نگینہ ناز منصور ساکھرکر
واشی نوی ممبئی
9769600126
یہ کوئی کہانی یا افسانہ نہیں حقیقت ہے جب دنیا ایمانداری ،دین اور اس کے بتائے راستوں کے خلاف چل رہی ہے ایسے میں اللہ تبارک و تعالیٰ انہیں واقعات اور حادثات کے ذریعے اپنے ایمان اور دین کا پرچم بلند رکھتا ہے۔26 مارچ سن 2022 میرا رتناگری جانا ہوا میری نند کے بیٹے کی شادی تھی یوں تو مارچ میں میرے خاوند کہیں جاتے نہیں کیوں کہ مالی سال کے اختتام کے دن ہوتے ہیں اور آفس میں بہت کام ہوتا ہے چونکہ اپنی بہن کے بیٹے کی شادی تھی بڑی مشکل سے دو دن کا وقت نکالا اور نکل پڑے۔ جلدی جا کر جلدی لوٹنا تھا اس لئے ٹرین سے جانے کا فیصلہ کیا پرٹکٹس صرف جانے کی ملی۔ آنے کے لیے سیٹیں نہیں تھی۔ ہم نکل پڑے پہلے حسب عادت میں نے اپنا پرس صحیح کیا، نقدی اور ضروری سامان کے ساتھ پرس میں اے ٹی ایم کارڈ،آدھار کارڈ ،پین کارڈ ،اوٹینگ کارڈ ،ڈرائیونگ لائسنس جیسے کئی ضروری کاغذات تھے۔ نقدی گنتے گنتے جو کھلے پیسے تھے جان و مال کا صدقہ بول کرصدقے کے ڈبے میں ڈال دیے اور دعا بھی کی ’یا اللہ سفر آسان کرنا‘کیونکہ ہمیشہ اپنی گاڑی سے جاتے ہیں بہت سالوں بعد ٹرین کا سفر کر رہی ہوں۔
الحمدللہ خیریت سے پہنچ گئے راستے میں آنے کی ٹکٹوں کا انتظام ہو۔ اس لیے اپنے سارے ذرائع استعمال کئے آن لائن دیکھا مگر ٹکٹ نہیں ملی دوسرے دن اتوار تھا شادی کے رسومات ختم کرکے پھر ٹکٹوں کا مسئلہ سوچ کر پریشان ہوئے جارہے تھے کیونکہ آتے ہوئے اپنی بیٹی کو شادی کے بعد پہلے رمضان کے لیے لانا تھا تو تین لوگوں کے لیے سیٹیں چاہیے تھیں۔
پہلی دفعہ افسوس ہوا کہ کاش اپنی کار لے آتے تو اتنا مسئلہ نہ ہوتا نماز پڑھ کے دعا کی یا اللہ ہر مشکل آسان کر دے اب صرف تجھ سے ہی امید ہیے پھر سوچا کہ ریلوے میں گھس کر جاتے ہیں مگر تینوں کا سامان اور جگہ نہ ملے تو کیا ہوگا۔دوسری جانب میرے پیروں کا درد بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔یہ سب سوچ ہی رہے تھے کہ ہمارے پھوپی زاد دیور سے بات ہوئی وہ اپنی ارٹیگا کار لے کر گئے تھے بولے کل صبح جاتے میں گاڑی میں لے چلوں گا آپ لوگ فکر نہ کرو دو لوگ آسانی سے بیٹھے اتنی جگہ ہے ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا میرے خاوند تو اسی رات ریلوے سے بمبئی کے لیے نکل گئے انھیں بھی بڑی مشکل ہوئی مگر دوسرے دن آفس جانا تھا اس لئے تکلیف برداشت کر گئے۔
میں اور میری بیٹی اپنی دیور کی فیملی کے ساتھ ان کی گاڑی سے صبح نکلے۔ نکلنے سے پہلے پھر صدقہ اتارا ،دعا کی اور چل پڑی راستے میں رفع حاجت کے لئے ایک پٹرول پمپ پر رکے وہاں کھڑے رہ کر پیروں کو تھوڑا آرام دیا اور اسنیکس اور مشروبات پی کر تروتازہ ہو کر سفر شروع کیا دو تین گھنٹے بعد ایک ہوٹل میں رک کر کھانا کھایا اور پھر چل پڑے ۔