چائے خانے اور الیکشن چائے خانے اور الیکشن وسیم خان وسیم 

0
0

ویسے تو ہمارے ملک ہندوستان میں ایک ہی پارلیمینٹ ہے جسمیں ایک وزیر اعظم اور اس کے کچھ ماتحت وزراءاوردیگر پارلیمانی ممبران آپس میں مل بیٹھ کر ملک کی ترقی ،خوشحالی ،ملک کے مسائل اور آئندہ حکمت عملی پر غوروخوض کرتے ہیںاور کسی نتیجے پر پہونچتے ہیںلیکن ہمارے ملک میں چائے خانے بھی کسی پارلیمنٹ سے کم حیثیت نہیںرکھتے ،بلکہ اگر کہا جائے کہ یہ چائے خانے پارلیمنٹ سے بھی زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں توبہ خدا کوئی مبالغہ نہ ہوگا،اب دیکھئے نا!پارلیمینٹ میں وزراءاورپارلیمانی ممبران ایک سلیقے کے ساتھ بیٹھ کر بحث و مباحاثے کرتے ہیں،ہر وزیر اورہر ممبرکے تقریر کرنے کی ایک مقررہ مدت طے ہوتی ہے، مذکورہ وزراءاور ممبران اسی طے شدہ مدت کے اندر اپنی بات کہہ کے خاموش ہو جاتے ہیں،جس ممبریا وزیر کے تقریر کرنے کانمبر آتا ہے تو وہ سلیقے کے ساتھ اٹھتا ہے اور اپنی بات پیش کرکے بیٹھ جاتا ہے اسی طرح باری باری باقی کے سارے ممبران بھی اپنی اپنی بات سنتے اور سناتے ہیں،سارے وزراءاور ممبران اس بات کے پا بند ہوتے ہیں کہ وہ اپنی طے شدہ مدت کی حد سے تجاوز نہ کریںگے اور اگر ایسا کوئی کرتا بھی ہے تو اسے بٹھا دیا جاتا ہے لیکن یہ چائے خانے ؟الحمدللہ ،اگر سچ پوچھو تو اصلی جمہوریت یہیںپر نظر آتی ہے،دراصل یہی وہ جگہ ہے جہاںہر شہری اپنے حق کا بھرپور طریقے سے استعمال کرپاتا ہے ،یہ وہ محفل ہوتی ہے کہ جس میں کوئی دستور زباں بندی نہیں ہوتا ،یہاں کسی کے تقریر کرنے کی کیا مدت ہوگی اس بات کا انحصار بولنے والے کی مرضی پر ہوتا ہے،یہ اور بات کہ اسکی بات کوئی سنتا بھی ہے یا نہیں،کیا بولنا ہے یہ بھی بولنے والا ہی طے کرتا ہے ،کیا مجال کہ کوئی روک سکے اور اگر کوئی روکتا ٹوکتا بھی ہے تو کوئی ضروری نہیں کہ یہ روک ٹوک مقرر کے کانوں تک پہونچے بھی۔یہ چائے خانے ملک بھر میں ہر جگہ پائے جاتے ہیںاورعام طورپر ہمیشہ آباد ہی نظر آتے ہیں،طوفان ہو،سیلاب ہو،قحط سالی ہو،کوئی بلائے ناگہانی ہو یاکچھ بھی ہو لیکن ماشاءاللہ یہ چائے خانے؟ ان چائے خانوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا یہ چائے خانے سال کے بارہ مہینے سرسبزوشاداب ہی رہتے ہیں،لیکن خاص طور سے رمضان اور الیکشن کے زمانے میں ان چائے خانوںکا حسن دوبالا ہو جاتا ہے ،گویا کہ موسم بہار آگیا ہواور رندانِ بلا کش اپنی اپنی پیاس بجھانے کی غرض سے کشاںکشاں میخانے کے دروازے تک پہونچ گئے ہوں،رمضان کا مہینہ تو خیرایک مذہبی معاملہ ہے اسلئے اس موضوع پرجرا¿ت جنبش یک قلم کس کافر کو ہو سکتی ہے ،بہرحال الیکشن اور چائے کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے ،یوں سمجھئے کہ چائے کے بغیر الیکشن اور الیکشن کے بغیر چائے کچھ مکمل نظر نہیں آتے اورادھورے رہتے ہیں ،چائے کے بغیر الیکشن کا تو تصور ہی بے کاروفضول ہے البتہ الیکشن کے بغیر چائے پی تو ضرور جاسکتی ہے لیکن وہ چائے جو الیکشن میں پی اور پلائی جاتی ہے اسکا لطف کچھ اور ہی ہوتا ہے اس بات کا اندازہ کچھ اہل ذوق ہی لگا سکتے ہیں ۔ذراتصور کیجئے کہ جب چائے کی دوکان لوگوں سے کھچاکھچ بھری ہوتی ہے ایسے میں میاں جمن اپنے ہونٹوں پرچائے کی تشنگی سجائے آدھمکتے ہیں جہاں پہلے سے ہی ان کے چند شناساغفوراورجمعراتی وغیرہ موجود ہوتے ہیں،ایسے میں جمن میاں چاہ کر بھی چائے نہیں پیتے کہ آخر تنہا چائے پئیںکیسے؟ کہ یہ آداب محفل کے خلاف ہے ،جیب بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ غفوراور جمعراتی کی چائے کا بار اٹھایا جائے جبکہ غفور اور جمعراتی صاحبان فطرتاََ ایسے واقع ہوئے ہیں کہ انھیں ذراسا اشارہ ملا کہ میاں چائے پیوگے تو بلا توقف بول پڑتے ہیں کہ ©اور نہیں تو کیا؟بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ یا پھر یہ کہ نیکی اور پوچھ پوچھ؟ ۔جمن میاں چائے کی تشنگی اپنے ہونٹوں میں دبائے کسی مناسب موقعہ کے انتظار میں رہتے ہیں کہ اچانک کوئی سیاسی لیڈر اپنا قافلہ لے کر وارد ہوتا ہے ،بس پھر کیا ،جمن میاں،غفوراور جمعراتی کی پریشانی آن کی آن میں حل ،یہ تینوں منجھے ہوئے کھلاڑی کی طرح ان لیڈر صاحب کی طرف تشکرآمیز نگاہوں سے دیکھ کر مسکرا تے ہیں اور دل ہی دل میں دعاءکرتے ہیں کہ اللہ ان لیڈر صاحب کی عمر دراز کرے،دعاءکا ذکر آیا تو اطاعاََ عرض کردوں کہ دعاءکے معاملے میں جمن میاں اور ان کے ساتھی بڑے فیاض واقع ہوئے ہیں ،بھرتی نہ بھاو¿ اوپر سے ثواب ،چائے وغیرہ کا فائدہ الگ سے۔ابھی جن لیڈر صاحب کا ذکر آیا ٹھیک اسی طرح تھوڑے وقفے کے بعد ایک دوسرے لیڈر کی تشریف آوری ہوتی ہے اور ایک بار پھر وہی چائے کی تارئخ دہرااٹھتی ہے ، یعنی لیڈرصاحب چائے پلاتے ہیں اور جمن میاں ،غفوراور جمعراتی کے دل سے دعاءنکلتی ہے ۔بعض دفعہ بلکہ اکثر دیکھا جاتاہے کہ بڑے بڑے سیاسی لیڈر ان بھی چائے خانوں کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کر پاتے اور اپنی سیاسی مہم سر کرنے کے لئے چائے خانوں کے چکر کاٹتے نظر آتے ہیں یہ سیاسی لیڈران اپنے کارندوں کو الگ الگ چائے کی دوکانوں پربٹھا دیتے ہیں جو دن بھر اپنے شکارکو چائے کی جال میں پھنسانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ،کچھ ایسے بھی سیاسی مشاق لیڈر ہوتے ہیں جو ایک مشت رقم چائے خانے کے مالک کو ادا کردیتے ہیں کہ ہر آنے والے کو یہاں تک کہ راہگیروں کو بھی بلا بلا کر انکے نام سے چائے پلاتے رہیں اس طرح غریب عوام کم سے کم الیکشن بھر مستفیض ہوتی رہتی ہے ،الیکشن میں چائے کی اہمیت وافادیت سے کبھی انکار نہیں کیا جاسکتا اسکا اندازہ یوں بھی لگایاجاسکتا ہے کہ الیکشن میں چائے کا نشہ بسااوقات شراب کے نشے سے بھی زیادہ پُراثر ہوتا ہے ۔یہ وہ جگہ ہے جہاں دن بھر سیاسی مباحاثے جاری رہتے ہیںیہاں ایسی تگڑی تگڑی بحثیںاور تکرار ہواکرتی ہیں کہ پل بھر میں سرکاریں بنائی اور بگاڑ دی جاتی ہیں ،سیاسی مباحثے کے شائقین دن بھر یہاں الیکشن کے اتار چڑھاو¿ ،باریکیوں اور دیگر مخفی پہلوو¿ں پر غوروخوض کیا کرتے ہیں اور چٹکی بجاتے امیدواروں کو فتح وشکست سے ہمکنارکرد یا کرتے ہیں ۔اپنی تمام تر صلاحیتوں اور خوبیوں کے علاوہ چائے خانوں کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ چائے خانے اچھے خاصے میڈیا ہاوس بھی ہوتے ہیں ،خبروں کی تشہیر میں یہ چائے خانے اپنا جواب نہیں رکھتے ،جس خبر کی تشہیر کرنے کی پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی ہمت نہیں ہوتی اس خبر کی تشہیر یہ چائے خانے بڑی آسانی سے کر سکتے ہیں ،مثلاََ الیکشن میں کس لیڈر نے کتنے لوگوں کی خریدوفروخت کی،پورے الیکشن میں کتنا پیسہ خرچ کرنے کا منصوبہ ہے ،الیکشن میں خرچ ہونے والے پیسوں کا ماخذ کیا ہے ،ووٹ حاصل کرنے کے لئے کہاں کتنی شراب اور ساڑیاں بانٹی جائیں گی ،کس کو کتنی رقم دے کر خریدا گیا اورکس ووٹ کے تاجر نے کتنے پیسے لے کر کتنے ووٹ دلانے کا وعدہ کیا ہوا ہے ،اس قبیل کی جتنی بھی خبریں ہوتی ہیں یہ چائے خانے بنا کسی خرچ کے نہایت آسانی سے دنیا کے کونے کونے تک پہونچادیتے ہیں ،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا جب تک ان خبروں کی تصدیق اور تحقیق یا پھر اسٹنگ آپریشن کرے گا تب تک چائے خائے خانوں کی مہربانی سے یہ خبریں باسی اور پرانی ہو چکی ہونگی ،مزیدار بات یہ ہے کہ میڈیا ان خبروں کو نشر کرنے کی ہمت تب تک نہیں جٹا سکتا جب تک کہ اسکو ثبوت وشواہد نہ فراہم ہو جائیں لیکن ماشاءاللہ چائے خانوں سے ہونے والی خبروں میں کوئی جھمیلا نہیں ۔چائے خانے الیکشن لڑرہے کسی امیدوار کی ہارجیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں یہاں ہرگھڑی تازہ دم مقررین بنا تھکے امیدواروں کے کردار پر بغیر کسی ریسرچ کے پوری وضاحت کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہارفرمایا کرتے ہیں ،یہاں سیاست کی باریکیوں پر کڑی نظر رکھنے والے ایسے ایسے تبصرہ نگار وں کی بہ آسانی زیارت و شرف گفتگو حاصل ہو سکتی ہے جو کسی امیدوار کے ماضی اور حال کی برابر خبر رکھتے ہیں بعضے تو اتنی مہارت رکھتے ہیں کہ ان پر ستارہ شناس نجومی ہونے کا شک ہونے لگتا ہے یہ ظالم ان کے مستقبل تک کی ایک ایک جانکاری رکھتے ہیں اور چائے خانوں پر فرفر بیان فرمایا کرتے ہیں ۔ایک تفتیش کے مطابق معلوم ہوا کہ چائے خانوں پر ہوا ئیںبھی بنائی اوربگاڑی جاتی ہیں، اولاََ تو یہ سن کربڑی حیرت ہوئی لیکن معلوم ہوا کہ دراصل لیڈران کی ہار اور جیت کی ہوا بنائی اور بگاڑی جاتی ہے چنانچہ اب لیڈران چائے خانوں سے بڑے پُرامید ہیں اور یہاںکی خدمات ہر حال میں حاصل کرنا چاہتے ہیں،جو لیڈر ان چائے خانوں کی خدمات حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو سمجھوانکی ہوا بن گئی پھر اسکابیڑا پار ہے جسنے کوتاہی کی اسکی یہ چائے خانے ہوا بگاڑ دیتے ہیں ،چائے خانے سے ہی یہ خبر معلوم ہوئی کہ چائے خانے کی برکت ،اہمیت ا وراسکی افادیت سے متاثر ہو کر کچھ لیڈران نے یہ عزم کیا ہے کہ چائے خانوں کوسیاسی خانقاہ کا درجہ دلایا جائے گا اور حکومت ہندوستان کو اس بات پر مجبور کیا جائے گا کہ ہر سیاسی خانقاہ میں حسب ضرورت سیاسی مجاوروں کی تعیناتی کی جائے جو ان سیاسی خانقاہوں میں ہمہ وقت ذکرواذکارمیں مصروف رہیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا