مذاکراتی عمل میں ہی تنازعہ کشمیر کا حل مضمر:سید رفیق شاہ
لازوال ڈیسک
سرینگر// تنازعہ کشمیر کے نتیجہ خیز حل کیلئے حکومت ہند اور پاکستان سے پرامن دوستانہ ماحول میں مذاکراتی عمل شروع کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے قانون ساز کونسل کے سابق رکن سید رفیق شاہ نے مشورہ دیا کہ جموں کشمیر کے ساتوں جغرافیائی خطوں کے نمائندوں کو اس بات چیت میں بہ حیثیت فریق شامل کیا جائے۔سید رفیق شاہ نے جماعت اسلامی پر پابندی اور میر واعظ کی این آئی ائے کی طرف سے دہلی طلبی کو کشمیریوں کو براہ راست نشانہ بنانے سے تعبیر کیا۔سرینگر کے ایوان صحافت میں نامہ نگاروں سے پریس کانفرنس کے دوران خطاب کرتے ہوئے سید رفیق شاہ نے حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے مذاکراتی عمل سے ہی جموں کشمیر کے70برس سے جاری آدم خور مسئلے کاپرامن حل برآمد ہوسکتا ہے،اور اس دیرینہ تنازعہ کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔سیاسی قیدیوں کو بلا شرط رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے جموں کشمیر بچاﺅ تحریک کے سربراہ سید رفیق شاہ نے”جماعت اسلامی پر عائد غیر منصفانہ اور بلاجواز پابندی“ کو فوری طور پر ہٹانے کا مطالبہ کیا۔انہوں نے ریاست میں یاک نمائندہ جمہوری حکومت کو قائم کرنے کیلئے فوری طور پر اسمبلی انتخابات عمل میں لاکر جماعت اسلامی کو بھی انتخابات میں شامل ہونے کی دعوت کا مشورہ دیا۔ انہوں نے کہا ریاست کی خصوصی حیثیت اور آئین ہند کی رﺅ سے وضع کردہ داخلی خود مختاری کو یقینی بناتے ہوئے آئین ہند کی شق35ائے کے ساتھ کوئی بھی چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے،اور آئین ہند کے کسی بھی ترمیم شدہ فرمان کو لاگو نہ کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین ہند میں جموں کشمیر کی داخلی خود مختاری کی ضمانت دی گئی ہے،اور ریاست ایک آئین ساز ریاست ہے،جس کی رﺅ سے یہ اختیار فقط جموں کشمیر کی اسمبلی کے پاس محفوظ ہے کہ وہ ریاست سے متعلق قوانین بنائے یا صدارتی فرمان کو ریاستی قانون کی حیثیت دیں۔ انہوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریاست میں فی الوقت صدارتی راج ہی نہیں بلکہ عملاً مارشل لاءجیسی صورتحال میں ریاستی قوانین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر کے نئے قوانین نافذ کرنا نہ صرف غیر جمہوری عمل بلکہ غیر قانونی اقدام قرار دیا جائے گا۔ کشمیری طلاب،تاجروں اور دیگر لوگوں کے خلاف بیرون ریاستوں میں چلائی جا رہی نفرت انگیز و فرقہ پرست مہم کو آپسی بھائی چارے کیلئے زہر ہلاہل قرار دیتے ہوئے قانون ساز کونسل کے سابق رکن سید رفیق شاہ نے حالیہ ایام میں کشمیریوں شہریوں کو وادی سے باہر نشانہ بنانے،تعلیمی اداروں سے بے دخل کرنے اور دھمکیوں کے علاوہ جلاﺅ و گھیراﺅ کی کاروائیوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔انہوں نے کہاکہ انہوں نے ہند پاک سے جنگی ماحول کو بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کشمیر کی سرحدوں پر آر پار گولہ باری کو بند کریں۔قانون ساز کونسل کے سابق رکن نے حکومت ہند و پاک سے مطالبہ کیا کہ منقسم ریاست جموں کشمیر کے درمیان عبور و مرور کے وہ تمام راستے از سر نو بحال کر دئیے جائے جو کہ قابل از27اکتوبر1947سے قبل آپسی روابط کیلئے استعمال میں لائے جاتے تھے۔جموں کشمیر بچاﺅ تحریک کے صدنے اس بات کو بدنصیبی سے تعبیر کیا کہ گزشتہ5برسوں سے بھارت میں اکثریتی حیثیت سے ابھرنی والی فرقہ پرست سوچ اور بے لگام فرقہ پرست طاقتوں و جانبدارمیڈیا نے اقلیتوں کے خلاف منظم مذہبی شدت پسندی شروع کر رکھی ہے۔انہوں نے آپسی بھائی چارے،مذہبی ہم آہنگی اور یگانیت کی اپیل کرتے ہوئے مذہبی بھائی چارے کو دوام بخشنے پر زور دیا۔