اک ادھ گھنٹے بعد بازار میں گاڑی روکی گئی کہ پانی کی بوتل لے لیں وہاں کچے کاجو دکھائی دئے تازہ اور بڑے بڑے کچے بیجو کی سبزی اچھی بنتی ہے۔ چلو لے لیتی ہوں ۔خود کو بھی لوں گی اور دیور کو بھی لے کر دوں گی۔ اتنا ان کی گاڑی میں آ رہی ہوں کچھ لیں گے تو نہیں یہ دے کر تھوڑا احسان کم ہو ۔میں نے اپنی بیٹی سے پرس مانگا کہ تم نے سیٹ کے پاس رکھا تھا وہ جھکی سارا سامان ہٹا کے دیکھا مگر پرس نہیں تھا ایک پل کو دل کی دھڑکن رک گئی اور ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے۔ یا اللہ خیر! میں نے تو پرس نکالا نہیں ہوٹل میںتو پرس گیا کہاں۔ وہ عورت کاجو کا پوچھتی رہی مگر میرا دماغ تو ماؤف ہو گیا تھا دیور بھابھی نند نندوئی ان کا بیٹا ہم سب پریشان ہوئے۔آخیر گیا کہاں ؟چہرے ایک دم سے فق ہوگئے اچھی خاصی رقم تھی اس پر ضروری کاغذات اور سارے شناختی ثبوت اسی میں تھے گھر جا کر اپنے نئے روم کا رجسٹریشن کرنا ہے ۔وہاں شناختی ثبوت کی ضرورت لگے گی۔ اے ٹی ایم کارڈ میں اکاؤنٹ میں گھر کے لیے رکھے پیسے ہیں کسی کے ہاتھ لگا اور اس نے غلط استعمال کر لیا تو لاکھوں کا نقصان ہو جائگا گاڑی چھان ماری مگر پرس نہ ملا پھر یاد آیا کہ جب پہلے ہم پیٹرول پمپ پر رکے تھے تو وا ش روم سے آکر پیپر سو پ کے لئے پرس کھولا تھا تب گاڑی سے باہر تھے پیروں میں بہت درد تھا اس لیے دوائی کھانے گاڑی کی سیٹ پر بیٹھی دوائی لی اور شاید پر س اندرلیا نہیں اس کا سارا سین جیسے دماغ سے غائب تھا راستے اتنے خراب کونسا پیٹرول پمپ تھا یاد نہیں وہاں پر پٹرول بھرا تھوڑا مگر رسیدلی نہیں تو نام پتہ کچھ یاد نہیں تھا دو تین گھنٹے ہوچکے تھے واپس جانے اور دو تین گھنٹے پانچ یا چھ گھنٹوں میں پرس ملے اس کی امید نہیں اگر کسی کو دینا ہوتا تو اتنی دیر میں کال کرتا مگر وہ بھی نہیں فون نمبر کے لیے اس میں میرے وزٹنگ کارڈ تھے مگر کوئی کال نہیں آیا شاید اب پرس نہیں ملے گا سب کے سب اداس ہو گئے میرا دل دھڑکا اور اچانک جیسے سکون ہو آیا فکر مت کیجئے میرے پیسے میرا سامان کدھر نہیں جائے گا انشااللہ ضرور ملے گا میں نے گھر سے نکلتے ہوئے بھی اور رتناگیری سے لوٹتے ہوئے بھی جان و مال کا صدقہ دیا تھا اور میرے اللہ کا وعدہ ہے وہ اس مال اور جان کی حفاظت کرے گا جس کا صدقی اتارا گیا ہو۔ مجھے امید ہے میری چیزیں گھوم پھر کر مجھ تک ضرور آئیں گی مجھے پختہ یقین ہے ۔پر سبھی کو جیسے مجھ پر یقین نہیں تھا اتنی دیر بعد بھی کال نہیں آئی ہے تو کون تمہارا پرسوں واپس کرے گا وہ بھی جب پیٹرول پمپ کونسا تھا وہ بھی یاد نہیں لیکن ہم نے بمبئی کے لیے سفر پھر سے شروع کیا راستے سے بینک کو کال کر رہے تھے کہ اے ٹی ایم تو بلاک کر دے مگر اس دن بینک بھی بند تھے تو اپنے خاوند کو فون کیا اور سارے واقعے سے آگاہ کیا اور خوب ساری ڈانٹ بھی کھائی پھر التجا کی کہ مہربانی کرکے بینک میں کال کرکے اے ٹی ایم بند کر آئیں تو انہوں نے آن لائناے ٹی ایم بند کر آیا۔ وہ تو اچھا ہوا جلد ہوگیا ۔اس کے پہلے کی کوئی ایک فراڈ ہوتا تھوڑا سکون ہو چکا تھا۔ بجھے دل سے گھر آگئے ، فریش ہو کر پولیس اسٹیشن گئے دو گھنٹوں کے انتظار کے بعد نمبر آیا تو کمپلینٹ کرائی کہ پرس گم ہو گیا ہے بولے آپ کا پرس وہاں گم ہوا ہے یہاں شکائت درج نہیں ہوگی۔ منت سماجت کی مگر نہ مانے ۔سر مجھے پرس نہیں چاہیے پیسے بھی نہیں بس شکائت کی کاپی دو تاکہ میں اپنے نئے شناختی ثبوت بنا سکوں۔ بہت منت سماجت کے بعدمیری شکائت رجسٹر کی۔ کاپی دینے کا وعدہ کر دوسرے دن صبح آنے کو کہا گیا رات کے ساڑھے گیارہ بجے تھے میں تین دن سے تھک کر بے حال ہوگئی بینک اور آدھار کے آفس میں ہڑتال کے سبب جانا آنا سب بیکار تھا۔دماغی پریشانی سے بلڈ پریشر بڑھ گیا تھا، کام سے بدن ٹوٹنے لگا تھا ،پرس کی کوئی خبر نہیں مگر یقین ڈگمگایا نہیں تھا دل کو بھروسہ تھا کہ پرس ملے گا ضرور مگر کاغذات ابھی چاہیے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں مگر کروں تو کیا کروں رجسٹریشن کی ڈیٹ آچکی تھی نئے پین کارڈ کے لیے تصویر چاہیے تھی سو میں تصویر بنوانے نکلی ابھی بلڈنگ سے نکلی ہی تھی کہ کال آئی’ یہ نگینہ ناز کا نمبر ہے‘؟
جی ہاں فرمائے سامنے والے کے سوال پر میں نے جواب دیا ’ کیا آپ ان دنوں کھیڈ کے آس پاس سے گزری تھی‘؟
میں نے جھٹ سے جواب دیا’جی جی سر وہاں پر میرا پر س گم ہوگیا آپ کو ملا ہے کیا؟ جی ہمیں ایک پرس ملا ہے کون سے رنگ کا ہے؟ پرس میں کیا کیا سامان ہے؟
چشمہ کونسا ہے؟ کتنے پیسے ہیں؟ لپسٹک کون سی ہے ؟کئی سوال کیے گئے اور جب انہیں یقین ہو گیا تو کہا گیا کہ ٹھیک ہے آپ اپنا پرس کیسے لے جائیں گی میں سچ کہتی ہوں پرس گم ہونے پر مجھے رونا نہیں آیا پر ملنے کی خبر سنی اور اپنے رب کے وعدے کو سوچ کر صدقہ کی اہمیت کا احساس کر کے میں رو پڑی۔ میری بیٹی میرے پڑوسن دونوں ساتھ تھی میں نے سوچ کر جواب دینے کا کہا اور کچھ دیر بعد کال کر کے پوچھا کیا آپ میرا پرس کوریئر کر سکتے ہیں روپیہ اپنے پاس رکھ کر وہ مجھے جی پے کرو گے وہ مان گئے اور صرف دو گھنٹے میں انہوں نے میرے پیسے مجھے جی پے کر دیئے اور میرا پرس کوریئر کردیا جو مجھے دو دن بعد مل بھی گیا پورے سامان کے ساتھ میرے کہنے پر انہوں نے اپنا ایڈریس اور نام مجھے بھیجا یہ وہی پیٹرول پمپ تھاجہاں ہم واش روم گئے تھے ان کی ایمانداری دیانت داری ایک مثال ہے اللہ نے انہیں ہدایت دی میں شکر گزار ہوں اللہ کی اور اسکے بعداتھاروا آٹو موبائل ڈیلرز انڈین آئیل کارپوریشن لمیٹڈکے مینیجر پدماکر گورو مہیش کھیڑیکر اور وینئے ناٹو کا جن کی دیانتداری کی وجہ سے میرا سامان مجھے واپس مل گیا۔ الحمد للہ۔ یا اللہ ہم سبھی کو صدقہ کرنے، زکوٰۃ، دینے خیرات کرنے کی توفیق دے اور ہمیں ایماندار دیانتدار بنا آمین ۔