دفعہ 35 اے کی سپریم کورٹ میں سماعت، کشمیر میں دو روزہ ہڑتال شروع، نظام زندگی متاثر

0
0

یو این آئی
سری نگر، مسلم اکثریتی ریاست جموں وکشمیر کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 35 اے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر عرضیوں پر سماعت کے پیش نظر وادی کشمیر کے سبھی دس اضلاع میں 2 روز تک جاری رہنے والی ہڑتال شروع ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں عام زندگی معطل ہوکر رہ گئی ہے۔ بدھ کے روز وادی کے بیشتر حصوں بالخصوص گرمائی دارالحکومت سری نگر اور ضلع و تحصیل ہیڈکوارٹروں میں تمام دکانیں اور تجارتی مراکز بند جبکہ سڑکیں سنسان نظر آئیں۔ جموں وکشمیر سٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی گاڑیاں بھی سڑکوں سے غائب رہیں۔ 2 روزہ ہڑتال کی کال مشترکہ مزاحتمی قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے دے رکھی ہے جبکہ وادی کی تجارتی انجمنوں اور دیگر طبقوں کی نمائندگی کرنے والی تنظیموں نے اس دو روزہ ہڑتال کی کال کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق سپریم کورٹ معاملے (دفعہ 35 اے) پر 13 یا 14 فروری کو سماعت کرسکتا ہے۔ مزاحمتی قیادت نے ان اطلاعات کے پیش نظر 13 اور 14 فروری کو ’جموں وکشمیر بند‘ کی کال دیتے ہوئے کہا تھا ’درحقیقت یہاں مستقل باشندگی کے قانون کو ختم کرنے کی شرارت آمیز کوشش کے پیچھے ریاست جموں کشمیر میں غیر ریاستی باشندوں کو بسا کرکے یہاں کے آبادی کے تناسب کوبگاڑنے کا مقصد کار فرما ہے تاکہ اس تنازعہ کشمیر کی ہیئت و حیثیت کو تبدیل کیا جاسکے۔ اس قانون میں کسی قسم کی چھیڑ چھاڑکس بھی صورت میں برداشت نہیں کی جائے گی کیونکہ یہ قانون ہم سب کے لئے بحیثیت قوم کے بقاءکی بنیادی اہمیت کا حامل ہے‘۔ انہوں نے کہا تھا ’ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ محکوم کشمیری قوم جو مشکلات سے گذرہی ہے ہڑتالوںکی وجہ سے ان مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا ہے تاہم اپنی شناخت اور تنازعہ کشمیر کی حیثیت وہیت کو زک پہنچانی جیسی سازشوں کو ناکام کرنے کے لئے اس طرح کا احتجاج لازمی بن جاتا ہے‘۔ تاہم معمول کے برخلاف وادی میں بدھ کو شمالی کشمیر کے بارہمولہ سے جموں خطہ کے بانہال تک چلنے والی ریل خدمات چالو رہیں۔ وادی میں ہڑتال کے موقع پر ریل خدمات کی معطلی ایک معمول بن چکا تھا۔ ریلوے کے ایک سینئر عہدیدار نے یو این آئی کو بتایا ’بڈگام سے بانہال اور بارہمولہ تک ریل گاڑیاں معمول کے مطابق چل رہی ہیں‘۔ بدھ کو وادی کے سبھی دس اضلاع سے مکمل اور ہمہ گیر ہڑتال کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ گرمائی دارالحکومت سری نگر کے سبھی علاقوں میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت معطل رہی۔ سیول لائنز اور پائین شہر کے حساس علاقوں میں سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات نظر آئی۔ سرکاری دفاتر اور بینکوں میں معمول کا کام کاج متاثر رہا جبکہ بیشتر ٹیوشن سینٹر بند رہے۔ کشمیر یونیورسٹی میں بھی معمول کی سرگرمیاں ٹھپ رہیں۔ جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ سے موصولہ ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی کشمیر کے قصبوں اور تحصیل ہیڈکوارٹروں میں مکمل ہڑتال کی وجہ سے کاروباری اور دیگر سرگرمیاں مفلوج رہیں۔ شمالی کشمیر کے قصبہ سوپور سے موصولہ ایک رپورٹ کے مطابق شمالی کشمیر کے تمام قصبوں اور دیگر تحصیل ہیڈکوارٹروں میں مکمل ہڑتال کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق شمالی کشمیر کے تمام قصبوں اور دیگر تحصیل ہیڈکوارٹروں میںدکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر ٹریفک کی آمد ورفت معطل رہی۔ وادی کشمیر کے دوسرے حصوں بشمول وسطی کشمیر کے گاندربل اور بڈگام اضلاع سے بھی مکمل ہڑتال کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ بتادیں کہ دفعہ 35 اے اور دفعہ 370 کے خلاف دائر متعدد عرضیاں اس وقت سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ دفعہ 35 اے غیر ریاستی شہریوں کو جموں وکشمیر میں مستقل سکونت اختیار کرنے ، غیر منقولہ جائیداد خریدنے ، سرکاری نوکریاں حاصل کرنے ، ووٹ ڈالنے کے حق اور دیگر سرکاری مراعات سے دور رکھتی ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ 1953 میں جموں وکشمیر کے اُس وقت کے وزیراعظم شیخ محمد عبداللہ کی غیرآئینی معزولی کے بعد وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی سفارش پر صدارتی حکم نامے کے ذریعہ آئین میں دفعہ 35 اے کو بھی شامل کیا گیا، جس کی ر±و سے بھارتی وفاق میں کشمیر کو ایک علیحدہ حیثیت حاصل ہے۔ 10 اکتوبر 2015 کو جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے اپنے ایک تاریخی فیصلے میںدفعہ 370 کو ناقابل تنسیخ و ترمیم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ دفعہ (35 اے ) جموں وکشمیر کے موجودہ قوانین کو تحفظ فراہم کرتی ہے‘ ۔ سپریم کورٹ نے 30 اگست 2018 ءکو دفعہ 35 اے کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی سماعت اگلے جنوری 2019 کے دوسرے ہفتے تک کے لئے ملتوی کردی تھی۔ 30 اگست 2018 ءکو ہوئی سماعت کے دوران جموں کشمیر حکومت اور مرکزی حکومت کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں دلیل دی گئی تھی کہ ’ریاست میں پنچایتی انتخابات ہونے والے ہیں اور ایسی صورت میں اس معاملے کی سماعت سے امن و قانون کی صورتحال پر اثر پڑسکتا ہے۔ اس لئے معاملے کی سماعت پنچایتی انتخابات کے بعد کی جائے‘۔ اس کے بعد عدالت نے معاملے کی سماعت جنوری 2019 کے دوسرے ہفتے تک کے لئے ملتوی کردی تھی۔ جموں و کشمیر حکومت کی جانب سے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل تشار مہتا اور مرکزی حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے پیروی کی تھی۔ 27 اگست 2018 ءکو اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا، جسٹس اے ایم کھان ولکر اور جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی بنچ نے دفعہ 35 اے متعلق ایک نیا معاملہ سماعت کے لئے نہیں لیا تھا کیونکہ عرضی گزار اشونی اپادھیائے نے خود ہی سماعت ملتوی کرنے کی رجسٹری سے گزارش کی تھی۔ اس سے قبل 6 اگست 2018 ءکو سپریم کورٹ نے معاملے پر سماعت اگلی تاریخ مقرر کئے جانے تک ملتوی کر دی تھی۔ چیف جسٹس دیپک مشرا اور جسٹس اے ایم کھانولکر کی بنچ نے کہا تھا کہ اس معاملہ کو آئینی بنچ کو سونپنے کے معاملہ کے تعین کے لئے تین رکنی بنچ تشکیل دینے کی ضرورت ہے

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا