاریخی تھا۔ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی غیر کنبہ پرست پارٹی کو مکمل اکثریت حاصل ہوئی تھی۔ انہوں نے لکھا کہ جب کوئی حکومت ‘فیملی فرسٹ’ کی بجائے ‘انڈیا فرسٹ’ کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھتی ہے تو یہ بات اس کے کام میں بھی نظر آتی ہے ۔ یہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں اور کام کاج کا ہی اثر ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں، ہندوستان دنیا کی سرفہرست معیشتوں میں شامل ہو گیا ہے ۔ مسٹر مودی نے فوج کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ کانگریس ہمیشہ سے دفاعی شعبے کو کمائی کے ذریعہ کے طور پر دیکھتی آئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی مسلح افواج کو کبھی بھی کانگریس سے وہ عزت و احترام نہیں ملا، جس کے وہ مستحق تھی۔ آزادی کے بعد سے ہی، کانگریس کی ہر حکومت میں طرح طرح کے دفاعی گھپلے ہوتے رہے ۔ ان گھپلوں کا آغاز جیپ سے ہوا تھا، جو توپ، آبدوز اور ہیلی کاپٹر تک پہنچ گیا۔ ان کے ہر بچولئے کا تعلق ایک خاص خاندان سے رہا ہے ۔ انہوں نے لکھا،“یاد کیجئے ، کانگریس کے ایک بڑے لیڈر نے جب آرمی چیف کو غنڈا کہا تو اس کے بعد پارٹی میں اس کے عہدے میں اضافہ کردیا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپنی فوج کے تئیں بھی وہ کس طرح کا جذبہ رکھتے ہیں۔جب ہماری فوج دہشت گردوں اور اس کے سرپرستوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے ، تو کانگریس کے رہنما سیاسی قیادت پر ‘خون کی دلالی’ کا الزام لگاتے ہیں۔ جب ہماری فضائیہ کے جانباز دہشت گردوں پر حملہ کرتے ہیں، تو کانگریس ان کے دعوے پر سوال اٹھاتی ہے ”۔ مسٹر مودی نے اپنے بلاگ میں مزید لکھا کہ 25 جون، 1975 کی شام جب سورج غروب ہوا تو اس کے ساتھ ہی ہندوستان کی جمہوری اقدار کوبھی بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی طرف جلد بازی میں کئے گئے ریڈیو خطاب کواگر سنیں تو واضح ہوجائے گا کہ کانگریس ایک کنبے کی حفاظت کے لئے کس حد تک جا سکتی ہے ۔ ایمرجنسی نے ملک کو راتوں رات جیل کی کوٹھری میں تبدیل کر دیا۔ یہاں تک کہ کچھ بولنا بھی جرم ہو گیا۔ 42 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدالتوں پر پابندی لگا دی گئی۔ ساتھ ہی پارلیمنٹ اور دیگر اداروں کو بھی بخشا نہیں گیا۔ عوام کے جذبات کے پیش نظر اس ایمرجنسی کو ختم تو کر دیا گیا، لیکن اسے مسلط کرنے والوں کی آئین مخالف ذہنیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ کانگریس نے آرٹیکل 356 کا استعمال تقریبا سو بار کیا۔ صرف محترمہ اندرا گاندھی نے ہی تقریبا پچاس بار ایسا کیا۔ اگر انہیں کوئی ریاستی حکومت یا لیڈر پسند نہیں آتا تھا، تو حکومت کو ہی برطرف کر دیا جاتا تھا۔ انہوں نے لکھا کہ عدالتوں کی توہین کرنے میں تو کانگریس کومہارت حاصل ہے ۔ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی ہی تھیں، جو ‘جانب دار عدلیہ’ چاہتی تھیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ عدالتیں آئین کے بجائے ایک خاندان کی وفادار رہوں۔‘جانب دار عدلیہ’ کی اسی چاہت میں کانگریس نے چیف جسٹس کی تقرری کرتے وقت کئی معزز ججوں کو نظر انداز کیا۔ بلاگ کے مطابق کانگریس کے کام کرنے کا طریقہ بالکل واضح ہے کہ پہلے مسترد کرو، پھر توہین کروو اور اس کے بعد ڈرا¶ دھمکا¶۔ اگر کوئی عدالتی فیصلہ ان کے خلاف جاتا ہے ، تو وہ اسے پہلے مسترد کرتے ہیں، پھر جج کو بدنام کرتے ہیں اور اس کے بعد جج کے خلاف مواخذہ لانے میں مصروف ہوجاتی ہے ۔ وزیر اعظم نے لکھا کہ “سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی نے اپنے ایک تبصرے میں پلاننگ کمیشن کو ‘جوکروں کا گروپ’ کہا تھا۔ اس وقت پلاننگ کمیشن کے نائب صدر ڈاکٹر منموہن سنگھ تھے ۔ ان کے اس تبصرے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس سرکاری اداروں کے تئیں کس طرح کی ذہنیت رکھتی ہے اور کیسا سلوک کرتی ہے ۔ انہوں نے یو پی اے دور حکومت کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ اس وقت کانگریس نے کنٹرولر آڈیٹر جنرل (سی اے جی۔ کیگ) پر صرف اس وجہ سوال اٹھائے تھے ، کیونکہ اس نے کانگریس سرکار کے ٹو جی گھوٹالہ اور کوئلہ گھوٹالہ جیسی بدعنوانیوں کو اجاگر کیا تھا۔ یو پی اے حکومت کے دور میں سی بی آئی ‘کانگریس بیورو آف انویسٹی گیشن’ بن کر رہ گئی تھی۔ لوک سبھا انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں کے خلاف اس کا بار بار غلط استعمال کیا گیا۔ آئی بی اور را جیسے اہم اداروں میں جان بوجھ کر کشیدگی پیدا کی گئی۔مرکزی کابینہ کی طرف سے لئے گئے پالیسی فیصلے کے دستاویز کو پریس کانفرنس کے دوران ایک ایسے شخص نے جو کابینہ کا کا رکن بھی نہیں تھا پھاڑ دیا تھا۔ قومی مشاورتی کونسل کو وزیر اعظم کے دفتر کے متوازی کھڑا کر دیا گیا تھا اور تعجب کی بات ہے کہ وہی کانگریس آج اداروں کی بات کرتی ہے ۔