دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھولا
شگفتہ خالدی
وادی میں پی ڈی پی ،بی جے پی کی مخلوط حکومت کے خاتمہ کے بعد پی ڈی پی ، نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے اشارہ دیا تھا کہ وہ مل کر حکومت بنائیں گے ۔ان کے اس اشارہ کے ساتھ ہی گورنر ہاﺅس کا فیکس مشین خراب ہو گیااور مرکز کی بی جے پی حکومت کی نمائندگی کرنے والے گورنر نے صدر راج کی توثیق کردی ۔اس کے بعد پھر ایک بار وادی میں اسمبلی الیکشن کی آہٹ محسوس کی جارہی ہے ۔عام طور پر اس کا اشارہ مرکزی حکومت کے بعض اقدامات یا پھر سیاسی جماعتوں کے اراکین کی بدلتی وفا داریوں سے لگایا جاتا اور وادی میں سیاسی لیڈروں کی وفاداریاں بدلنے لگی ہیں ۔پی ڈی پی کے کئی اراکین نے پارٹی کو الوداع کہہ دیا ان میں سے کئی ایک نے دوسری سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کرلی ہے ۔عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ جب اقتدار میں رہنے والی والی پارٹی کا میقات پورا ہو رہا ہو اور الیکشن کی آمد ہو یہ بھی یقین ہو کہ موجودہ مقتدر جماعت کا سورج غروب ہونے والا ہے تو ٹھیک اسی طرح بعض لیڈروں کی سیاسی وفاداریاں تبدیل ہونے لگتی ہیں جس طرح ڈوبتے ہوئے جہاز سے چوہے بھاگنے لگتے ہیں ۔اس طرح کے لیڈر وہ ہوتے ہیں جنہیں ہر حال میں اقتدار عزیز ہوتا ہے انہیں عوامی مسائل اور مشکلات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ،وہ صرف اقتدار میں رہ کر ملائی کھانے کیلئے ہی سیاست کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناتے ہیں ۔ یہاں تو پی ڈی پی کا میقات تو ختم نہیں ہوا ہاں اس کا بی جے پی کے ساتھ کورٹ میرج اپنے عبرتناک انجام کو پہنچا ۔آپ کسی ایسی سیاسی پارٹی کے ساتھ نہیں رہ سکتے جس نظریات آپ سے نہیں میل کھاتے ۔ پھر بھلا کشمیر کی کسی سیاسی جماعت کے ساتھ اس کا اتحاد کتنے دنوں چل سکتا تھا ۔حکومت کے خاتمہ کے بعد محبوبہ مفتی پہلی بار مہاراشٹر کی راجدھانی اور ہندوستان کی معاشی راجدھانی ممبئی تشریف لے گئی تھیں ۔وہاں انہوں نے مختلف پلیٹ فارم سے بی جے پی اتحاد پر کہا کہ ’بی جے پی سے اتحاد کرنا تیزاب سے وضو کرنے جیسا تھا ‘۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا محبوبہ کو اس کی جانکاری نہیں تھی وہ نہیں جانتی تھیں کہ جس لوٹا کے پانی سے وہ وضو کرنے جارہی ہیں اس میں پانی نہیں مسلم منافرت کا تیزاب بھرا پڑا ہے ۔اب وہ یہ کہہ کر اس کے سوا اور کیا پیغام دینا چاہتی ہیں کہ کشمیری عوام ان پر دوبارہ اعتماد کریں اورآئندہ الیکشن میں انہیں دوبارہ منتخب کریں ۔لیکن کیا کشمیری عوام انہیں دوبارہ موقع دیں گے ؟
