نسل آدم کا خون ہے آخر…..

0
0

شہادت تو شہادت ہوتی ہے خواہ وہ فوجی کی ہویا عام شہری کی

 

 

 

 

جیلانی خان علیگ

”ملک میں جنگ کا ماحول کھڑا کردینا اس مسئلہ کا کبھی حل نہیں ہوسکتا۔ہر ذی شعور انسان جاناتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقت ہیں،جنگ کی ایک چھوٹی سی چنگاری بھی ان دونوں ملکوں ہی نہیں پورے بر صغیر کو تباہ کرسکتی ہے۔ضرورت ہے سنجیدگی اور حساسیت کو سمجھنے کی، عوام کے ذہن کو مشتعل ہونے سے روکنے کی نا کہ انہیں ناحق مشتعل کرکے سیاسی فصل کاٹنے کی”

وطن عزیز ان دنوںایک عجیب سی ہیجانی کیفیت سے دوچار ہے۔ملک کے ایک مخصوص صوبہ کے شہریوں کو جگہ جگہ نشانہ بنایا جارہا ہے ،ان پر حملے کئے جارہے ہیں،ان کی دکانیں، کاروبار،املاک نذر آتش کی جارہی ہیں، تہس نہس کی جارہی ہیں۔وہیں،ایک دیگرسرحدی ریاست میں فوجی مشق چل رہی ہے۔ساتھ ہی، گزشہ چند دنوں سے ملک بھر میں عوام سراپا احتجاج ہیں،پاکستان اور اس کے وزیرا عظم عمران خان ، وہاں سے سرگرم دہشت گرد تنظیم جیش محمد اورا س کے سربراہ مسعود اظہر کے علامتی پتلے نذر آتش کئے جارہے ہیں۔حکومت سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ جتنی جلدہوسکے پاکستان کو سبق سکھائےیعنی اس پر حملہ کردے یا ایک ا ور’ سرجیکل اسٹرائیک‘ کرےجو بڑی تباہی کا باعث بنے،جیش محمد کے خلاف بھی کارروائی کرے اور اسے نیست و نابود کردے۔ارباب اقتدار کے لوگ بھی اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعہ ان مظاہروں اور مطالبات کو بھر پور ایندھن فراہم کررہےہیں۔ادھر، اہم حریت لیڈروں کو فراہم کی گئی سرکاری سیکورٹی ہٹا لی گئی ہے جبکہ اعلیٰ سطحی میٹنگوں کا دور جاری ہے۔پاکستان کو فراہم کردہ ترجیحی ماملک کا درجہ بھی واپس لے لیا گیا ہے۔سرحد کے اس پار بھی جوابی ’بھاشن بازی،الٹی میٹم کا جوابی الٹی میٹم جاری ہے۔پاکستانی حکومت نے ہندوستان میں تعینات اپنے ہائی کمشنر کو اسلام آباد طلب بھی کیا ہے اور موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کررہی ہے۔
یہ ہنگامہ، تشدد، چیخ و پکار، مطالبات ،سیاسی بیان بازی ،ا لٹی میٹم اور میٹنگیں جمعرات کو جموں و کشمیر کے پلوامہ میں سی آر پی ایف کے قافلہ پر حملہ کے بعدہورہی ہیں، جس میں ہمارے ۴۴؍جوان شہید ہوگئے۔اس انسانیت سوز اوربزدلانہ کارروائی کی ذمہ داری جیش محمدتنظیم نے لی ہے ۔حالانکہ،کئی فوجی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ ابھی پورے وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ حملے جیش محمد نے ہی کی ہے کیونکہ ایسا اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ کئی بار حملوں کی ذمہ داری جس تنظیم نے لی ہے وہ دراصل حملہ آور تھی ہی نہیں۔
دراصل ،یہ وہی جیش محمد تنظیم ہے جس کے سربراہ مسعود اظہر کو بی جے پی کی قیادت والی اٹل حکومت نے خصوصی طیارہ میں بٹھاکرقندہار پہنچایا تھا۔تب بھی یہ دعویٰ کیا جارہا تھا کہ ہندوستانی تاریخ کی یہ سب سے مضبوط ار فعال حکومت ہے۔آج بھی ہمیں ایسے دعوئوں کا بھاری بھرکم ڈوز روزانہ لینا پڑرہا ہے۔اس دلدوز حملے اور اتنی بڑی تعداد میں فوجیوں کی شہادت کے باوجودبر سرا قتدار جماعت کے لیڈران بشمول ۵۶؍انچ سینہ والے ہمارے چہیتے وزیر اعظم نریندر مودی ، ہندوستانی سیاست کے ’چانکیہ‘ کے تمغہ کے واحد دعویدار بی جے پی صدر امت شاہ اور کئی ریاستوں میں اقتدار پر قابض اسی پارٹی کے وزرائےا علیٰ اور پارٹی کے سینئر عہدیداران تب تک جملے بازی اور بیانات موڈ میں تھے جب تک ملک بھر میں ’تھو تھو‘نہ شروع ہوگئی۔میت لانے کے دوران متنازع ممبر پارلیمنٹ ساکشی مہاراج کا مسکراتا ہوا چہرہ ہو یا حملے اور شہادت کی خبر کے باوجود پارٹی میںتفریح کرتے ہوئےدہلی بی جے پی صدر کی وائرل ہوئی تصویر ،ان لیڈروں کی لاپروائی، بےا عتنائی، عدم حساسیت اور عدم سنجیدگی پر تو زیادہ کچھ کہنے کا ابھی وقت نہیں مگر یہ قابل غور و فکر ضرور ہے۔
رہی بات موجودہ حالات کی تو کشمیریوں کو نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے تویہ جاننا ہے تو بھی اسی پارٹی اور اس کی نظریہ سازاور ذیلی تنظیموں کا کشمیر مخالف رویہ ہی ذمہ دار لگتا ہے۔ اس بھگوا گروہ کے لیڈران مسلسل کشمیریوں کو ملک مخالف ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ان کے کارکنان جنہیں اب قانون کا خوف ہے نہ آئین کی پاسداری کا،کھلے عام غنڈہ گردی کرتے رہے ہیں۔انہیں، ہر معاملے میں ہر وہ ’قصوروارانسان‘ مل جاتا ہے جو ایک مخصوص طبقہ سے تعلق رکھتا ہے۔ ان عناصر کے حملوں کےشکار کشمیری بھی اسی طبقہ کے ہیں۔ یہ لوگ یہ یقینی بناکر حملے کررہے ہیں کہ اس فرقہ کے علاوہ باقی کوئی اور کشمیری نشانہ نہ بنے۔اس ان حملوں میں فرقہ وارانہ سوچ بھی کام کررہی ہے۔
مگر،ا لمیہ یہ ہے کہ یوپی، بہار، اتراکھنڈ، دہلی ، راجستھان سمیت دیگر مقامات پر ایسے حملے کرکے ایسی گھٹیا سوچ کا مظاہرہ کر رہے ہیںجس کا متمنی پاکستان طویل عرصہ سے رہا ہے۔اس کی تو ہمیشہ سے خواہش اور کوشش رہی ہے کہ ہندوستان کو مذہب اور عالقہ کی بنیاد پر منقسم کردیا جائے، یہاں کے شہریوں کے ذہن میں ایکدوسرے کےلئے نفرت پیدا کردیں۔ساتھ ہی،ان پر تشدد کارروائیوں کے ذریعہ ان کشمیریوں کی شہادت کو داغدار کررہے ہیں جنہوں نے ملک کی حفاظت میں ہمارے فوجیوں کے شانہ بشانہ اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا ہے۔ان وردی دھاری کشمیریوں کی قربانی کو خاک میں ملا رہے ہیں جنہیں دہشت گردوں نے اس وجہ سے موت کے گھات اتار دیا کیونکہ وہ اپنے مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے ان کے سامنے سرنگوں
