یواین آئی
نئی دہلیسپریم کورٹ نے رافیل لڑاکا طیارہ خریداری کے معاملے میں دائر نظر ثانی کی درخواستوں پر جمعرات کو فیصلہ محفوظ کرلیا۔ چیف جسٹس رنجن گگوئی کی زیر قیادت بینچ نے لیک دستاویزات پر مرکز کے خصوصی اختیارات کے دعوی پر حکم کو محفوظ رکھ لیا۔ اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے رافیل جنگی طیارہ سے متعلق دستاویزات پرخصوصی اختیارات کا دعوی کیا اور دلیل دی کہ ہندوستانی گواہان قانون 123 کے تحت اسے ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے دلیل دی کہ یہ دستاویزات گورنمنٹ سیکریٹ ایکٹ کے تحت محفوظ دستاویزات کے زمرے میں شامل ہیں اور متعلقہ محکمہ کی اجازت کے بغیر پیش نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ مسٹر وینوگوپال نے کہا کہ کوئی بھی قومی سلامتی سے متعلق دستاویزات شائع نہیں کر سکتا، کیونکہ ملک کی سلامتی انتہائی اہم ہے ۔ وہیں وکیل پرشانت بھوشن نے استدلال کیا کہ رافیل کے جن دستاویزات پر اٹارنی جنرل خصوصی اختیارات کا دعوی کررہے ہیں ، وہ شائع ہوچکے ہیں اور وہ پبلک ڈومین میں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حق اطلاعات قانون کے التزامات کہتے ہیں کہ مفاد عامہ اور دیگر چیزوں سے سب سے اہم ہے اور انٹیلیجنس اداروں سے متعلق دستاویزات پر کسی بھی قسم کے خصوصی اختیارات کا دعوی نہیں کیا جا سکتا۔ مسٹر بھوشن نے یہ بھی استدلال کیا کہ رافیل سودے میں دو حکومتوں کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے کیونکہ فرانس نے کوئی گارنٹی نہیں دی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پریس کونسل آف انڈیا کے قانون میں صحافیوں کے ذرائع کے تحفظ کا التزام ہے ۔ اس کے بعد عدالت نے کہا کہ وہ مرکزی سرکار کے ابتدائی اعتراض پر فیصلہ کرنے کے بعدیہ معاملے کے حقائق پر غور کریں گے ۔ بینچ رافیل کے معاہدے کے معاملے میں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کے لئے سابق مرکزی وزراءیشونت سنہا اور ارون شوری اور مسٹر بھوشن کی طرف سے دائر نظر ثانی کی درخواستوں پر سماعت کررہی ہے ۔