جسے ہر مداری اپنی رسی پہ نچاتا ہے
صدیق حمد صدیقی
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے ملک میں چھوٹے سے لے کر بڑے بیشتر سیاستدان اور خاص کر جھوٹی اور فرضی پہچان کے خواہشمندان اکثر اسی تلاش میں رہتے ہیں کہ انھیں کوئی ایسا سانحہ، کسی قوم کی ستم ظریفی یا کوئی ایسا مسئلہ مل جائے جس کی آڑ میں وہ اپنا مقصد پا نے میں کامیاب ہو سکیں ۔ اور ایسا موقع ملنے پر وہ کوئی قصر اُٹھاکے نہیں رکھتے اور یہی حال ہمارے کچھ پیڈ میڈیا کا بھی ہے۔ جن کے لئے میں صحافت یا جرنلزم کا لفظ استعمال نہیں کر رہا جو ایک پاک پیشہ ہے۔ یہ صرف میرا اپنا ایک تصور نہیں بلکہ ایک جانا مانا سچ اور حقیقت ہے۔ جس سے شایدکوئی بھی ایماندار اور دانشمند انسان انکار نہیں کر سکتا۔ اس کی بے شمار مثالیںآپ سب کے سامنے ہیں جنھیں گنوانا ضروری نہیں۔ اور نہ ہی میرے بس میں ہے کہ ہندوستان جیسے وسیع و عریض ملک میں موجود ایسے مہانوں کی ذہن سازی کر سکوں ۔مگر میں چپ بھی نہیں رہ سکتا کیوں کہ یہ بھی میرا ایک جمہوری حق ہے۔اور مجھے اپنی جمہوریت پر پورا بھروسا ہے۔سرحدی ضلع پونچھ کی تصیل سرنکوٹ میں بھی ایسے بے شمار مہان ملتے ہیں جو سادہ لوح انسانوں کے حالات اور زبوں حالی کا فائدہ اُٹھانے میں کافی مہارت رکھتے ہیں۔ سرنکوٹ تحصیل ہیڈکواٹر سے قریب چالیس کلو میٹر کی دوری پر پونچھ کی سب سے اونچی چوٹی تتہ کُٹی کے دامن میں بسی قدرتی حسن سے مالا مال ایک ایسی ہیوادی ہے۔ جس کے سادہ لوح باشندگان کی حالتِ زار کا فائدہ چند ایسے ہیلوگ اُٹھاتے رہیں ہیں۔ اس وادی کی خوبصورتی میں قدرت نے کوئی کمی نہیںچھوڑی ہے۔ یہ وہی وادی ہے جو خوبصورتی میں جنت مثال ہونے کے باوجودجہنم جیسے مناظر کا سامنا کر چکی ہے۔ جس نے ملی ٹینسی کا وہ دور دیکھا جسےوہ کھبی بھلا نہیں سکتے۔ جس کے باشندان کو تین سال تک ۳۰۰۲ءکے سروپ وناش آپریشن کی وجہ سے بے گھر رہنا پڑا۔ جو آج بھی برف باری کی وجہ سے چھ ماہ میدانی علاقوں میں لوگوں کے گھروں میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس علاقے کا نام ہے” ہل کاکا”میں نے پہلی بار ۰۱۰۲ئ میں اس علاقے کو دیکھا تھا جب بطور استاد یہاں پر موجودایک مڈل اسکول میں جانے کاموقع ملا۔ یہ اپنے آپ میں ایک نیا تجربہ تھا ۔ایک ایسامڈل اسکول جو ایک ہی کمرے میں چلایا جاتا تھا۔ مگر خدا کا شکر کہ محکمہ اور حکومت کے تعاون سے دیکھتے ہی دیکھتے اس اسکول کی تین عمارتیں اور تعمیر ہو گئی۔پھر سد بھاونہ کی جانب سے ڈیسک بھی فراہم کروائے گئے۔آج وہ اسکول کسی بھی زاویے سے شہر کے اسکولوں سے کم نظر نہیں آتا۔ طلباءکی ذہانت کو دیکھےں تو وہ بھی کسی سے کم نظر نہیں آتے۔ مگر۔۔ شرط یہ ہے کہسلیقے سے تراشا جائے©۔ خوش آئیند بات یہ ہے کہ اب اس علاقے کی سب سے اہم اور بنیادی ضرورت یعنی سڑک کام جاری ہے جسکی مستقبل قریب میں تکمیل کی امید لگائی جا سکتی ہے۔ اس کے لئے حکومت کا شکریہ بھی ادا کرنا ہو گا جس نے اس سمت دھیان تودیا۔ آج اس علاقے کے بہت سارے بچے کالج تک پہنچ گئےاور وہاں کا اکیلاگریجویٹ رفاقت حسین آج جموں کشمیر پولیس کا حصہ بن چکا ہے۔ جو ایک معزور اور نہایت غریب باپ کا بیٹا ہے۔ جو نہ صرف ہل کاکا بلکہ باقی نوجوانوں کے لئے بھی حوصلہ اور ہمت کی ایک مثال بن چکا ہے۔ اس میں شکنہیں کہ علاقے کے باشندگان ابھی زندگی کی بہت سی بنیادی ضروریات سےمحروم ہیں جیسے بجلی پانی وغیرہ۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ ایک ایسا علاقہ جہاں پہنچنے کے لئے ایک دن کی پیدل مسافت اور وہ بھی گھنے جنگلوں دریا اور پہاڑوں سے گذرتے ہوئے۔ تو اس علاقے میں ترقی کی وہ رفتار جس کا ہم خواب دیکھتے ہیںممکن نہیں۔ مگر دیر آید درست آید۔ رفتہ رفتہ اس علاقے کی ترقی کے خواب دیکھتےتو جا سکتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس وادی کی سادہ لوح عوام کے نام پر قریب و جواز کے گاﺅں کے نام نہاد لوگ فائدہ اُٹھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے۔ یہ علاقہ گاﺅں مڑہوٹ کی ایک پنچائت کا ایک حصہ ہے جسے اب RBAکےتحت بھی لایا جا چکا ہے۔ مگر قریب ہونے کے فائدہ چند گاﺅں اس کے نام پر لے کر اس سادہ لوح عوام کی حقِ رائے دہندگی کا نہ صرف سودا کرتے ہیں بلکہ ان کو جھوٹے وعدوںسے خوش بھی کرتے ہیں۔ اس پر بھی بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ اس کے نام پر جو چاہے وہی فائدہ لے جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جب ۳۰۰۲ءکی سروپ وناش آپریشن کے دوران ان لوگوں کو اپنے گھروں سے ہجرت کرنی پڑی اور آپریشن کیکامیابی کے بعد جب ان کی باز آبادکاری کے لئے حکومت کی جانب سے سات کروڑ چالیس لاکھروپے بطور معاوضہ واگذار کیے گئے۔ تو یہ بیچارے چڑیا کے نوزائدہ بچے کی طرح منہہ کھولے حسرت بھری نگاہوں سے آسمان کو دیکھتے ہی رہ گئے۔ اور معاوضہ کس کس کے گھروںکی زینت بنا یہ کہانی پھر سہی۔اب چونکہ انتخاب کی تاریخوں کا اعلانہو چکا ہے تو ان کے نام پر پھر سے سیاسی پارٹیوں سے سودے بازی متوقع ہے۔ اورایسے بیان بھی سامنے آ رہے ہیں جو باظاہر تو ان کے حق میں ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔حالیہ پنچائیتی انتخاب میں ان لوگوں نے مکمل بائکاٹ بھی کیا مگر پھر بھی ان کا پیامجو حکومت تک پہچانے کی غرض سے کیا گیا تھا نہیں پہنچا۔ دکھ ہوتا ہے جب ان کی اصل ووٹروں کی تعداد اور جغرافیائی منظر کو بھی بالکل رد و بدل کر کے میڈیا کے سامنے پیش کیا جاتاہے اور ہمارے صحافی حضرات بھی شہروں میں بیٹھ کر تصور میں انہی من گھڑتکہانیوں کو سچ مان کر بڑھا چڑھاکر پیش کرنے فخر پر محسوس کرتے ہیں۔ ہندوستان کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا خطاب تو ملا ہے مگر آج بھی عام انسان اپنی رائے کا فیصلہ خود نہیں کر پاتا۔ اس لئے وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت و صحافتکو ہر انسان کی کہانی اسی کی زبانی سننے اور سنانے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ نہ کہ انتخابات کے دوران سادہ لوح اور غریب عوام جس کیایک مثال ہل کا کا کی ہے کا فائدہ اُٹھانے کا موقع تلاش کرنا چاہیے۔ اور یہبات بھی یاد رکھنی ہو گی کہ اب عوام جاگ چکی ہے اور وہ اپنی رائے کا حق اور اس کافیصلہ خود کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی اس لئے ایسے مداری جو ہل کاکاجیسی خوبصورت بندریا کو ماضی کی طرح اپنی رسی پہ نچانہ چاہتے ہیں۔ ان کو اسبات سے سمجھ لینا چاہیے کہ جو عوام پنچائیتی الیکشن میں بائکاٹ جیسا بڑا قدم اُٹھاسکتی ہے وہ اپنے مسائل کے لئے خود لڑنے کی بھر پور صلاحیت بھی رکھتی ہے اوریہ بھی جانتی ہے کہ آج ان کے لئے اگر سڑک کا منصوبہ زیرِ تعمیر ہے تو اس میں کسی چمچہ گیری کا ہاتھ نہیں بلکہ وہ اپنی بات خود اپنے رہنماﺅں تک پہچانے اور منانے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