ےو این این
دوحہ //افغان طالبان کے نائب سربراہ ملا برادر امریکا کے ساتھ مذاکرات کے چھٹے راﺅنڈ میں شرکت کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ پہنچ گئے ،طالبان کی طرف سے تصدیق کردی گئی ۔ ملا عبدالغنی برادر کو پاکستان نے گزشتہ برس اکتوبر میں امریکا کی درخواست پر رہا کیا تھا جس کے فوری بعد انہیں طالبان کی طرف سے دوحہ کے سیاسی دفتر کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق دوحہ میں ہونے والے ان چار روزہ مذاکرات میں افغانستان میں غیر ملکی مداخلت کے خاتمے اور افغانستان کو دیگر ممالک کی طرف سے استعمال کرنے سے بچانے جیسے معاملات پر بات چیت ہو گی۔ایک اور طالبان ذرائع کے مطابق اس معاہدے کے تحت غیر ملکی افواج ایک مقررہ مدت( اٹھارہ ماہ )کے اندر افغانستان سے نکل جائیں گی۔طالبان ذرائع نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا ہے کہ تنظیم کے بانی اراکین میں سے ایک، ملا عبدالغنی برادر، امریکہ کے ساتھ پیر کے روز ہونے والے مذاکرات کے لیے قطر پہنچ چکے ہیں۔طالبان رہنما اکبر آغا نے بتایا کہ ملا برادر دوحا پہنچ چکے ہیں اور امید کی جا رہی ہے کہ اس سے ممکنہ امن معاہدے کے طے پانے کے امکانات میں اضافہ ہوگا۔ملا عبد الغنی برادر آٹھ سال تک پاکستانی تحویل میں رہے اور گذشتہ برس انھیں رہا کیا گیا تھا۔وہ اب قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ہیں، مگر کچھ دن پہلے تک وہ پاکستان میں ہی رہے ہیں۔گذشتہ ماہ افغان طالبان سے مذاکرت میں شریک امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے کہا تھا مذاکرت میں خاطرخواہ پیشرفت ہوئی ہے لیکن اب بھی کچھ معاملات حل طلب ہیں۔البتہ اس موقعے پر طالبان ذرائع نے کہا کہ امن معاہدے کے مسودے پر اتفاق ہو گیا جس کے تحت تمام غیر ملکی افواج افغانستان سے چلی جائیں گی۔ممکنہ معاہدے میں اگرچہ ابھی کچھ نقات پر ابھی اتفاقِ رائے ہونا باقی تاہم کچھ معاملات طے پاتے نظر آ رہے ہیں۔ذرائع کے مطابق اس معاہدے کے تحت غیر ملکی افواج ایک مقررہ مدت اٹھارہ کے اندر افغانستان سے نکل جائیں گی، افغان طالبان کو بلیک لسٹ سے ہٹا لیا جائے گا جس سے ان پر لگی سے سفری پابندیاں ختم ہو جائیں گی اور قیدیوں کا تبادلہ بھی ہو گا۔طالبان اس بات کی ضمانت دیں گے کہ افغانستان میں داعش یا القاعدہ جیسے دہشتگرد گروہوں کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا نہیں ہوں گی۔2014 میں بین الاقوامی فوجوں کے افغانستان کے انخلا کے بعد سے طالبان کے افغانستان میں اثر و رسوخ اور زیرِ کنٹرول علاقے میں اضافہ ہوا ہے۔طالبان نے اب تک کابل میں افغان حکومت کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کرنے سے انکار کیا ہے اور ان کا موقف ہے کہ افغان حکومت صرف ایک کٹھ پتلی حکومت ہے۔گذشتہ ماہ افغان طالبان سے مذاکرت میں شریک امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے کہا تھا مذاکرت میں خاطرخواہ پیشرفت ہوئی ہے لیکن اب بھی کچھ معاملات حل طلب ہیں۔اس ماہ کے آغاز میں افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ وہ طالبان کے ملک کے کسی بھی شہر میں دفتر کھولنے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم طالبان نے صدر اشرف غنی کی اس پیشکش کو مسترد کر دیا ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ عالمی برادری دوحا میں موجود طالبان کے دفتر کو تسلیم کرے۔کابل میں کچھ حلقوں میں اس حوالے سے ناراضگی پائی جاتی ہے کہ افغان طالبان افغان حکومت سے بات چیت کرنے پر راضی نہیں بلکہ وہ صرف امریکہ کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق افغانستان کی تقریبا نصف آبادی، یعنی ڈیڑھ کروڑ لوگ طالبان کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں آباد ہیں۔ملا عبد الغنی برادر کی روانگی سے قبل امن مذاکرات میں طالبان کی ٹیم کی سربراہی کرنے والے رہنما شیر محمد عباس ستنکزئی نے کہا تھا کہ طالبان افغانستان پر بزورِ طاقت قبضہ کرنے کی خواہش نہیں رکھتے۔اس ماہ کے آغاز میں ماسکو میں بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم پورے ملک پر پر قبضہ کرنا نہیں چاہتے۔ اس سے افغانستان میں امن نہیں آئے گا۔تاہم شیر محمد عباس ستنکزئی کا یہ بھی کہنا تھا کہ طالبان جنگ بندی پر اس وقت تک رضامند نہیں ہوں گے جب تک کہ تمام بیرونی افواج افغانستان سے نہیں چلی جاتیں۔