مشترکہ مزاحمتی تحریک نے جمعرات کو ’کرگل بند‘ کی کال دے دی
یواین آئی
سرینگرخطہ لداخ کے مسلم اکثریتی ضلع کرگل میں جہاں بدھ کے روز تقریباً تمام سرکاری دفاتر میں معمول کا کام کاج ٹھپ رہا، وہیں چار روز بعد دکانیں اور تجارتی مراکر کھل گئے اور سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی آواجاہی بحال ہوئی۔ اس دوران مشترکہ مزاحمتی تحریک نے 14 فروری (جمعرات) کو ’کرگل بند‘ کی کال دے دی ہے۔ بتادیں کہ ضلع کرگل میں لوگ نوتشکیل شدہ صوبہ لداخ کے تمام مرکزی دفاتر دونوں اضلاع (کرگل اور لیہہ) میں ففٹی ففٹی بنیادوں پر قائم کرنے کے مطالبے کو لیکر برسراحتجاج ہیں۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق ضلع کرگل میں بدھ کو بھی سرکاری دفاتر میں معمول کا کام کاج ٹھپ رہا کیونکہ ملازمین ڈیوٹی پر نہیں آئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق کرگل میں ملازمین کی تنظیم ’جوائنٹ ایکشن کمیٹی‘ نے ایک بیان میں برابر کے حقوق نہ ملنے تک کرگل میں سبھی سرکاری دفاتر بند رکھنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ تب تک اپنے دفاتر نہیں جائیں گے جب تک کرگل کو حقوق نہیں دیے جاتے۔ کرگل کے ایک رہائشی نے یو این آئی کو فون پر بتایا کہ اگرچہ قصبہ کرگل میں بدھ کو دکانیں اور تجارتی مراکز کھل گئے اور سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت بحال ہوئی، تاہم سرکاری دفاتر میں معمول کا کام کاج بدستور ٹھپ پڑا ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کرگل میں ابھی تک ہونے والے سبھی احتجاجی مظاہرے پرامن رہے۔ اس دوران ضلع میں سرگرم تمام سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیموں کی طرف سے تشکیل دی گئی ’مشترکہ مزاحمتی تحریک‘ نے ایک بار پھر ’کرگل بند‘ کی کال دے دی ہے۔ ضلع کرگل کو بدھ کو گاڑیوں پر نصب لاﺅڈ اسپیکر کے ذریعے یہ اعلان سنا گیا :’سنئے حضرات سنئے۔ ایس آر او 110 کے خلاف مشترکہ مزاحمتی کمیٹی کی کال پر 14 فروری 2019 کو کرگل بند رہے گا۔ تمام کاروباری ادارے ، سرکاری وغیرسرکاری دفاتر اور ٹرانسپورٹ بند رہے گا۔ کرگل کے غیور عوام سے گذارش ہے کہ کرگل کے علاوہ تمام بلاک ہیڈکوارٹرس میں بھی اس ہڑتال کو کامیاب بنائیں‘۔ صحافی سجاد کرگلی نے بتایا کہ گورنر ستیہ پال ملک کی طرف سے کمیٹی کی تشکیل ایک دھوکہ ہے۔ انہوں نے کہا ’کمیٹی کی کیا ضرورت ہے۔ وہ دونوں اضلاع کو انصاف دلانے کے لئے ایس آر او 110 میں ترمیم کرسکتے ہیں۔ کرگل کی لیڈرشپ کو اس فرضی کمیٹی کے جھانسے میں نہیں آنا چاہیے۔ ہم احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے‘۔ انہوں نے کہا ’ڈویژنل سٹیٹس کی مانگ کرگل سے شروع ہوئی تھی۔ مطالبے کو لیکر کرگل اور لیہہ کی لیڈرشپ ایک صفحے پر تھی۔ دونوں اضلاع کی لیڈرشپ نے وزیر داخلہ کو ایک مکتوب بھیجا تھا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ کسی اضلاع کے ساتھ ناانصافی کے بغیر خطہ لداخ کو ڈویژنل سٹیٹس دیا جانا چاہیے۔ گورنر ستیہ پال ملک کے یکطرفہ فیصلے کی وجہ سے کرگل اور لیہہ کا رشتہ جو بہتر ہورہا ہے، وہ خراب ہونے لگا ہے۔ انہوں نے بدقسمتی سے تقسیم کرو اور حکومت کرو کا فارمولہ استعمال کیا ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا ’گورنر صاحب کا فیصلہ 2019 کے انتخابات کو مدنظر رکھ کر سامنے آیا ہے۔ گورنر صاحب بدقسمتی سے ایک مخصوص سیاسی جماعت کے کارکن کے طور پر کام کررہے ہیں۔ انہوں نے ہمارے خطے کو توڑنے کی کوشش کی ہے‘۔ واضح رہے کہ گورنر ستیہ پال ملک نے 8 جنوری کو ایک غیرمعمولی قدم اٹھاتے ہوئے خطہ لداخ کو جموں وکشمیر کا تیسرا صوبہ بنانے کے احکامات جاری کردیے ۔اس حوالے سے جاری احکامات میں کہا گیا کہ صوبہ لداخ لیہہ اور کرگل اضلاع پر مشتمل ہوگا۔ صوبے کا ہیڈکوارٹر لیہہ میں ہوگا۔ اس صوبے کے لئے ڈویژنل کمشنر (لداخ) اور انسپکٹر جنرل آف پولیس (لداخ) کی اسامیاں وجود میں لائی جائیں گی۔ دونوں(اعلیٰ سرکاری عہدیداروں) کے دفاتر لیہہ میں ہی ہوں گے۔ تاہم ضلع کرگل کے لوگوں نے اس فیصلے کو متعصبانہ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مہم چھیڑ دی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ صوبے کے تمام دفاتر کرگل اور لیہہ میں ففٹی ففٹی کی بنیادوں پر قائم کئے جائیں۔ ریاستی گورنر نے گذشتہ روز ضلع ریاسی کے کٹرہ میں ایک تقریب کے حاشیہ پر نامہ نگاروں کو بتایا کہ ضلع کرگل کو انصاف دلانے کے لئے سکریٹریز پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ کمیٹی ضلع کرگل کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائے گی۔ ضلع کرگل مسلم اکثریتی اور ضلع لیہہ بودھ اکثریتی ہے۔ جہاں 2012 کی مردم شماری کے مطابق کرگل کی آبادی ایک لاکھ 41 ہزار ہے، وہیں لیہہ کی آبادی اس سے کم یعنی ایک لاکھ 33 ہزار ہے۔ جہاں ضلع کرگل 129 دیہات پر مشتمل ہے، وہیں ضلع لیہہ 113 دیہات پر مشتمل ہے۔