شرم و حیا کا جنازہ نکالنے والا دن: "ویلنٹائن ڈے”

0
0

محمد قاسم ٹانڈوی

عالمی پیمانے پر رائج تمام مذاہب کی ثابت شدہ تعلیمات کے مابین اگر مقابلہ کیا جائے تو دنیا کا واحد مذہب اسلام ہی ایسا مذہب ہوگا جو اپنے ماننے والوں کے ساتھ ساتھ دیگر اقوام و ملل اور مختلف النوع اذہان و فکر سے متصف طبقات کی راہنماءپوری سنجیدگی، دیانتداری اور جامع معقولیت کے ساتھ انسانی فطرت و جبلت اور باشعور شخص کے مزاج و مذاق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے زندگی گزارنے کے واسطے ایک موثر و جامع منشور اور صد فی صد کامیاب نظام اور نظریہ پیش کرتا ہے. اسی لئے شریعت مطہرہ کی توضیح و تشریح کرنے والوں نے فرمایا کہ شریعت حقہ کی بنیاد دو چیزوں پر ہے:1)مامورات، یعنی فرائض و واجبات پر عمل کرنا؛ 2)منہیات، یعنی حرام و مکروہات وغیرہ سے باز رہنا- اور ان دونوں کی یکساں طور پر اہمیت ہے(ایک جامع قرآنی وعظ:262)مطلب: عبادات کی بھی بروقت ادائیگی کی جائے گی اور ممنوعات و منکرات سے بھی حتی الامکان بچاو اور احتراز کیا جائے گا.قرآن کریم کی سورہ الاعراف میں ارشاد باری تعالی مذکور ہے:”اے پیغمبر! آپ فرما دیجئے کہ میرے رب نے کھلی اور چھپی تمام بےحیاءکی باتوں کو حرام قرار دیا ہے”(آیت:33)اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی موجود ہےکہ:”ظاہری اور پوشیدہ ہر طرح کے فواحش کے قریب مت جاو¿”-(الانعام، آیت:151)مقصود ان دونوں آیات کریمہ کا یہ ہےکہ "فواحش و منکرات چاہے برسر عام کئے جائیں یا تنہائی میں انجام دئے جا رہے ہوں، یا پھر کسی مملکت و ریاست کے حکمراں نے قانونی تحفظ فراہم کر رکھا ہو، بہرصورت غیر انسانی اور غیر فطری عمل قرار دیا جائےگا بلکہ ایک صاحب ایمان کے لئے تو ایمان کی کسوٹی اور ایمان کامل کا پیمانہ قرار دیا جائےگا کہ وہ باری تعالی کی طرف سے ہونے والے ان احکام کی پابندی کرنا اور ہر طرح کے فواحش و منکرات سے دور رہنا لازم و ضروری سمجھتا ہو، اس لئے کہ غیرت الہی ان باتوں کو ہرگز ہرگز پسند نہیں کرتی. بلکہ جب کسی قوم میں افعال بد یا فواحش و منکرات کی کثرت اور زیادتی پاءجانے لگے گی تو اس وقت اس بستی اور اس قوم کی تباہی و بربادی کے آثار پہلے سے کہیں زیادہ پختہ اور قریب تر ہو جاتے ہیں، جیسا کہ صحابءرسول سیدنا حضرت عبداللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) کی ایک روایت میں ہےکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ: "نیک لوگوں کے رہتے ہوئے کوئی بستی (یا قوم) ہلاک کی جاسکتی ہے”؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: "ہاں (ہلاک کی جائے گی) جب کہ نیک لوگ اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں سستی کریں اور معاصی کو دیکھ کر خاموش رہیں”-(تنبیہ الغافلین، بحوالہ سابق ص:268)آئے ذرا ! اب آتے ہیں اصل مقصد و مدعا کی طرف؛ کہ یہاں ارشادات باری تعالی اور فرمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نقل کرنا کس معنی کر ہوا ہے؟کہیں تو تہذیب و تمدن کی بقا، کہیں ثقافت و کلچر کا فروغ اور کہیں قومی و مذہبی رسم و رواج کی پابندی اور اس کے احیاء کی کوشش کی مناسبت سے اور کہیں کہیں صرف دوسروں کی دیکھا دیکھی میں سال بھر میں کچھ ایام کو مخصوص طریقہ پر منانا اور ان کی نسبت پر متفرق انداز سے خوشیاں منانا، موم بتی اور کینڈل روشن کرنا، پھل پھول اور مٹھائی تقسیم کرنا وغیرہ، انہیں مخصوص ایام میں سے ایک دن 14/فروری کا بھی ہے، جس کو شرم و حیا سے عاری اور بےغیرت و بےحیا مغربی اقوام نے ایک نئے کلچرل اور تہذیب کے طور پر غیرمغربی دنیا کے لوگوں کے روبرو متعارف کراکر انسانیت کو قعر مذلت اور ضلالت و گمراہی کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں ڈھکیلنے کی کوشش کی ہے جسے بصارت و بصیرت سے خالی انسانیت کے دشمنوں نے "ویلنٹائن ڈے” یعنی باہمی عشق و محبت کے دن سے منسوب کر رکھا ہے، یہی وہ خباثت و غلاظ بھرا عمل کا دن ہے جس کےلئے آج کا نوجوان نصف فروری (14/فروری، ویلنٹائن ڈے) کا منتظر بنا ایام کو شمار کرتا ہے تاکہ اس دن خلاف فطرت اور خلاف انسانیت عمل میں بدمست ہو کر اس کو رواج دے سکے اور پوری انسانیت کو عذاب الہی میں گرفتار و مبتلا کرنے کی ناپاک کوششیں کی جاتی ہیں اور ان کرنے والوں کو ذرا سا بھی احساس نہیں گزرتا کہ ہم دھرتی کے جس خطہ اور رقعہ پر بیٹھ کر آج جس گھنونے فعل کو انجام دے رہے ہیں کل وہی رقعہ زمین ہمارے حق میں اس فعل بد کو بطور گواہ اللہ رب العزت کے سامنے پیش کر دےگا اور اس وقت انسان کہےگا "اسے کیا ہو گیا”؟حالانکہ تاریخی شواہد اس کے برعکس منظر نامہ پیش کرتے ہیں جس دن کےلئے آج کا نوجوان اپنے عیش و عشرت، لذت خوری اور اپنی شیطانی من کی پیاس بجھانے کےلئے بےقرار و بےچین رہتا ہے، اور مکمل طور پر اس دن کی حقیقت و اصلیت سے ناواقف ہے.آئے جانتے ہیں اس "ویلنٹائن ڈے” کی حقیقت و اصلیت اور اس کے پس منظر کو کہ یہ رسم بد اور شرارت و خباثت سے بھری پری ایجاد ہے کیا؟دراصل "ویلنٹائن” ایک یہودی پادری کا نام تھا جس نے خود کے پوپ رہتے ہوئے انگلینڈ میں غیر شادی شدہ لڑکے اور لڑکیوں کےلئے باہمی طور پر خود لذتی (زنا اور بدکاری) جیسے امور کو جائز قرار دیا تھا، جس کی پاداش میں حکومت انگلینڈ نے اس "ویلنٹائن” نامی سرپھرے شخص کو 14/فروری کو پھانسی کی سزا سنا کر نشان عبرت بنایا تھا؛ یہ ہے اس دن کی حقیقت و اصلیت، مگر ماتم کیجئے ان لوگوں کی عقلوں پر جو ایسی ذہنیت رکھنے والی کی دردناک موت سے بھی کوئی سبق نہ لے سکے بلکہ اور اس کی موت کے بعد اس کے پیشے کی ترجمانی، اس کے فاسد خیال کو فروغ دینے اور معاشرہ میں جنسی انارکی اور بے راہ روی کو بڑھاوا دینے کےلئے آگے آئے اور دنیا کو ہم جنس پرستی کے شعلوں اور کبھی نہ سرد ہونے والی آگ کی لپٹوں میں لپیٹ کر اس فعل بد کے دلدارہ و شوقین لوگوں کے درمیان پروان چڑھانے اور نسل نو کو اس مخرب اخلاق بیماری کا عادی بناکر خود کو ان نوجوانوں کا ہمدرد و ہمخوار قرار دینے میں لگ گئے جس کا نتیجہ ہے کہ ہر سال 14/فروری کو اس کی یاد تازہ کرنے کے لئے "ویلنٹائن ڈے” منانا شروع کردیا اور تب سے آج تک انتہائی درجے کی قباحت و کراہت سے لبریز اس رسم بد کے نام پر ہر سال بےحیاءو بےغیرتی کا وہ طوفان بلاخیز برپا کیا جانے لگا کہ علی الاعلان اور کہیں کہیں حکومتوں کی نگرانی اور زیرسرپرستی شراب و شباب کی محفلیں منعقد کی جانے لگیں اور پھر ہوا یہ کہ انہیں دشمنان دین و مذہب اور انسان کو انسانیت کی معراج سے اتار کر ہماری قوم کا نوجوان بھی انہیں کے نقش قدم پر چل پڑا. اور پھر اپنی جوانی کے تیور اور جوش و خروش میں بدمست ہو کر بےحیائی و منکرات کے سمندر میں اتر کر اپنا خاندانی تقدس، تہذیب و شرافت اور چند ساعتوں کی خود لذتی کےلئے اپنے دین و دنیا کو اجاڑنے میں لگے ہیں اور موجودہ وقت میں معاشرہ جن خرابیوں سے دوچار ہوا ہے، بےحیائی کے فروغ اور اس سے اخذ ہونے والے مہلک امراض و جراثیم جسے طب کی زبان میں ایڈس کہا جاتا ہے اس کے پھیل پھیلاو میں ایک اہم سبب 14/فروری "ویلنٹائن ڈے” پر ہونے والی بےہودہ خرافات اور نوجوانوں کے اذہان و قلوب کو یکسر طور پر مالوف کرکے رکھ دینے والے بےہنگم اور شیطانی امور بھی شامل ہیں، جوکہ اس دن کے آنے سے قبل ہی ہمارے نوجوان نسل کے ذہنوں کے اندر ایک خاص قسم کا جنسی ہیجان اور عشق و محبت کا جھوٹا بہانہ تراش کر خرمستیوں اور جنسی تسکین کےلئے سرگرداں اور محوخواب ہونے کی پلاننگ کرنے لگتے ہیں.اس موقع پر تاریکی اور گمراہی میں ڈوبی نوجوان نسل کو چاہئے کہ وہ اپنے پاکیزہ مذہب کی تعلیمات، صالح افکار و خیالات کے حامل اشخاص، بزرگان دین، صوفیاءکرام اور علمائ حضرات کی زندگیوں کا بغور مطالعہ کریں، حضرات انبیاء کرام کی عفت مآبی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پاکدامنی اور طہارت و نظافت سے لبریز حیات جاوداں سے اپنے روشن مستقبل کا سامان فراہم کرنے والے ہوں.

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا