میں عمر عبداللہ کے سامنے جوابدہ نہیں ہوں

0
0

کہیں کسی کشمیری طالب علم پر حملہ نہیں کیا گیا : گورنر ستیہ پال ملک
یواین آئی

سرینگرجموں وکشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک کی مانیں تو پلوامہ میں سی آر پی ایف کے قافلے پر حملے کے بعد ملک میں پیدا شدہ صورتحال کے دوران کسی بھی کشمیری طالب علم پر حملہ نہیں کیا گیا۔ بقول ان کے 22 ہزار کشمیری طلباءو طالبات ملک کے مختلف حصوں میں زیر تعلیم ہیں اور سرکار کی طرف سے تعینات کئے گئے لیزان آفیسرس ان طلباءکا اچھا خیال رکھ رہے ہیں۔ ستیہ پال ملک نے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ کے بیان کہ ’اگر وادی میں مین اسٹریم سیاسی لیڈران و کارکنوں کی سیکورٹی واپس لینے کے فیصلے پر نظرثانی نہیں کی گئی تو نیشنل کانفرنس عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے گی‘ پر کہا کہ میں عمر عبداللہ کے سامنے جوابدہ نہیں ہوں اور وہ جہاں جانا چاہتے ہیں جاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمیں جو ٹھیک لگا وہی کیا‘۔ گورنر موصوف نے یہ باتیں ایک نجی ٹی وی چینل کو بتائیں۔ انہوں نے کشمیری طلباءپر حملوں سے متعلق خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ’کشمیر کے 22 ہزار بچے باہر کے کالجز اور یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں۔ ہم نے ہر ایک جگہ لیزان آفیسرس تعینات کئے ہیں۔ انہوں نے ان بچوں کا بہت اچھا خیال رکھا ہے۔ ایک بچے کو بھی کہیں چوٹ نہیں لگی ہے‘۔ ان کا مزید کہنا تھا ’دہرادون کے بچوں نے کل بیان دیکر کہا کہ محبوبہ مفتی فضول میں لوگوں کو یہاں بھیج رہی ہیں، ہم یہاں محفوظ ہیں ، ہمارے ساتھ یہاں کچھ نہیں ہوا ہے۔ وہ صورتحال کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہی ہیں اور اس کو فرقہ وارانہ رنگ دینا چاہتی ہیں‘۔ گورنر ستیہ پال ملک نے وادی میں انتخابی سیاست سے وابستہ افراد کی سیکورٹی واپس لینے کے معاملے پر کہا کہ عمر عبداللہ عدالت جانے کے لئے آزاد ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’میں عمر عبداللہ کے بیان کے ردعمل میں کچھ نہیں کہوں گا۔ وہ جو کرنا چاہتے ہیں ، کرسکتے ہیں۔ میں ان کے سامنے جوابدہ نہیں ہوں۔ وہ عدالت جانا چاہتے ہیں، وہ اس کے لئے آزاد ہیں۔ جو ہم نے ٹھیک سمجھا وہی کیا۔ ہم نے یہ فیصلہ ان افراد کی سیکورٹی کا جائزہ لینے کے بعد ہی لیا ‘۔ قابل ذکر ہے کہ پلوامہ خود کش دھماکے کے بعد حکومت نے کئی حریت لیڈران اور مین اسٹریم سیاست سے وابستہ کارکنوں کی سیکورٹی ہٹائی۔ این سی نائب صدر عمر عبداللہ نے جمعرات کو ایک پریس کانفرنس کے دوران حکومت کی جانب سے علیحدگی پسند لیڈران اور مین اسٹریم لیڈران و کارکنوں کی سیکورٹی واپس لینے کے فیصلے پر کہا ’حکومت نے آج سیکورٹی واپس لینا کا فیصلہ لیا ہے۔ ہمیں سیکورٹی ہٹانے کے نتیجے میں سامنے آنے والے نتائج کا انتظار کرنا پڑے گا۔ لوگوں کو تحفظ دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ دو سینئر علیحدگی پسند لیڈران میرواعظ مولوی محمد فاروق اور عبدالغنی لون جو مذاکرات کے ذریعے مسئلے کشمیر کے حل کے حق میں تھے، کو جنگجوﺅں نے قتل کیا‘۔ ان کا مزید کہنا تھا ’مین اسٹریم سیاسی لیڈران کی سیکورٹی بھی واپس لی گئی ہے۔ ایک طرف آپ ہم سے کہتے ہیں کہ ہمیں پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات کے لئے تیار رہنا چاہیے جبکہ دوسری آپ کہتے ہیں کہ آپ کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مین اسٹریم سیاسی لیڈران اور عہدیداروں کی سیکورٹی واپس لینا ایک جارحانہ قدم ہے۔ گورنر انتظامیہ کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ ہمیں نہیں لگتا کہ انٹیلی جنس اور سیکورٹی ایجنسیوں نے اس فیصلے کی حمایت کی ہوگی۔ اگر اس فیصلے پر نظرثانی نہیں کی گئی تو ہم عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے‘۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا