جموں میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو زبردست  نقصان ذمہ دار کون؟ ایک سوالیہ نشان؟

0
0

ایم اسلم خان

جموں

9419130635
گزشتہ دنوں کشمیر کے پلوامہ میں سی آر پی ایف کے قافلے پر ایک فداین حملے کے بعد جموں چیمبر آف کامرس اور بار ایسوسی ایشن کی طرف اس درد ناک واقعے کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے جموں بندھ کی آڑ میں بھگوا آتنک پسندوں نے اپنی ذانی پستی اور فرقہ پرستی کی سوچ کو تقویت دیتے ہوئے جس طرح ننگے ناچ کا مظاہرہ کیا اور درندگی کی ساری حدیں پار کرتے ہوئے جموں شہر میں آگزنی ،لوٹ مار،اور وحشیانہ قسم کے نعرے لگاکر اس پر امن شہر کو جہنم بنادیا۔عینی شاہدین اور متاثر افراد کے مطابق بلوائیوں کو انتظامیہ اور پو لیس نے جان بوجھ کر اتنا وقت دے دیا کہ وہ اپنے گھناﺅنے مقصد میں کامیاب ہو کر جائیں ۔شر پسند بلوایوں نے پولیس کے سامنے ایک ہی فرقے کی درجنوں گاڑیوں کونذرآتش اور تجارتی اداروں کو نقصان پہنچایا۔مسلم بستیوں پر پتھراﺅ اور کانچ کی بوتلوں سے حملے ہوتے رہے سب سے زیادہ ذیادتیاں گوجر نگر ، پریم نگر میں ہوئیں جہاں اکثر و بیشتر وادی کشمیر کے لوگ سردیوں میں آکر رہتے ہیں اور جن کو بھگوا فسادی نشانہ بنا رہے تھے ۔حالانکہ جموں کے تمام مسلم کاروباری اداروں،دُکانداروں نے بھی چیمبر کی کال پر عمل کیا؟؟؟الزام ہے کہ جموں سے سرینگر جانے والے کشمیریوں نے قومی شاہراہ بند ہونے کی وجہ سے ”پاکستانی نعرے لگائے“لیکن عینی شاہدین کہتے ہیں ایسا کچھ نہیں ھوا یہاں نعرے گورنر انتظامیہ کے خلاف تھے جسکو جموں میں ماحول خراب کرنے کے فراق میں بیٹھے کچھ دھاڑی دار گروپوں کا ہاتھ ہے اور جو اقتدار کے لالچ میں آے دن کشمیر کے لوگوں کے خلاف نفرت انگیز زہر اگلتے رہتے ہیں اور "پلوامہ سانحہ”ان شر پسندوں کے لیے موقع غنیمت ثابت ھوا اور انکی حیوانیت جموں کے با تہذیب اور امن پسند عوام کو شرمسار کر گئی اور ایک ایسا بد نما دھبہ لگ گیا کہ بھائی۔بھائی سے نظریں چرانے لگا ہے ۔ایک ذی ہوش انسان کا کہناہے کہ جموں والے اتنے ماہر نہیں ھیں کہ آناًفاناً اتنا کچھ کر جائیں ۔ہم بھی یہی مانتے ہیںکہ بلوائی باہر کے تھے جو انتظامیہ کو بھی معلوم ہوگا اسی لیے ان کو اتنا وقت دیا گیا کہ وہ لوگ اپنا مشن پرا کرکے واپس جاسکیں تبھی ”کرفیو“کا نفاذ کیا جائے تب تک وادی کی طرف سے آنے اور جانے والی گاڑیوں کو قومی ترنگا ہاتھ میں لیکر آگ لگائی جاتی رہی تو دوسری جانب بھگوا کپڑے سے منھ ڈھانپ کر تمام سیاسی پارٹیوں کے ورکر بھی مسلمان دشمنی کا ثبوت دیتے دکھائی دیے جنکی پھچان بھی ہو چکی ہے ۔اب سوال پیدا ہوتاہے کیا یہ سب کچھ اچانک ہوا یا اس کی تیاریاں پہلے سے کی جا رہی تھیں اور پلوامہ واقعہ ایک بہانا بنایا گیا ہےمجھے یاد ہے گزشتہ سال اپریل کے آخری ہفتے میں سرینگر ہوائی اڈے پر میری ایک رسمی ملاقات جموں چیمبر آف کامرس کے صدر راکیش گپتا سے ہوئی تو انہوں نے شکوہکیا کہ وہ سرینگر حریت قیادت سے ملکر جموں اور سرینگر کے درمیان ایک مضبوط رشتہ قایم کرنے اور آپسی بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے بات کرنا چاہتے تھے مگر وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے اجازت نہیں دی۔دوسری بات چونکانے والی تھی انھوں نے کہاتھا کہ جموں بارود کے ڈھیر پرہے کسی بھی وقت فرقہ وارانہ فسادات ہو سکتے ھیں۔۔۔سوال پیدا ہو ہی جاتاہے کہ مسٹر گپتا جب جانتے تھے تو جموں بندکی آواز لگانے سے پہلے اسکے نتایج کے بارے میں غور و خوض کر ناضروری تھا اور حکومت سے تعاون مانگنا تھا نا تو انہوں نے اس بات کو ایڈمنسٹریشن تک پہنچایااور نا ہی سماج کے دانشوروں کو اعتماد میں لیاگیااور نتیجہ سامنے ہے ۔دوسرا سوالیہ نشان ایڈمنسٹریشن پر لگ جاتاہے جب ڈپٹی کمشنر اور صوبائی کمشنرسے رابطے کیے گیے تو ایک بات کہتے رہے کہہم اسی بارے میں میٹنگ کر رہے ہیں اور فسادیوں کو موقع دیتے رہے ۔جب ایڈمنسٹریشن کو معلوم ہوا کہ اب کوئی گاڑی نہیںبچی تو دوپہر ڈھائی بجے کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کردیا۔۔اور اسکے باوجود فسادی پورے شہر میں ہاتھوں میں ترنگا اور مہلک ہتھیار لےکر مسلم بستی والے علاقوں کے چکّر لگا کر خوف و دہشت کا ماحول بناتے رہے؟ان دہشت گردوں کو کوئی روکنے والا نہیں تھا حد تب ہوگئی جب ایک ایسے ہی جلوسی کی رہنمائی ایک ڈی ایس پی اپنے کچھ پولیس والوں کو ساٹھ لےکر کرتا نظر آیااور روکنے پر مسلم آبادی والے علاقے سے ہی جلوس لےجانے پر ضد کرنے لگاپولیس اور ایڈمنسٹریشن کے روّیے نے ”گجرات فسادات “کی یاد دلادی جو ملک کے نام پر کالا دھبہ لگا گیا۔۔سانپ نکل گیا اب سبھی لکیر یں پیٹتے رہیں گے اس سے کس کو کیا حاصل ھوا ؟یا کیا حاصل ھو جایگا یہ تو فسادی اور انکے آقا بھی نھیںبتا پائیں گے ۔جموں کا نام کو ضرور بدنام ہو گیا ۔اسکے منفی اثرات ریاست بھر میں آج نھیںتو کل ضرور دیکھنے کو مل سکتے ہیں اور ایک ایسی دراڑ پیدا ہو جائیگی جسکو بھرتے بھرتے کافی عرصہ لگ جائیگا اور پھر سے اعتماد بحال کرنے کافی مشّقت ±حکمت،اور محنت کرنا ہو گی ۔وقتی جنون کی بربادی کے اثرات بہت جلد زایل ہو جاتے ھیں لیکن دماغوں میں ڈالا ہوا ”زہر“نکالنا ناممکن نہی تو مشکل ضرور ہے اور اس کے لیے صحیح رہ نمائی ضروری ہے۔ ادھر وزیر اعظم شری نریندر مودی نے بڑے ہی زور دار یا یوں کہا جاسکتا ہے کہ معنی خیز الفاظوں میں اعلان کیا کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے سرکار نو جوانوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے اس کے مآخذ کیا ہیں ؟کونسے دہشت گرد ؟ جنہوں نے جموں میں دو دن تک سرکار کوئی یرغمال بنا رکھا تھا کرفیو کے باوجود سڑکوں اور مسلم بستیوں میں ننگا ناچ کرتے رہے؟ آخر ضلع انتظامیہ خواب غفلت سے جاگی اور حرکت میں آئی اگر پہلے دن متاثرہ لوگوں کی آﺅ بکاءسن لی جاتی تو نا تو اتنا بھاری نقصان ہوتا اور ناہی خوف و حراص پھیلتاہم نے ہر اس محکمے سے رابطہ کیا جو کچھ نہ کر سکتا تھا اور انہیں سمجھایا کہ جو کچھ ہو رہاہے اسکے اثرات نہ صرف ریاست بلکہ پورے ملک میں ہوں گے ؟اور زعفرانی میڈیا جس طرح سے کشمیریوں کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کر رہا ہے اس سے ملک میں رہ رہے کشمیریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔آخر وہی ہوا جسکے خدشات تھے آج پورے ملک میں کشمیریوں کو ستایا جانے لگا ہے۔انہیں کرائے داری سے بیدخل اور طلبا کو الزام لگاکر نکالا جانے لگاہے۔جبکہ وہ ہندوستان کو اپنا وطن سمجھتے ہیں اور یہ صحیح بھی ہے ۔تو کیا سمجھا جائے اگر بھارت کے شہری بھارت میں نہیں رہ سکتے کیوں کہ وہ مسلمان ہیں تو پھر انکا الگ ملک کا مطالبہ ”غدّاری“نہیں کہا جا سکتا اس ملک کا بٹوارہ دو قومی نظرئے کی بنیاد پرہوا اب اگر علاقائی تعصّب کو فروغ دیا جاتا رہا تو ملک میں عدم رواداری بھی بڑھتی جائیگی اور عدم تحفظ کے خدشات خانہ جنگی کی صورت میں بڑی تیزی سے نمودار ہونگے۔ جیسا کہ نظر آنے لگا ہے کہحالات ساز گار نظر نہیںآتے اپنے وجود کو بچاناہے تو ملک کو بہروپیوں اور دھوکے باز ”مکّار“سیاستدانوں سے چھٹکارہ دلائیں مسلمان ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دوسرے سیّیارے سے آے ہیں ۔ہمارے بزرگوں نے طویل جدوجہد کرکے لاکھوں افراد کی قربانی دیکر اس وطن عزیز کو فرنگیوں سے اس لیے آزاد کرایا تاکہ آنے والی نسلیں عزت و آبرو سے اپنے وطن میں رہ سکیں ۔لیکن ان فرنگی طاقتوں نے ہمارے ہی ملک کے ان غدّاروں کو اپنی شرمناک شکست کا بدلا لینے کے لیے دوبارہ استعمال کیا اور ہر طرح کا سیاسی اور مذہبی حربے آزماکر حاکموں کی صورت میں ہم پر مسّلط کرڈالا دیش بھکتی کے نام پر بالکل وہی طور طریقہ اپنایا گیا جو کبھی جرمنی نے یہودیوں کے لیے اور امریکہ نے کالی رنگت کے لاکھوں کے لیے اپنایا تھا؟دنیا کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں ہر ملک اپ نے پڑوسی ملک سے دوستانہ تعلقات قایم کرتا جا رہاہے اور ہم پر حاوی حکمران ملک کے ہی لوگوں کو فرقوں اور قوموں میں بانٹ کر اپنا زنگ آلودہ رتھ دوڑائے جا رہے ہیں۔اب چونکہ یہ سال انتخابات کا ہے اس لیے ”پلوامہ سانحے “کو بنیادبناکرجموںسے ہی تفرقہ ڈالنے کی شروعات ہو چکی ہے۔لوگوں کو ہی دور اندیشی سے سمجھنا ہوگا اور فکر کرنا ہو گی۔ وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنیوالی ہے!

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا