یواین آئی
سرینگرحریت کانفرنس (ع) چیئرمین میرواعظ مولوی عمر فاروق جنہیں این آئی اے نے تازہ سمن بھیج کر 18 مارچ کو نئی دلی طلب کیا ہے، نے کہا کہ ’ہم اتنے کمزور نہیں کہ کاغذی نوٹسوں سے اپنے اصولی موقف سے دستبردار ہوجائیں گے‘۔ انہوں نے کہا کہ ’مسئلہ کشمیر سے متعلق ہمارے اصولی موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور ہم اس پر چٹان کی مانند ڈٹے رہیں گے‘۔ میرواعظ نے این آئی اے کے سمن سے ناراض کشمیری نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے جذبات پر قابو رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر این آئی اے کو مجھ سے کچھ پوچھنا ہے تو وہ سری نگر آکر پوچھ سکتے ہیں۔ میرواعظ نے یہ باتیں جمعہ کے روز یہاں تاریخی جامع مسجد میں نمازیوں کے بھاری اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ اس موقع پر نمازیوں کی طرف سے ’میرواعظ تیرا ایک اشارہ جان ہماری حاضر ہے، جو ہم سے ٹکرائے گا چُور چُور ہوجائے گا، میرواعظ صاحب قدم بڑھاﺅ ہم تمہارے ساتھ ہیں‘ جیسے نعرے لگائے۔ میرواعظ نے کہا کہ آج ہندوستان میں ایسا ماحول بنایا جارہا ہے جس میں مسئلہ کشمیر کی بات کرنے والے کو دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ ’کیا یہ مطالبہ کرنا کہ مسئلہ کشمیر حل کرودہشت گردی ہے؟‘۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری دہشت گرد نہیں بلکہ انسان پسند لوگ ہیں۔ میرواعظ نے مسئلہ کشمیر کو عالمی برادری اوراقوام متحدہ کے ایجنڈے پر سب سے قدیم حل طلب مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس مسئلہ کے حل کے حوالے سے آج سے نہیں بلکہ 1931ءسے یہاں کے عوام مال و جان کی قربانیاں پیش کررہے ہیں اور1947ءکے بعد سے جب بھارت اور پاکستان کی صورت میں دو الگ الگ مملکتیں وجود میں آئیں تب سے جموںوکشمیر کے عوام دونوں ممالک سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ ان کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا ’ہماری سیاست اصولی سیاست ہے۔ ہماری سیاست یہاں کے عوام کے جذبات ، احساسات اور ان کے امنگوں کی سیاست ہے۔ یہاں کے عوام کے حق کی بات ہم کرتے رہیں گے کیونکہ 1947 سے لیکر آج تک یہاں کے لوگوں نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ جہاں لوگوں نے قربانیاں دیں وہاں قیادت قربانیوں سے پیچھے نہیں رہی‘۔ حریت چیئرمین نے کہا کہ مسئلہ کشمیر جتنا پرانا مسئلہ ہے تب سے لوگ آتے گئے لیکن جامع مسجد کے منبر و محراب ، یہاں کے عوام کی حق و انصاف سے عبارت موقف کی بھر پور ترجمانی کا فریضہ ادا کررہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ جامع مسجد کے منبر و محراب نے 1931ءسے لیکر آج تک ہر مرحلے پر یہاں کے عوام کے حقوق کی ترجمانی کی بات کی ہے ۔70 سال کا عرصہ گذر گیا ہماری تنظیم کا موقف ہمیشہ ایک ہی رہا ہے اور وہ یہ کہ مسئلہ کشمیر کو یہاں کے عوام کی رائے کے مطابق حل کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا ’میں یہ بات بار بار اس منبر و محراب سے کہتا ہوں کہ ہماری لڑائی کسی مذہب یا کسی ملک کی سالمیت کے خلاف نہیں ہے بلکہ ہماری لڑائی حکومت ہندوستان کی ان غلط پالیسیوں کے خلاف ہے جن کے تحت 1947 سے آج تک مسئلہ کشمیر کو ملٹری اپروچ کے ذریعے دبانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ 70 سال گذر چکے ہیں، آج کشمیریوں کی چوتھی نسل سڑکوں پر ہے، لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے‘۔ میرواعظ نے کہا کہ یہاں کی قیادت اقتدار کی خواہاں نہیں اور ہماری لڑائی اقتدار کے لئے نہیں ، میرواعظ کا منصب ایک اسلامی اور دعوتی منصب ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس منصب کا تقاضا ہے کہ حق کی بات بہ بانگ دہل کی جائے یہی وجہ ہے کہ جامع مسجد کے منبر ومحراب آج سے نہیں صدیوں سے حق کی بات کرتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہندوستان میں ایسا ماحول بنایا جارہا ہے جس میں مسئلہ کشمیر کی بات کرنے والے کو دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا ’کیا یہ مطالبہ کرنا کہ مسئلہ کشمیر حل کرودہشت گردی ہے؟ کیا یہ کسی ملک کے خلاف اعلان جنگ ہے؟ کیا ہندوستان اور پاکستان کی طرف سے کشمیریوں کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کا مطالبہ کرنا قوم دشمنی ہے؟ ہم نے 1993 میں حریت کانفرنس کی بنیاد ڈالی تاکہ ہم سیاسی اور پرامن طور پر اپنی بات سامنے رکھ سکیں گے۔ ہم نے دنیا کے ہر ایک فورم میں یہی بات کی کہ مسئلہ کشمیر کو سیاسی طور پر حل کیا جائے۔ آج ہندوستان میں ایسا ماحول بنایا جارہا ہے جس میں مسئلہ کشمیر کی بات کرنے والے کو دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ یہ حیرت اور افسوس کی بات ہے۔ ہم کوئی دہشت گرد نہیں بلکہ انسان پسند لوگ ہیں۔ ہم وہ وعدے یاد دلاتے ہیں جو ہم سے تاریخی لال چوک، بھارتی پالیمان اور اقوام متحدہ میں کئے گئے‘۔ انہوں نے کہا ’ہم نے اقوام متحدہ میں او آئی سی میںغیر جانبدارتحریک اور دیگر بین الاقوامی فورموں میں یہ بات کہی کہ مسئلہ کشمیر کو سیاسی طور حل کیا جائے ۔لیکن آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ ایسا ماحول تیار کیا جارہا ہے اور بدقسمتی سے بھارت کے الیکٹرانک میڈیا کا ایک حصہ یہ پروپیگنڈا کررہا ہے کہ جو کوئی مسئلہ کشمیر کی بات کرے گا وہ دہشت گرد ہے یہ بڑے افسوس کی بات ہے۔ ہم انصاف پسند لوگ ہیں، ہم وہ لوگ ہیں جو بھارت کو ان کے وعدے یاد دلارہے ہیں ۔ وہ وعدے جو کشمیری عوام سے بھارتی پارلیمنٹ میں کئے گئے ان کی قیادت نے سری نگر کے لالچوک میں آکر کئے ، اگر ان وعدوں کی یاد دلانا دہشت گردی ہے تو میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہندوستان کی سیاست کہاں جارہی ہے، بھارت کے لوگ کہاں جارہے ہیں۔ آج ہر طرف یہ کوشش کی جارہی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو ختم کیا جائے ، ہندوستان کی حکومت اس مسئلہ کے حوالے سے ملٹری مائٹ سے عبارت اپروچ اختیار کئے ہوئے ہیں، لاکھوں کی تعداد میں افواج کے بل پر یہاں کے عوام کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے پھر لیگل اپروچ سے کوشش کی جارہی ہے کہ مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو ختم کیا جائے، آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی بات کی گئی، فوجی کالونیاں تعمیر کرنے کی بات کی گئی اور پچھلے ایک مہینے سے یہاں کی دینی، سیاسی، سماجی تنظیموں اور شخصیات کے خلاف کریک ڈاﺅن شروع کیا گیا ہے۔ محمد یاسین ملک اور دینی مبلغ مولانا مشتاق ویری کو پی ایس اے کے تحت پابند سلاسل کیا گیا ، جماعت اسلامی کی پوری قیادت کو گرفتار کیا گیا ،اور یہ سب اس لئے کیا جارہا ہے تاکہ مسئلہ کشمیر کو دبایا جائے‘ ۔ میرواعظ نے این آئی اے کے سمن پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اتنے کمزور نہیں کہ کاغذی نوٹسوں سے اپنے اصولی موقف سے دستبردار ہوجائیں گے‘۔ انہوں نے کہا ’میں نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے جذبات پر قابو رکھیں۔ ہم اتنے کمزور نہیں کہ کاغذی نوٹسوں سے اپنے اصولی موقف سے دستبرار ہوجائیں گے‘۔ انہوں نے کہا ’میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ نے جو قیادت کو پکڑنے اور دبوچنے، پرانے کیسز ڈالنے کا، این آئی اے کے ذریعے چھاپے، گرفتاریاں، نوٹسیں بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا ہے، یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ میں اور میرے والد نے یہ چیزیں دیکھی ہیں۔ مولوی یوسف شاہ صاحب حق کی پاداش میں جلائے وطن کئے گئے۔ میرے والد حق کی پاداش میں شہید کئے گئے۔ سرکاری دباﺅ، بندشیں، قدغنیں ، خانہ نظر بندی، جامع مسجد میں نماز کی ادائیگی پر پابندی، پاسپورٹ کی واپسی، عمرہ پر پابندی اور او آئی سی کے اجلاس میں جانے پر پابندی جیسے تمام حربے آزمائے گئے۔ لیکن میں حکومت ہندوستان سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ میرے اثاثے ڈھونڈ رہے ہیں، میرا اثاثہ میرے لوگ ہیں۔ میرے عوام ہیں‘۔ میرواعظ نے کہا کہ اگر این آئی اے کو مجھ سے کچھ پوچھنا ہے تو وہ سری نگر آکر پوچھ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’میں جوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ جذبات میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی ہنگامہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں دکھانا ہے کہ ہم ایک مہذب قوم ہے۔ ہمیں بتانا ہے کہ ہماری دلیل حقائق پر مبنی ہے۔ میں اور میرے وکیل نے یہ بات برملا کہی کہ آپ کو جو پوچھنا ہے، آپ آکر پوچھئے۔ ان کی ہدف میری ذات نہیں ہے۔ جماعت اسلامی، حریت کانفرنس، یاسین ملک، گیلانی، حریت قائدین اور لوگوں کو ذات کی وجہ سے ٹارگٹ نہیں بنایا جارہا ہے بلکہ ہمارے موقف کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ مسئلہ کشمیر سے متعلق ہمارے اصولی موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ہم اپنے موقف پر چٹان کی طرح ڈٹے رہیں گے‘۔ انہوں نے کہا ’ہم کو متحد رہ کر اور اتفاق و اتحاد کے ساتھ آگے بڑھنا ہے ۔ ہمارا موقف بالکل واضح اور دو ٹوک ہے میں نے جو بات اٹل بہاری واجپائی سے کی ،ایڈوانی سے کی ، منموہن سنگھ سے کی ، جنر ل پرویز مشرف سے کی اور پوری دنیا کی قیادت کے سامنے کی اور وہ یہ کہ مسئلہ کشمیرکو حل کرنے کے دو ہی طریقے ہیں یا اس مسئلہ کے حل کے حوالے سے عالمی برادری کی جانب سے کئے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے یا پھر مسئلہ سے جڑے تینوں فریقوں کے درمیان ایک بامعنی مذاکراتی عمل کے ذریعے اس مسئلہ کا کوئی قابل قبول حل تلاش کیا جائے ‘۔ انہوں نے کہا ’میں بھارت کے ارباب اقتدار سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ سیاسی جماعتوں کے مفاد کے لئے کشمیرکو بھینٹ نہ چڑھائیں ، آج کشمیر کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نشانہ بنایا جارہا ہے اور یہ بھارت کی ظلم و جبر کی پالیسیاں ہی ہیں کہ یہاں کا نوجوان عسکریت کے راستے پر چل نکلا ہے ۔نوجوانوں کو پشت بہ دیوار کیا جارہا ہے، سیاسی سپیس ختم کردی گئی ہے۔ تجارتی انجمنوں، سٹوڈنٹس تنظیموں، دانشوروں، سول سوسائٹی غرض ہر کسی پر پابندی ہے کہ وہ کوئی بات نہ کریں۔ آپ جمہوریت کی بات کررہے ہیں ، میں یہ کہتا ہوں کہ یہ فاشزم ہے، یہ مطلق العنانیت کی حد ہے کہ یہاں کسی کو بات کرنے کی اجازت نہیں‘ ۔ میرواعظ نے کہا کہ آج نہیں تو کل بھارت اور پاکستان کو یہ مسئلہ حل کرنے کے لئے اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔ہم نے انتہائی نامساعد حالات اور خطرات میں بھارت اور پاکستان کی قیادت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بات چیت کے ادوار کئے اور آج عالمی برادری بھی دونوں ممالک پر زور دے رہی ہے کہ وہ کشمیر سمیت تمام حل طلب مسائل پر بات کریں ، جنگ کے بجائے میز پر آکر مسائل کا حل تلاش کریں، کشمیر کے لوگ اپنا حق مانگ رہے ہیں ، ہماری تحریک کوئی سپانسرڈ تحریک نہیں بلکہ یہاں کے عوام کی تحریک ہے اور جو یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ یہاں کے نوجوان پیسوںکے لئے سڑکوں کا رخ کررہے ہیں تو میں بھارت کہتا ہوں کہ انہوں نے کشمیر کے حوالے سے کروڑوں ، اربوں ر وپے کے پیکیج دیئے لیکن اس کے باوجود یہ تحریک زندہ ہے کیونکہ یہ تحریک اقتدار کی نہیں بلکہ حق و انصاف سے عبارت تحریک ہے اور آج یہاں کی پوری سیاسی ، ملی، دینی قیادت ایک ہی صف میں کھڑی ہے ۔ میرواعظ نے زندگی کے تمام مکاتب فکر سے وابستہ افراد دینی، سیاسی، تجارتی تنظیموں ، شخصیات، علمائے کرام کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ان کے ساتھ اس مرحلے پر بھر پور یکجہتی کا اظہار کیا۔ اس دوران نماز جمعہ کے فوراً بعد جامع مسجد سے راجوری کدل چوک تک متحدہ مجلس علماءکے پروگرام کی پیروی میں امام حی کی قیادت میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ایک احتجاجی جلوس نکالا جس دوران عوام نے میرواعظ کے خلاف ہراسانیوں کے مبینہ عمل اور مذہبی اور سیاسی قائدین کی گرفتاری کے خلاف شدید احتجاج کیا۔