وادی کشمیر کے عوام بنیادی مسائل میں پوری طرح دب چکے ہیں ۔دور دور تک کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو انہیں اس بوجھ سے باہر نکالے ۔کوئی سیاسی پارٹی یا سیاسی لیڈر محض اپنے مفاد کے تحت کسی سے اتحاد کرتا ہے یا الیکشن میں حصہ لیتا ہے ۔کسی کی ہمدردی عوام کے ساتھ نہیں ہے ۔آج محبوبہ مفتی کہہ رہی ہیں کہ انہوں نے بی جے پی سے اتحاد کرکے گویا تیزاب سے وضو کیا ہے لیکن حکومت میں رہتے ہوئے انہیں کس نے احتجاج کرنے اور کچھ بولنے سے روکا تھا ۔انہوں نے پیلیٹ گنوں کے استعمال پر کیا رویہ اختیار کیا ؟ انہوں نے غیر انسانی اور بدنام زمانہ قانون افسپا پر کیا پالیسی اپنائی ؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ان کی حکومت میں کشمیر میں معصوموں کو قتل کیا جاتا رہا ،رسانہ میں معصوم جیسی بچیاں درندگی کا شکار ہوتی رہیں اور وہ خاموش رہیں ۔وہ کہہ سکتی ہیں کہ اس سلسلے میں وہ لاچار تھیں تو پھر سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر ان کے پاس اختیارات نہیں تھے تو اس حکومت کے ساتھ اتنے دنوں کیوں رہیں ؟ جب بھی وقت آئے گا تو کشمیری عوام ان سے ان سوالات کا جواب ضرور مانگیں گے اور انہیں اس کا جواب دینا ہی ہوگا ۔اب ان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد ان کی پارٹی کے سیاست داں پارٹی چھوڑ رہے ہیں یا پارٹی تبدیل کررہے ہیں تو اس پر اس کے سوا اور کیاکہا جائے گا کہ سیاست داں اپنے مفاد کے حصول اور اقتدار کی لالچ میں پارٹیاں تبدیل کررہے ہیں ۔انہیں نظر آرہا ہے کہ اب پی ڈی پی میں کچھ نہیں ہے مستقبل اب دیگر سیاسی پارٹیوں میں ہے اس لئے وہ اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کررہے ہیں۔انہیں صرف اپنا مفاد عزیز ہے نا ان سیاست دانوں کو یہاں کا ظلم و ستم نظر آتا ہے اور نا ہی عوامی مسائل بس صرف انہیں اقتدار چاہئے خواہ کسی بھی طرح ہو ،کسی کے بھی ساتھ ہو ۔اپنی وفاداری تبدیل کرتے ہوئے سیاست داں ایک دوسرے کو مالائیں پہناتے ہیں جیسے وہ دولہے ہوں ۔وہ دولہا بن کر مزے کررہے ہیں اور بے چارے عوام وہ تو باراتی بن کر ایک وقت کا کھانا بھی نہیں کھا سکتے۔سیاسی لیڈروں اور ان کے رویہ کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ دور کے جمہوری حکومت میں عوام کو ایسی ہی حکومت اور ایسے ہی سیاست دانوں سے سابقہ پیش آنے والا ہے جو انہیں بیوقوف بنا کر صر ف اپنا الو ہی سیدھا کرنے والے ہیں ۔آپ خاموش رہیں یا احتجاج کریں ان پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا ۔اگر سڑکوں پر نکل کر احتجاج کریں تو سلامتی دستے دہشت گرد کہہ کر گولیاں ماردیتے ہیں اور اگر خاموش رہ کر ان کے لوٹ دیکھتے رہیں تو آپ کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آنے والی ۔پھر عوام کریں تو کیا کریں کیا سیاست دانوں کی حرکتوں پر خاموش رہیں اور اپنے بچوں کے مستقبل کو تاریکی میں ڈوبتا ہوا دیکھتے رہیں ۔سیاست دانوں کی حرکتوں اور ان کی اپنے تئیں سنجیدگی اور عوام کے تئیں بے حسی سے ایسا لگتا ہے کہ پارٹی بدلتے وقت یہ ایک دوسرے کے ساتھ طے کرلیتے ہیں کہ ہمیں اقتدار ملنے کے بعد کیا کیا ملے گا ۔نتیجہ یہ ہے کہ وہ ،وہ سب کچھ حاصل کرلیتے ہیں جو ان کا ہدف ہو تا ہے لیکن عوام اسی کسمپرسی میں رہتے ہیں جس میں وہ برسوں سے زندگی گزارتے آرہے ہیں ۔