اپنے ہوئے پرائےاپنے ہوئے پرائے

0
0

آزاد عباس چوگلے

گاو¿ں میں عباس بھائی کا خاندان بہت معروف و مقبول تھا۔اس باوقار خاندان کو لوگ بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ عباس بھائی نے اپنے خاندان کی بقاءو پائیداری کو بڑے احترام سے محفوظ کر رکھا تھا ۔ اب یہ خاندان محض آٹھ افراد پر مشتمل تھا ۔ ان کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں چونکہ وہ گاو¿ں میں مقیم تھے اس لیے ان کی بیٹیوں نے صرف بارہویں تک تعلیم حاصل کی تھی۔ یہ پوری طرح سے صوم و صلوٰة کی پابند تھیں علاوہ نیک اطوار و امور خانہ داری میں بھی اول تھیں ۔ ساتھ ساتھ فرض شناسی اور خدمت خلق میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی۔ ہر کسی کے ساتھ انکساری اور رواداری سے پیش آنا اُن کا اولین منشاءتھا۔ فرصت کے اوقات میں اپنوں اور غیروں کے گھر جاکر اُن کی خیر و عافیت دریافت کیا کرتی تھی۔ بلکہ یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ چاروں فرشتہ صفت انسان تھی۔ ہمیشہ ہی اپنے اخلاقی فرض و مذہبی فرائض سے کبھی غافل نہیں رہتی تھی۔ ان کے نیک اخلاق و کردار کے چرچے گاو¿ں میں ہی نہیں بلکہ پڑوسی گاو¿ں میں ہوتے تھے۔ چاروں بہنوں کی ملنساری ، خندہ پیشانی و اخلاق حسنہ کی وجہ سے ان کی شادیاں بھی جلد ہوگئی اور اپنے اپنے گھروں میں کافی خوش و خرم و شاداں تھیں۔ سسرال میں بھی سبھی ان کی خوش گفتاری و خوش اسلوبی سے بہت خوش تھے ۔ ساتھ ہی ساتھ والدین کو بھی دعائیں دیتے تھے کہ اُنہوں نے اپنی لخت جگر کو نیک اخلاق سے نوازہ ہے ۔ عباس بھائی اب اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوچکے تھے اور بڑے مسرور تھے کہ اپنے سبھی بچوں کی شادی ہوگئیں اب وہ اُن دنوں کا انتظار تھا کہ وہ اپنے پوتوں اور نواسوں کے ساتھ وقت گزاریں۔ ویسے بھی اُنھیں اپنے گاو¿ں سے کافی لگاو¿ تھا مگر ملازمت کے چکر میں شہر جانا پڑا ۔ اب صرف اور صرف گاو¿ں میں سکھ چین سے رہنا ہی اُن کا سپنا تھا ۔ چاروں بیٹیوں میں سے ایک بیٹی ریحانہ جو پڑوسی گاو¿ں میں شادی کرکے گئی ہوئی تھی۔ بیچاری پہلے ہی سال بیوہ ہوگئی اور اپنے والد کے گھر آگئی۔ دراصل اُس کے سسرال والے بضد تھے کہ وہ اُن کے ساتھ رہے بیٹی بن کر اور وہی لوگ کسی اچھے لڑکے کے ساتھ نکاح بھی کروانا چاہتے تھے۔ مگر ریحانہ نے اپنے والد کے گھر آنا مناسب سمجھا اور آگئی۔ والدین اب بڑھاپے کے حدود میں داخل ہوچکے تھے ۔ اب اُنھیں اپنی بیٹی ریحانہ کی شادی کی فکر کھائے جارہی تھی۔ ہر وقت بدست دُعاگو تھے کہ ریحانہ کو کوئی اچھا سا رشتہ آئے اور وہ اپنے گھر چلی جائے۔ اللہ اللہ کرتے تین سال بعد ایک اچھے اور رئیس گھرانے سے رشتہ آیا۔ والد محترم نے کافی گہرائی سے تفتیش کی اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ لوگ اچھے اور عزت دار بھی ہیں ۔ آخرش اپنی بیٹی کی شادی اُس گھرانے میں کردی۔ وہاں وہ کافی خوش تھی کہ اُسے ایک بہت پیار کرنے والے میاں اور والدین جیسے ساس سسر بھی ملے ہیں چونکہ امیر گھرانا تھا تو کافی نوکر چاکر تھے تو رانی بن کر راج کررہی تھی۔ ابھی شادی ہوئے سال ہی ہوگیا تھا کہ ریحانہ کے سسرال والوں نے محسوس کیا کہ ریحانہ تقریباً ہر دن بخار سے تپتی رہتی ہے اور شام کے وقت سردی سے تھراتی ہے ۔ گاو¿ں کے ڈاکٹر سے علاج کررہی ہے بس وہ صرف ایک دن کے لیے بیماری سے بَری ہوتی ہے پھر وہی حال۔ پتہ نہیں کونسی بیماری اُسے لاحق تھی؟ دن بدن وہ کمزور و لاغر بھی ہورہی تھی ، آنکھیں بھی اندر دھنسی جارہی تھی۔ ایک دن ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ اسے شہر کے کسی اچھے ہسپتال لے جاو¿ وہاں سب سے پہلے اُس کے خون و پیشاب کی جانچ کرواو¿ تب یہ بات صد فیصد صاف ہوجائے گی کہ یہ محض سردی بخار ہے یا کوئی اور بیماری۔ اور اگر کوئی بیماری ہے تو اُس بیماری کے مخصوص طبیب سے فوراً اُس کا علاج کرواو¿ کیونکہ اُس کی صحت بڑی تیزی سے گررہی ہے۔ شہر میں جاتے ہی اُس کا علاج شروع کیا۔ سب سے پہلے خون چیک کیا تو پتہ چلا کہ اسے ایڈز جیسی مہلک اور خطرناک بیماری ہے۔ ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ اسے یہ بیماری چند سالوں سے ہے کسی حد تک علاج بھی ممکن ہے مگر نتیجہ آتے آتے کافی سال لگ سکتے ہیں۔ مگر ریحانہ کے میاں کی سوچ ڈاکٹر کی باتوں سے متضاد تھی وہ اس غلط فہمی کے شکار تھے کہ یہ بیماری لاعلاج ہے اور پورے خاندان میں کھان پان سے پھیل سکتی ہے اور سب سے پہلے وہ خود اس بیماری کی گرفت میں آسکتے ہیں۔ ہاں بیشک وہ خود اس کی زد میں ضرور آسکتے ہیں مگر خاندان کے سبھی افراد قطعاً نہیں۔ یہ بات ریحانہ سے خفیہ رکھی اور اسے طلاق دینے کا فیصلہ کیا ۔ اس الزام کے ساتھ کہ ریحانہ پہلے سے ایڈز کی مریضہ تھی اُسے جان بوجھ کر نکاح کرکے گھر سے نکالا گیا۔ لہٰذہ اہل خانہ نے اُسے اُس کے گھر چھوڑ آنے کا فیصلہ کیا اور اُس بے بنیاد الزام کے ساتھ چھوڑ دیا۔ ریحانہ و ان کے اہل خانہ پر ایک عظیم غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اِس غم نے عباس بھائی پر ایسی ضرب لگائی کہ وہ اگلے ہی ماہ میں رحلت فرماگئے۔ جیسے ہی اُن کا سایہ سر سے اُٹھا دونوں بیٹوں نے اپنی اپنی اہلیہ کو لے کر شہر کا رخ کیا۔ اب ریحانہ کی والدہ صاحبہ بھی ضعیف العمر ہوچکی تھی اور ہمیشہ ہی اس بات سے فکرمند رہتی تھی کہ بیٹی دوسری دفعہ واپس آگئی وہ بھی ایک خطرناک بیماری کے ساتھ ۔ بیٹوں نے بھی روپیہ بھیجنا بند کردیا اور خیرخیریت سے بھی بے خبر رہنے لگے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ گھر کے اخراجات سے کنارہ کشی اختیار کی۔ بس اب میاں کی مختصر سی پینشن پر گھر چلانا پڑتا تھا ۔ خود کا علاج اور بیٹی کی صحت کے لیے گھر کے سبھی زیورات فروخت کردیے پھر بھی طبی اخراجات قابو میں نہ آسکے۔ ایسی مصیبت کی گھڑی میں سبھی رشتہ داروں نے اپنے تعلقات منقطع کردیے۔ اب ریحانہ کی اماں بالکل ہی تنہا ہوگئی کیونکہ جو خاندانی حسن عمل و تلقین تھی وہ ختم ہوگئی۔ جیسے ہی گاو¿ں والوں کو پتہ چلا کہ ریحانہ ایڈز کی مریضہ ہے اُنھوں نے بھی عیادت کے لیے آنا کم کم کردیا۔  اب اُن کی حالت کافی خستہ ہوگئی تھی۔ کئی لوگوں نے اپنی زکوٰة دینا شروع کردیا کچھ لوگوں نے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے مدد بھی کی۔ ماں نے اپنی طبیعت پر دھیان دینے کے بجائے بیٹی کے علاج کرنے کو ترجیح دی ۔ اس علاج کے لیے اُسے شہر جانا پڑا وہاں پھر ایک دفعہ بیٹی کے مفصل ٹیسٹ کروائے جس کی رپورٹ ملنے سے پتہ چلا کہ ریحانہ کو کینسر بھی ہے ۔ اب والدہ محترمہ پوری طرح سے ٹوٹ چکی تھی۔ اب وہ اس حالت میں جیسے بے حال ہوگئی ۔ اس خیال میں غرق ہوگئی کہ ان دو خطرناک اور جان لیوا بیماریوں کا علاج کیسے ہوگا؟ ایسی سنگین حالت میں اُس نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں سے رابطہ کیا مگر اُن سے بھی کوئی مثبت جواب نہ ملا کچھ نہ کچھ بہانے کرکے طویل و بعید ہوگئے ۔ خود ضعیف العمر ، بیٹی ایسی حالت میں اور اقتصادی حالات بد سے بدتر ہونے سے وہ خود کو سنبھال نہ سکی آخرش اُس نے بھی موت کو گلے لگالیا۔ اب ریحانہ پوری طرح سے تنہا ہوگئی۔ گاو¿ں کی ایک فلاحی مجلس نے اُس کی طبی مدد کرنا شروع کی جس سے اُس کے جسم پر زخموں کی مرہم پٹی ہی ہوتی تھی خاص کر گالوں پر۔ دن بدن اُس کے گالوں کے زخم بڑی تیزی سے بڑھ رہے تھے اگر اُس مرہم پٹی نہ کریں تو زخموں سے بہت خطرناک بدبو آتی تھی جس کی وجہ سے وہ کچھ بھی نہ کھا پاتی تھی ۔ لہٰذہ ہر دن مرہم پٹی کرنا ازحد ضروری ہوگیا تھا ۔ اسی اثناءمیں گاو¿ں کے ایک شخص نے کسی کینسر ہسپتال میں کسی ٹرسٹ کے ذریعے مفت علاج کرنے کی کوشش کی ۔ بس اُس ہسپتال کے قوانین و ضوابط کے مطابق پہلے اُس کا کسی بھی مونسپل ہسپتال میں ایڈز کے لیے رجسٹریشن ہوا ہونا چاہئے تا کہ ایڈز کی ادویات یہاں شہر میں کسی مونسپل ہسپتال سے حاصل کرسکیں ۔ دوسری شرط یہ تھی کہ اِس کا پورا پورا علاج مفت ہوگا مگر اُس کے ساتھ چوبیسوں گھنٹوں کوئی نہ کوئی محترمہ رہنی چاہئے ۔ یہ شرط شاید مشکل تھی اُس کی اپنی سگی بہنیں اُس کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں لہٰذہ اُس شخص نے بارہ بارہ گھنٹے اُس کے ساتھ رہنے والی خواتین کو تلاش کیا مگر اُن کی طلب کردہ تنخواہ معقول یا باضابطہ نہیں تھی اُس کے بڑے بھائی کو اطلاع دینے کے بعد وہ ہسپتال میں آکر دیکھا کہ ہر مریضہ کے ساتھ کوئی نہ کوئی اسکا اپنا ہے۔ میں کچھ کرتا ہوں یہ کہہ کر چلے گئے مگر کچھ نہ کیا حتیٰ کہ فون بھی نہ کیا۔ بیچاری مجبور ریحانہ گھر میں اکیلی رہتی تھی اور گھر بھی گاو¿ں کے ایک کنارے میں تھا ۔ اتنی کمزور و ناتواں ہوگئی کہ چل بھی نہیں سکتی تھی ۔ کبھی کبھار کنویں پر پانی لانے جاتی تھی تب گاو¿ں کی کچھ عورتیں اُس سے فاصلہ بنائے ہوئے تھیں۔ وہ اِس غلط فہمی میں تھی کہ اِس کی بیماری اُن تک منتقل نہ ہوجائے۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ ایڈز یا کینسر چھوت چھات سے پھیلنے والی بیماریاں نہیں ہیں۔ اگر ان کا آغاز میں علاج نہ کیا جائے تو یہ جان لیوا بن جاتی ہیں۔ علاوہ کھانا پکانا اور کھانا اُس کے لیے کافی دشوار ہوچکا تھا ۔ دوسری طرف اُس کا گال پوری طرح سے پھٹ چکا تھا ۔ آہستہ آہستہ اُس کا پھٹنا گردن کی طرف پہنچ چکا تھا ۔ شکل اُس کی کافی بھیانک ہوچکی تھی ۔ لہٰذہ ڈاکٹر اُسے ہمیشہ ڈھک کر رکھتا تھا ۔ اُسی کی ایک پڑوسی ثریا اُس کی جی بھر کے خدمت کرتی تھی ۔ دن میں دو دفعہ کھانا اور دو دفعہ چائے بسکٹ پہنچاتی تھی۔ بلکہ کھلاتی بھی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اگر اس کے پیٹ میں کھانا نہ گیا تو وہ کل کے بجائے آج ہی دم توڑ دے گی ۔ کبھی کبھی وہ اپنے پسند کا کھانا لانے کو بول دیتی تھی اور وہ فرشتہ صفت ثریا لاتی تھی اور کھلاتی بھی تھی۔ اب اُس کی عیادت کے لیے بالکل کوئی نہ آتا تھا اپنے پرائے سب دور دور ہوگئے ۔ بس صبح کے وقت ڈاکٹر آتا تھا اور ثریا کھانا لے کر آتی تھی۔ اب ریحانہ شاید سمجھ چکی تھی کہ موت اُس کے قریب آرہی ہے ۔ چوبیسوں گھنٹے وہ اپنے گھر کے دروازے کھڑکیاں کھلے رکھ کر سوتی تھی۔ ایک دن اُس نے ثریا کو بتایا کہ میں کل پرسوں دم توڑنے والی ہوں لہٰذہ سرہانے رکھے ہوئے ڈبہ میں جو کچھ روپیہ ہے وہ گاو¿ں کی مسجد کو دے دینا۔ دوسرے دن جب ثریا صبح کا ناشتہ و چائے لے کر گئی تو دیکھتی ہے کہ وہ موت کے منہ میں جاچکی ہے ۔ اُس نے گاو¿ں والوں کو بتایا تب گاو¿ں کے بہت سارے حضرات و خواتین وہاں آئے اُسے غسل دیا اور سپرد خاک کیا ۔ اُس گاو¿ں کی تاریخ کی یہ پہلی میت ہے جسے دو گھنٹے کے اندر اندر ہی دفنا دیا گیا۔موت تو سب کو آنی ہے مگر ایسی موت….؟ یقینا اللہ اُس عورت کا گھر جنت میں بنایا ہوگا جس نے اس عورت کی مرتے دم تک بڑے خلوص سے خدمت کی اور اُس کے شوہر کا ہمیشہ ہی تعاون رہا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا