عمر عبداللہ مرکزی حکومت اور اپوزیشن پر برس پڑے، کہا خاموشی معنی خیز
سری نگرنیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے ملک کی مختلف ریاستوں میں تعلیم و تجارت کی غرض سے مقیم کشمیریوں پر ہورہے حملوں کے معاملے پر مرکزی حکومت اور اپوزیشن (کانگریس) کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ملکی لیڈران کی خاموشی کشمیریوں کو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا ’دو قومی نظریہ‘ واقعی ایک درست نظریہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری طلباءپر حملے انہیں قومی دھارے سے الگ کرنے کی کاروائیاں ہیں اور ان حملوں کے بھیانک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے حکومت کی جانب سے وادی کشمیر میں مین اسٹریم سیاسی لیڈران و کارکنوں کی سیکورٹی واپس لینے کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس فیصلے پر نظرثانی نہیں کی گئی تو نیشنل کانفرنس عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے گی۔ عمر عبداللہ جمعرات کو یہاں پارٹی کے کئی ایک لیڈران کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پلوامہ حملے کے بعد کشمیریوں پر ہورہے حملوں میں برسراقتدار جماعت (بی جے پی) کا ہاتھ ہے۔ ان کا کہنا تھا ’پلوامہ میں جو حملہ ہوا ہم سب نے اس کی پرزور مذمت کی ہے۔ ملک بھر میں بالخصوص کچھ علاقوں میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ایک پوری قوم (کشمیری قوم) کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کشمیریوں کو حملوں کا نشانہ بنانے کی مسلسل خبریں آرہی ہیں۔ ہمارے بچے اور بچیاں جو باہر کے کالجز اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے گئے ہوئے ہیں جن کا سیاست اور یہاں کے مسئلے کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے، کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ انہیں ڈرایا، دھمکایا اور وہاں سے نکالا گیا۔ ان کی تعداد سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہے۔ ہوٹلوں میں پوسٹرس لگائے گئے ہیں کہ یہاں ہر کوئی ٹھہر سکتا ہے مگر کشمیری نہیں۔ ہم سوچ رہے تھے کہ یہ کچھ گمراہ لوگ ہیں جن کی عقل ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن ایک دو دن سے لگ رہا ہے کہ ان طاقتوں کو مرکزی حکومت کی تنظیم کی نہ صرف اجازت بلکہ اس کا آشرواد بھی ہے‘۔ انہوں نے کہا ’پرسوں ایک ریاست کے گورنر نے کھلم کھلا ملک کو یہ کال دی کہ کشمیریوں کا بائیکاٹ ہونا چاہیے۔ ان سے کوئی سامان نہ خریدا جائے۔ امرناتھ یاترا کے لئے کوئی کشمیر نہ جائے۔ سیاح کشمیر نہ جائیں۔ ہم انتظار میں تھے کہ اس بیان کی مذمت ہوگی۔ ہم امید کررہے تھے وزیر اعظم نریندر مودی جنہیں ہم نے لال قلعہ سے یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ کشمیریوں کو گولی یا گالی سے نہیں بلکہ گلے لگاکر قریب لایا جائے۔ ہم انتظار کررہے تھے کہ وزیر اعظم کہیں گے کہ گورنر نے جو کچھ کہا، غلط کہا ہے۔ مگر ایسا نہیں ہوا‘۔ انہوں نے کہا ’چلئے مان لیتے ہیں کہ وزیر اعظم صاحب مصروف تھے، لیکن وزیر داخلہ کو کچھ کہنا چاہئے تھا۔ انہیں کہنا چاہئے تھا کہ اس طرح کے بیانات کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ جو لوگ اقتصادی بائیکاٹ کی باتیں کرتے ہیں ان کے خلاف سخت کاروائی ہوگی۔ جن کالجوں نے کھلم کھلا اعلان کیا ہے کہ کشمیری بچوں کو داخلہ نہیں دیا جائے گا، ان کے خلاف کاروائی ہوگی۔ لیکن وہاں ہمیں خاموشی کے بغیر کچھ دیکھنے کو نہیں ملا۔ یہ لوگ ہماری مصیبتوں سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ جہاں ایک گورنر نے ہمارے اقتصادی بائیکاٹ کی کال دی، وہیں دوسرا گورنر دفعہ 370 کو ہٹانے کی بات کرتا ہے‘۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ کشمیریوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا گیا ہے کہ کیا ’دو قومی نظریہ‘ واقعی ایک درست نظریہ تھا۔ ان کا کہنا تھا ’یہاں ایک ایسا ماحول تیار کیا جارہا ہے جس میں آپ ان لوگوں کو مجبور کررہے ہو جنہوں نے کبھی دو قومی نظریہ سے اس مسئلے کے حل کو نہیں دیکھا، آپ ان لوگوں کو یہ بات سوچنے پر مجبور کررہے ہو کہ کیا دو قومی نظریہ ایک درست نظریہ تھا‘۔ انہوں نے کہا ’جب چھتیس گڑھ میں ایک بڑے حادثے میں پلوامہ سے زیادہ سی آر پی ایف کے بہادر جوان مارے گئے اس وقت تو کسی نے چھتیس گڑھ کے اقتصادی بائیکاٹ کی کال نہیں دی۔ اس وقت چھتیس گڑھ کے لوگوں کو ہوٹلوں میں کمرہ دینے سے کسی نے نہیں روکا۔ ہمارا قصور کیا ہے۔ کیا ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے۔ کیا اسی لئے ہمیں بار بار سزا دی جائے گی اور ہم پر شک کیا جائے گا؟‘۔ عمر عبداللہ نے کانگریس کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ’ہم نے بی جے پی سے کوئی امید نہیں رکھی تھی لیکن وزیر اعظم سے امید رکھتے تھے۔ ہم سوچ رہے تھے کہ سیاست کو ایک طرف رکھ کر وزیر اعظم کچھ کہیں گے۔ جہاں وزیر اعظم خاموش وہاں افسوس کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن کی لیڈرشپ بھی خاموش رہی۔ ہم امید کرتے تھے کہ کانگریس پارٹی اخلاقی ذمہ داری نبھاتے ہوئے حملوں پر کچھ کہے گی، لیکن کچھ نہیں۔ ہمیں یہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس جماعت نے اپنی آواز نہیں اٹھائی۔ کل انتخابات ہوں گے تو یہ جماعت کشمیریوں سے ووٹ مانگے گی‘۔ انہوں نے کہا ’الیکشن آتے جاتے رہیں گے، آپ الیکشن جیتنے کے لئے ایک پوری قوم کو قربان کرنا چاہتے ہیں ۔ آج ہمیں ایک سٹیٹس مین کی ضرورت ہے نہ کہ ایک سیاستدان کی۔ ہمیں جگہ جگہ سیاستدان نظر آرہے ہیں سٹیٹس مین نہیں۔ جہاں میں ان لوگوں کی مذمت کرتا ہوں جنہوں نے حملے کئے اور دھمکیاں دیں، وہاں ہمیں ان لوگوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیے جو اس مشکل دور میں ہمارے ساتھ رہے۔ ہم پنجاب اور مغربی بنگال کے وزرائے اعلیٰ کے شکر گذار ہیں۔ وہاں حادثے پیش آئے۔ انہوں نے ان حادثات کو چھپانے کے بجائے کاروائی کی۔ سکھ کیمونٹی نے اپنے گردوارے اور گھر ہمارے لوگوں کے لئے کھولے۔ کچھ ہندوﺅں نے اس میں ہمارا ساتھ دیا۔ لیکن بدقسمتی سے حکومت نے ہمیں مایوس کیا‘۔ عمر عبداللہ نے ریاستی گورنر ستیہ پال ملک سے اپیل کی کہ وہ کشمیر واپس لوٹنے والے طلباءکی پڑھائی کا انتظام کریں۔ انہوں نے کہا ’بار بار یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کشمیری عوام پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ آج اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے بہت سارے بچوں کا مستقبل خطرے میں ہے۔ میں گورنر صاحب سے اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ جو بچے اپنی تعلیم چھوڑ کر واپس اپنے گھروں کو واپس آگئے ہیں، ان کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ ان بچوں کی تعلیم متاثر نہیں ہونی چاہیے۔ ان کا تعلیمی سال ضائع نہیںہونا چاہیے‘۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ کشمیری طلباءپر حملے انہیں قومی دھارے سے الگ کرنے کی کاروائیاں ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’ان حملوں سے کشمیری نوجوان الگ تھلگ ہوجائیں گے۔ جب زیر تعلیم طلباءاور تاجروں کو دھکے مار کر باہر نکالا جائے گا، ہوٹلوں میں بورڈ لگیں گے کہ کشمیریوں کا داخلہ ممنوع ہے، تو اس سے کشمیری الگ تھلگ ہوں گے ہی۔ یہ جو نوجوان واپس آئے اگر خدانخواستہ ان میں سے کل کسی نے پتھر اٹھایا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ ان کو قومی دھارے سے باہر دھکیلا جارہا ہے‘۔ این سی نائب صدر نے حکومت کی جانب سے علیحدگی پسند لیڈران اور مین اسٹریم لیڈران و کارکنوں کی سیکورٹی واپس لینے کے فیصلے پر کہا ’حکومت نے آج سیکورٹی واپس لینا کا فیصلہ لیا ہے۔ ہمیں سیکورٹی ہٹانے کے نتیجے میں سامنے آنے والے نتائج کا انتظار کرنا پڑے گا۔ لوگوں کو تحفظ دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ دو سینئر علیحدگی پسند لیڈران میرواعظ مولوی محمد فاروق اور عبدالغنی لون جو مذاکرات کے ذریعے مسئلے کشمیر کے حل کے حق میں تھے، کو جنگجوﺅں نے قتل کیا‘۔ انہوں نے کہا ’مین اسٹریم سیاسی لیڈران کی سیکورٹی بھی واپس لی گئی ہے۔ ایک طرف آپ ہم سے کہتے ہیں کہ ہمیں پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات کے لئے تیار رہنا چاہیے جبکہ دوسری آپ کہتے ہیں کہ آپ کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مین اسٹریم سیاسی لیڈران اور عہدیداروں کی سیکورٹی واپس لینا ایک جارحانہ قدم ہے۔ گورنر انتظامیہ کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ ہمیں نہیں لگتا کہ انٹیلی جنس اور سیکورٹی ایجنسیوں نے اس فیصلے کی حمایت کی ہوگی۔ اگر اس فیصلے پر نظرثانی نہیں کی گئی تو ہم عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے‘۔