سعودی عرب سے تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کا عزم :ڈاکٹر اوصاف سعید
یواین آئی
حیدرآبادسعودی عرب میں ہندوستانی سفیر کی حیثیت سے تقرر پانے والے اوصاف سعید نے کہا ہے کہ ہندوستان اور سعودی عرب کے درمیان صدیوں سے خوشگوار دوستانہ تجارتی اور ثقافتی تعلقات رہے ہیں۔ دونوں ممالک نے مختلف شعبوں میں جیسے تیل اور گیس ، تجارت و اقتصادیات انوسمنٹ، سیکوریٹی اور دفاعی تعاون میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور بین الاقوامی دہشت گردی کے جنون کا مشترکہ طور پر مقابلہ کرنے کا تہیہ کررکھا ہے کیوں کہ اس سے عالم عرب کو خطرہ ہے ۔سعودی عرب ہندوستان کیلئے توانائی کا فراہمی کا ایک اہم وسیلہ ہے ۔ ہم سعودی عرب سے اپنی ضروریات کا 20فیصدخام تیل یہاں سے درآمد کرتے ہیں۔ ہندوستان امریکہ اور چین کے بعد خام تیل کا تیسرا سب بڑا صارف ہے ۔سعودب عرب چین’ امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے بعد ہندوستان کا چوتھا سب سے اہم تجارتی پارٹنر ہے ۔ دونوں کے درمیان 27.48بلین ڈالرس کی باہمی تجارت ہوتی ہے ۔ 420ہندوستانی کمپنیاں ہیں۔ مملکت سعودی عرب میں جوائنٹ وینچرس یا صد فیصد مالکانہ حقوق کے ساتھ قائم ہیں۔حال ہی میں سعودی عرب نے ہندوستان میں 100بلین ڈالرس انرجی، رفائننگ، پیٹرو کیمیکلس، انفراسٹرکچر، اگریکلچر، منرلس اینڈ مائننگ مینوفیچرنگ، تعلیم اور صحت کے ئر کے شعبوں میں سرمایہ کے فیصلہ کا اعلان کیا ہے ۔اس میں سعودی آرامکو کی جانب سے ہندوستان کے ان مغربی ساحلی علاقہ میں دنیا کی سب سے بڑی آئل ریفائنری اور پیٹرو کیمیکلس کے قیام میں مجوزہ سرمایہ کاری ہے ۔ بحیثیت ہندوستانی سفیر ان کی یہ کوشش رہے گی کہ حالیہ اعلیٰ سطحی دورہ کے دوران جن مختلف معاہدات پر دستخط کئے گئے اور جو اہم فیصلے کئے گئے اس پر عمل کے سلسلہ میں متحرک رہوں تاکہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی سیاسی، رفاعی، اقتصادی اور عوام سے عوام کے درمیان تعلقات مزید مستحکم ہوسکے ۔اوصاف سعید نے ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز’ ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی’ حیدرآباد اور یواین آئی حیدرآباد کو دیئے گئے مشترکہ انٹرویو میں سعودی عرب میں بحیثیت سفیر واپسی تاثرات؟سے متعلق پوچھے گئے سوال پر کہا کہ سعودی عرب میں انہیں مختلف حیثیتوں سے تین مرتبہ خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ پہلی مرتبہ 1995-96ءجدہ میں قونصل حج کے طور پر ۔ دوسری مرتبہ سکینڈ اور فرسٹ سکریٹری کی حیثیت سے سفارتخانہ ہند ریاض میں 1996-98ءاور 2004-08 تک جدہ میں قونصل جنرل کی حیثیت سے ۔تاہم سعودی عرب میں ہندوستانی سفیر کی حیثیت سے اپنی تقرری کو وہ سب سے زیادہ اہم اور باوقار سمجھتے ہیں ۔ یہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب ہندوستان اور سعودی عرب کے تعلقات اب تک کے سب سے بہترین ہیں جبکہ حال ہی میں ولیعہدمحمد بن سلمان بن عبدالعزیز السعود وزیر دفاع سعودی عرب نے 19 اور 20فروری 2019ءکو پہلا سرکاری دورہ کیا جو ہر اعتبار سے کامیاب رہا۔جب ان سے سعودی عرب میں مقیم ہندوستانیوں کے مسائل سے متعلق سوال کیاگیا تو انہوں نے کہاکہ سعودی عرب کے مختلف شعبہ جات میں 27لاکھ تارکین وطن خدمات انجام دے رہے ہیں اور مملکت سعودی عرب کی ترقی میں اپنا رول ادا کررہے ہیں۔ہندوستانی تارکین وطن کو تمام خلیجی ممالک میں بالخصوص سعودی عرب میں ان کی دیانتدارانہ خدمات اور سخت محنت کیلئے قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔برسوں سے سعودی عرب کی منسٹری آف سوشیل ڈیولپمنٹ اور تارکین وطن کے مفادات کے تحفظ کے ذمہ دار ہندوستانی اداروں نے ہندوستانی ورکرس کے عام مسائل کی عاجلانہ یکسوئی کیلئے ایک موثر میکانزم بنایا ہے ۔انڈین ایمبیسی اور ہندوستانی قونصل خانہ کے کمیونٹی ویلفیر ونگس ضرورت میں ہندوستانیوں کی بروقت مدد کیلئے ہمیشہ متحرک رہے ہیں۔ ملازمت کی نوعیت’ بقایہ جات کی ادائیگی وغیرہ جیسے مسائل کو حل کرنے کیلئے ہمیشہ آگے رہے ہیں۔ہندوستانی برادری کے وہ ارکان جن کے بچے ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں اعلیٰ تعلیم کیلئے مسائل کا سامنا ہے کیوں کہ مملکت سعودی عرب میں تارکین وطن کے بچوں کیلئے مواقع کم ہیں۔ حج کونسل اور قونصل جنرل کی حیثیت سے غیر معمولی مقبولیت کے رازکے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ یہ ان کی خوش نصیبی ہے کہ ابتداءہی سے انہیں عوام سے قریب رہ کر خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ پہلے مئی 1993ءسے جنوری 1995ءتک ریجنل پاسپورٹ آفیسر حیدرآباد کی حیثیت سے اور پھر مختلف ممالک میں ایک سفارت کار کی حیثیت سے ۔انہوں نے ہمیشہ اس بات کی کوشش کی ہے کہ ان کے اور عوام کے درمیان کوئی رکاوٹ نہ ہو۔لوگ ای میل، فون یا سوشیل میڈیا کے ذریعہ بھی ان سے اپنے مسائل سے متعلق رابطہ قائم رکھتے ہیں اور تبادلہ خیال بھی۔ اس سے انہیں عوام کی نفس شناسی کا موقع ملا اور مختلف مسائل سے عملی طور پر منصفانہ انداز میں نمٹنے کا موقع ملا۔اس سوال پر کہ ہندوستانیوں کی کثیر تعداد ہندوستان واپس ہورہی ہے ’ انہیں روکنے اور انہیں وہاں روزگار فراہم کرنے کیلئے وہ کیا کرسکتے ہیں؟تو انہوں نے نشاندہی کی کہ ہندوستانی محنت کشوں کی خلیجی ممالک کو روانگی غیر معمولی ہے اور یہ ان ممالک میں طلب اور سپلائی پر منحصر ہے ۔ کئی ممالک میں ملازمتوں کو قومیائے جانے کے باوجود ہندوستانیوں کی ایک بڑی تعداد نئے روزگار کی تلاش میں خلیجی ممالک کا رخ کررہی ہے ۔یو اے ای میں 33لاکھ اور سعودی میں 27لاکھ ہندوستانی محنت کش ہیں۔ہندوستانی تارکین وطن پر قومیانے کی اثرات کو کم سے کم کرنے کے لئے خصوصی اقدامات کئے گئے ہیں۔ ہندوستان اور سعودی عرب کی حکومتوں نے دونوں ممالک کے مائیگریشن پلیٹ فارمس کوe-migrate اور e-tawtheeq کے ذریعہ مشترکہ کردیا ہے تاکہ نقل مکانی کے لئے متحرک و موثرماحول فراہم کیا جاسکے ۔سعودی عرب ہندوستان میں ایک بلین ڈالر کا سرمایہ کاری کررہا ہے ’کیا اِن پروجیکٹس میں واپس ہونے والے این آر آئیز کو کیا مواقع مل سکتے ہیں؟تو انہوں نے واضح کیا کہ سعودی عرب کی جانب سے ہندوستان میں مجوزہ سرمایہ کاری مختلف شعبوں میں کی جائے گی جس سے توقع ہے کہ اِن شعبوں کو زبردست فروغ حاصل ہوگا۔اس استفسار پر کہ ان کی اس عہدہ پر تقرری پراردو زبان و ادب ، تہذیب اور ثقافتی فروغ میں ’ نئے دور کا آغاز ہوگا؟تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے ہمیشہ کلچرل ڈپلومیسی اور عوام سے عوام کے درمیان روابط کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔یہ دو تہذیبوں کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرنے اور سمجھنے میں مددگار ہے ۔جدہ میں ان کے قیام اور خدمات کے دوران انہوں نے پہلا انڈیا فیسٹیول، پہلا ایشین فیسٹول ، پہلا ایشین فلم فیسٹول کا سعودی عرب میں اہتمام کیا تھا۔اس کے علاوہ سعودی وزارت اطلاعات و ثقافتی امور کے زیر سرپرستی سعودی انڈیا فرینڈ شپ سوسائٹی قائم کی اور سعودی انڈیا سیول سوسائٹی ڈائیلاگ کا اہتمام کیا۔ یقیناًاس قسم کی مثبت اور تعمیری سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے وہ ہر ممکنہ کوشش کریں گے ۔ریاض یا جدہ میں عالمی اردو کانفرنس کے بارے میں آیا انہوں نے غور کیا ہے ؟تو انہوں نے کہا کہ سعودی عرب میں ہندوستانی تارکین وطن کی بہت بڑی تعداد اردو وبولنے والوں پر مشتمل ہے ۔ انہوں نے سعودی عرب میں مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے فاصلاتی تعلیم کے تحت امتحانات کو متعارف کروانے کی حوصلہ افزائی کی تاکہ این آر آئیز کو فائدہ ہوسکے تاہم بعض ناگزیر وجوہات کی بناءپر ان ا متحانات کی سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔1995ءسے انہوں نے جدہ میں سالانہ اردو مشاعرہ کے آغاز میں بھی اہم رول ادا کیا۔ یہ سعودی عرب میں ادبی سرگرمیوں میں سب سے مقبول ہے ۔ریاض اور دوسرے شہروں میں بھی مشاعرے اور ادبی سرگرمیوں کا اہتمام ہوتا ہے ۔2008ءمیں ہندوستانی قونصل خانے کے پرچم تلے جدہ میں ایک بین الاقوامی اردو کانفرنس کا مانو اور کئی سماجی، ثقافتی انجمنوں کے باہمی اشتراک و تعاون سے اہتمام کیا گیا تھا۔یقیناًتمام ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کی بھرپور حوصلہ افزئی کی جائے گی۔سفیر کی حیثیت سے میعاد کے دوران منصوبوں پر انہوں نے کہاکہ اپنے عہد ہ کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد انشاءاللہ دونوں ممالک کے باہمی اہمیت کے حامل امور کا وہ جائزہ لیں گے اور اس پر توجہ دیں گے ۔آخر میں تارکین وطن کے نام اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ وہ تمام ہندوستانی تارکین وطن کو ان کی سخت محنت، دیانت داری ہندوستانی اور سعودب عرب کے درمیان ہم آہنگی کا ذریعہ بننے کے لئے مبارک باد پیش کی۔ وہ ہر ایک کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ریاض میں ہندوستانی سفارتخانہ اور جدہ میں ہندوستانی قونصل خانہ موافق عوام رویہ اور طریقہ کار اختیار کرے گا اور ہندوستانی برادری کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرے گا۔