لوک سبھا انتخابات کیلئے کانگریس کے ساتھ مشروط اتحاد کے لئے تیار ہیں: عمر عبداللہ
شاہ ہلال
اننت ناگسابق آئی اے ایس افسر یا ان کی جماعت ’جموں وکشمیر پیپلز مومنٹ‘ کا نام لئے بغیر کہا کہ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمرعبداللہ نے آج کہاکہ ایک سازش کے تحت ہمیں ٹولیوں میں بانٹا جارہا ہے۔جبکہ عمر عبداللہ نے کہا کہ ان کی جماعت عام انتخابات کے حوالے سے کانگریس کے ساتھ قبل از الیکشن مشروط اتحاد کے لئے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس نے کانگریس کے سامنے یہ شرط رکھی ہے کہ وادی کی سبھی تین پارلیمانی نشستوں پر اس کے امیدوار کھڑے ہوں گے، اگر کانگریس کو یہ شرط منظور ہے تو نیشنل کانفرنس ’اتحاد‘ کے لئے تیار ہے۔ عمر عبداللہ نے اتوار کے روز یہاں ڈاک بنگلہ میں ایک عوامی اجتماع کے حاشیہ پر نامہ نگاروں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا ’اسمبلی انتخابات کا بگل ابھی نہیں بجا ہے۔ اس لئے ان انتخابات پر بات کرنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں۔ جہاں تک لوک سبھا انتخابات کے سلسلے میں کانگریس سے الائنس کی بات ہے، یہ صحیح ہے کہ کانگریس کی طرف سے ہمیں ایک تجویز ملی ہے۔ لیکن ہم نے کانگریس سے کہا ہے کہ وادی کی تین سیٹوں پر نیشنل کانفرنس کے امیدوار ہی میدان میں اتریں گے۔ اگر وہ اس پر راضی ہیں تو ہم باقی سیٹوں پر بات کرنے کے لئے تیار ہیں‘۔ انہوں نے کہا ’ہم اسمبلی انتخابات کے لئے بالکل تیار ہیں۔ ہم نے الیکشن کمیشن کے اعلیٰ سطحی وفد کو بتایا تھا کہ یہاں پر لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات ایک ساتھ منعقد کئے جانے چاہیں۔ لیکن ایک سازش کے تحت یہاں کے لوگوں کو عوامی منتخب حکومت سے دور رکھا جارہا ہے۔ اس میں بدقسمتی سے کچھ افسروں اور سیاسی جماعتوں کا ہاتھ ہے‘۔ قابل ذکر ہے کہ ریاست میں لوک سبھا کی چھ نشستیں ہیں۔ ان میں سے وادی میں تین ، جموں میں دو اور لداخ میں ایک ہیں۔ قبل ازیں عمر عبداللہ نے عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران سابق آئی اے ایس افسر یا ان کی جماعت ’جموں وکشمیر پیپلز مومنٹ‘ کا نام لئے بغیر کہا کہ ایک سازش کے تحت ہمیں ٹولیوں میں بانٹا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا ’ہمارے دشمن نہیں چاہتے کہ ہم ایک آواز میں بات کریں، جب ہم کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اس کا سیاسی حل ہونا چاہئے تو ہمیں دبانے کی کوشش کی جاتی ہے ، ہمیں کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ایک سازش کے تحت ہمیں ٹولیوں میں بانٹا جاتا ہے‘۔ اس موقعے پر این سی جنرل سکریٹری علی محمد ساگر، صوبائی صدر ناصر اسلم وانی، سٹیٹ سکریٹری سکینہ ایتو، شمالی زون صدر ڈاکٹر بشیر احمد ویری، ضلع صدر اننت ناگ الطاف احمد کلو اور پیر محمد حسین کے علاوہ کئی لیڈران موجو دتھے۔ اجتماع میں سابق جسٹس سید توقیر احمد اور پی ڈی پی کے سابق جنرل سکریٹری غلام رسول ملک نے باضابطہ طور پر نیشنل کانفرنس میں شمولیت اختیار کی اور دونوں کا پارٹی میں خیر مقدم کیا گیا۔ عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’میں جمہوریت کے خلاف نہیں ، مجھے یہ غلطی فہمی نہیںہے کہ صرف نیشنل کانفرنس کو ہی اقتدار کی کرسی سنبھالنے کا حق ہے، لیکن یہ نئی جماعتیں صرف کشمیر کیوں آرہی ہیں، جموں اور لداخ میں ایسا رجحان کیوں نہیں، وہاں کے لوگ کو بھی جمہوری حق حاصل ،وہاں جب لڑائی ہوتی ہے تو سیدھے دو یا تین جماعتوں میں ہوتی ہے لیکن وادی میں دس پندرہ جماعتوں میں مقابلہ آرائی ہوتی ہے، کوشش یہی ہوتی ہے کہ جنوبی کشمیر میں کوئی ایک جماعت آئے، وسطی کشمیرمیں دوسری جماعت جیتے اور شمالی کشمیر میں تیسری پارٹی جیت حاصل کرے، تاکہ ہم بکھر جائیں اور ہماری آواز میں کوئی وزن نہ رہے۔ نیشنل کانفرنس کے بانی شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ نے اپنی قید حیات میں ہی اس کی پیش گوئی کی تھی اور کہا تھا کہ مرکز میرے مرنے کے بعد یہاں کے لوگوں کی آواز کو تقسیم کرنے کے لئے گلی گلی لیڈر بنائے گا‘۔ نیشنل کانفرنس نائب صدر نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ ہم ایک ہی لگام کو پکڑیں اور اُن تمام سازشوں کو ناکام بنائیں جس کے ذریعے ہمیں بانٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پی ڈی پی کی سربراہی والی سابق حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ ان لوگوں نے یہاں حالات اتنے خراب کئے ہیں کہ اننت ناگ پارلیمانی نشست کے انتخابات 3مراحل میں ہیں جبکہ کئی ریاستوں میں، جہاں 20تیس پارلیمانی نشستیں ہیں، ایک ہی دن ووٹنگ ہے۔حالات اس قدر خراب کئے گئے ہیں کہ یہاں تین دن ووٹنگ ہوگی، 2016، 2017اور 2018میں تو یہاں اس نشست کے ضمنی انتخابات بھی نہیں کر پائے اور لوگوں کو فیصلہ کرنے کا موقع نہیں ملا۔ انہوں نے کہا ’ الیکشن کا بگل بج گیا ہے، جس الیکشن کی ہم اُمید کررہے تھے وہ نہیںہوئے لیکن پارلیمانی انتخابات ہورہے ہیں، وقت آگیا ہے کہ ہم دوبارہ حساب کتاب نکالیں، سب سے پہلے ذہن میں جو سوال آتا ہے وہ یہ ہے کہ جنوبی کشمیر کے ووٹروں نے 2002سے لگاتار پی ڈی پی بھر پور حمایت دی اور وفا کی، کیا پی ڈی پی نے یہاں کے لوگوں کے ساتھ وفا کی؟جنوبی کشمیر کے حالات دیکھ کر ایسا بالکل بھی نہیں لگتا‘۔ پی ڈی پی کے عوام سے کئے گئے تمام وعدوں کو سراب قرار دیتے ہوئے عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’گولی نہیں بولی،امن، مفاہمت، مصلحت، ہیلنگ ٹچ اور دیگر طرح طرح کے تمام نعرے کھوکھلے نکلے، پی ڈی پی کی حکومت جنوبی کشمیر کے عوام کے لئے ایک ڈراونا خواب ثابت ہوئی، سب سے زیادہ کریک ڈاﺅن جنوبی کشمیر میں دیکھنے کو ملتے ہیں، سب سے زیادہ زیادتیوں جنوبی کشمیر میں ہوئیں، سب سے زیادہ پی ایس اے کا اطلاق اور گرفتاریاں جنوبی کشمیر میں ہوئیں، سب سے زیادہ خون خرابہ جنوبی کشمیر میں ہورہا ہے، سب سے زیادہ بنکر جنوبی کشمیر میں بنائے گئے، سب سے زیادہ ٹیئر گیس، پیلٹ اور گولیوں کا استعمال جنوبی کشمیر میں ہوا۔ کیا یہی سب دیکھنے کے لئے پی ڈی پی والوں کو عوام نے ووٹ دیئے تھے؟۔مختلف تنظیموں نے بھی الیکشن میں پی ڈی پی کا اندرونی ساتھ دیا،کچھ کا ہم نام لیتے ہیں اور کچھ کا ہم نام بھی نہیں لیتے، کیا یہ تنظیمیں اپنا محاصبہ کریں گی؟‘۔محبوبہ مفتی کے بقول ان کے مگرمچھ کے آنسوﺅں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ ’آنسو بہانا انہیں اقتدار کھونے کے بعد یاد آتے ہیں، محبوبہ جی آج ہر بات پر ہمدردی، افسوس اور آنسو بہاتی ہے لیکن 2016میں جب نوجوان گولیوں کے شکار بنائے جارہے تھے ، اُس وقت کسی کو یہ آنسو نظر نہیں آئے، جب یہاں اندھا دھند گرفتاریاں اور مظالم جاری تھے تب محبوبہ جی نے کسی کے ساتھ ہمدردی نہیں کی، تب تو موصوفہ کہتی تھی کہ جو لڑکے گولیوں کا شکار ہوئے وہ ٹافی اور دودھ لانے نہیں گئے تھے ، اقتدار کے نشے میں دُھت موصوفہ نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ فوجی اور فورسز کی بندوقیں صرف دکھانے کے لئے نہیں ہوتیں بلکہ استعمال کرنے کے لئے بھی ہوتی ہیں،اس کے برعکس تب محبوبہ جی کی آنکھوں سے آنسو نکلے ہوتے تو وہ سب کے دلوں کو چھو جاتے لیکن تب ایسا نہیں ہوا ۔ آج موصوفہ آنسو بہارہی ہیں، یہ آنسو الیکشن کے آنسو ہیں، ان آنسوﺅں کی سیاسی قیمت ہوتی ہے۔ جنوبی کشمیر کے لوگوں نے ان سیاسی آنسوﺅں کا بہت خمیازہ بھگتا ہے، خدارا دوبارہ غلطی نہ دہرانا‘۔ نیشنل کانفرنس نائب صدر نے کہا کہ محبوبہ مفتی آج حالات کی خرابی کا رونا رو رہی ہیں، آج محبوبہ مفتی کہتی ہیںکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے، گرفتاریاں نہیںہونی چاہئیں، لیکن شائد بھول جاتی ہیں کہ یہ سب کو اُن کی اپنی ہی حکومت کی ہی دین ہے۔این آئی اے کارروائیوں پر واویلا کرنے پر پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کو لتاڑتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ میں اُس وقت حیران ہوا جب میں نے اخبار میں شاہد الاسلام کی رہائی کے لئے محبوبہ مفتی کی اپیل دیکھی۔ انہوں نے کہا ’محبوبہ جی وہ تو آپ کے دورِ اقتدار میں گرفتار ہوئے، تب آپ نے ہمدردی کیوں نہیں کی تب گرفتار کی اجازت کیوں دی؟ آج جب میرواعظ مولانا عمر فاروق صاحب کے خلاف این آئی اے والے تحقیقات کررہے ہیں، اُن کو پوچھ تاچھ کے لئے دلی بلایا جارہا ہے، تو محبوبہ جی پھر ناراض ہوئیں اور کہا کہ یہ غلط ہے، یہ نہیں ہونا چاہئے، لیکن جب ہم دیکھتے ہیںکہ یہ کون سا کیس ہے تو پتہ چلتا ہے کہ 2017کا کیس ہے، جب محبوبہ مفتی وزیر اعلیٰ تھیں، تب محبوبہ جی نے ان کے خلاف کیس دائر کرنے کی اجازت کیوں دی ؟ تب اپنا اثر و رسوخ کیوں نہیں استعمال کیا؟‘۔ پی ڈی پی کی طرف سے جماعت اسلامی پر پابندی کے خلاف واویلا کو محض فریب کاری قرار دیتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ ’جماعت اسلامی پر پابندی عائد ہوئی، اُس کی شروعات کہاں سے ہوئی، جب آپ (پی ڈی پی )نے یہاں بی جے پی لاکر حکومت بنائی، ہم نے تو روکنے کی کوشش کی تھی، 2014الیکشن کے بعد ہم مفتی صاحب سے کہا تھا کہ بھاجپا کو لانا ریاست کے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہوگا، ہم نے غیر مشروط حمایت دینے کا وعدہ اور اعلان کیا لیکن مفتی صاحب نے ہمارا نہیں مانا اور بھاجپا کے ساتھ گل مل گئے، وہ دن اور آج کا دن حالات آپ کے سامنے ہیں‘۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ محبوبہ مفتی نے خود تسلیم کیا کہ 2016میں انہوں نے اپنی جماعت کو بچانے کے لئے بھاجپا کے ساتھ الحاق کیا، اب اس بات کا کیا بھروسہ ہے کہ محبوبہ مفتی پھر ایک بار اپنی جماعت کو بچانے کے لئے بھاجپا کیساتھ اتحاد نہ کر بیٹھے۔ انہوں نے کہا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ پی ڈی پی اور بھاجپا میں آج بھی برابر تال میل ہے، حکومت چھن جانے کے بعد بھی پی ڈی پی نے راجیہ سبھا کے نائب چیئرمین کے انتخاب میں غیر حاضر رہ کر بھاجپا کی مدد کی۔ انہوں نے کہا کہ ایسی جماعت پر کیسے بھروسہ کیا جاسکتا ہے؟کیا جنوبی کشمیر کا ووٹر دوبارہ نریندر مودی کو مدد کرنے کے لئے تیار ہے، کیا جنوبی کشمیر کے لوگ پھر سے سنگ پریوارکے ہاتھ مضبوط کرنے آگے آئیں گے؟۔