ہونے سے انکار کردیا تھااور ریاست اور شہریوں کی سیکورٹی، ان کے مستقبل کےلئے اپنی جان کی پروا نہیں کی۔لاقانونیت پھیلانے والےان بھگوا عناصر کو کیا یہ نہیں پتہ کہ جب کشمیرہمارا اٹوٹ حصہ ہے تو کشمیری بھی ہمارے بھائی ہیں۔کیا ان لوگوں کو یہ یقین نہیں کہ پلوامہ کی قصوروار تنظیم پاکستانی ہے، اس کی آقا پاکستانی فوج ہے؟۔اور،اگریہ جانتے ہیں،مانتے ہیں تو پھر کشمیریوں کو اس حملے کےلئے کٹہرے میں کیوں کھڑا کررہے ہیں؟۔کشمیریوں پر حملہ کرکےکیا یہ انہیں یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم آپ کو اپنا نہیںمانتے۔آپ کا موجودہ اور مستقبل ہمارے ساتھ نہیں۔ان بلوائیوں کوکون سمجھائے کہ کشمیرہندوستان کاشہ رگ ہے، اٹوٹ حصہ ہے، اس کے شہری ہمارےا پنے ہیں، بھائی بہن ہیں۔ان کا دکھ درد، ان کی پریشانیاں ہمیں بھی پریشان کرتی ہیں۔ان کی قربانیاں بھی ناقابل فراموش ہیں۔ وہ روز قربانی دیتے ہیں، اپنی جان کی، اپنے مال کی، اپنی عزت و عصمت کی، اپنے مستقبل کی۔ نسل در نسل وہ قربانی دے رہے ہیں،آج سے نہیں بلکہ دہائیوں سے۔
لاقانونیت کے ان علمبرداروں کو کون سمجھائے کہ شہادت تو شہادت ہوتی ہے خواہ وہ فوجی کی ہویا عام شہری کی۔ کشمیری عوام کی قربانی کو بھی ویسے ہی سلام کیا جانا چاہئے جیسے ہم اپنے فوجی بھائیوں کی شہادت پر انہیں پیش کرتے ہیں۔ہم اگر یہ مان بھی لیں کہ کچھ کشمیری نوجان بھی وہاں ہورہے دہشت گردانہ حملوں میں شامل رہتے ہیں، تب بھی کیا اس کی سزا پورے کشمیر کو دی جائے گی۔حال ہی میں وہاں کے کئی فوجی جوانوں اور سپاہیوںکی شہادت کو ہماری سرکار نے سلام کیا ہے، بعدا ز مرگ انہیں ملک کی جانب سے اعزاز دیا ہے،ان کےا ہل خانہ کویقین دلایا ہے کہ پورا ملک ان قربانیوں کی گواہ ہے،دکھ کیا س گھڑی میں ہم سب ان کے ساتھ ہیں۔تو کیا، ہمارے یہ سرپھرے نوجوان جو ہاتھوں میں لاٹھی ڈنڈے لئے کشمیریوں پر جگہ جگہ حملے کررہے ہیں، اپنی ہی حکومت کے تسلیم شدہ موقف سے منحرف نہیں ہورہے ہیں۔
ارباب اقتدار کے لوگوں کو بھی یہ سمجھنا چاہئے کہ اس المیہ کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنے کے بجائے سنجیدگی دکھائیں۔اس وقت پورا ملک بشمول ا پوزیشن جماعتیں حکومت کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑی ہیںاور یہ ا مید کررہی ہیں کہ جلد از جلد اس تعلق سے کوئی حتمی فیصلہ لیا جائے کہ آخر دہشت گردی کے اس ناسور سے نمٹنے کےلئے اس کی حکمت عملی کیا ہوگی۔ جس پڑوسی ملک کو وہ ان کارستانیوں کی ذمہ دار مانتی ہے اسے کس طرح سبق سکھانا چاہتی ہے۔ ملک میں جنگ کا ماحول کھڑا کردینا اس مسئلہ کا کبھی حل نہیں ہوسکتا۔ہر ذی شعور انسان جاناتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقت ہیں،جنگ کی ایک چھوٹی سی چنگاری بھی ان دونوں ملکوں ہی نہیں پورے بر صغیر کو تباہ کرسکتی ہے۔ضرورت ہے سنجیدگی اور حساسیت کو سمجھنے کی، عوام کے ذہن کو مشتعل ہونے سے روکنے کی نا کہ انہیں ناحق مشتعل کرکے سیاسی فصل کاٹنے کی۔
شاید کچھ ایسے ہی جنگی جنون کو دیکھتے ہوئے ساحر لدھیانوی نے کہاتھا:
خون اپنا ہو یا پرایا ہو؛نسل آدم کاخون ہے آخر
جنگ مغرب میں ہو کہ مشرق میں؛امن عالم کا خون ہے آخر

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا