(افسانچے) "لمحہِ فِکریہ”

0
0

 

 

از-ذاکرہ شبنم-کرناٹک
Cell,9916969954
حجاب میں ملبوس مریم نے اپنی کلاس میٹ سیتا کو کالج میں ایک طرف کھڑے دیکھا تو جلدی سے اُس کے پاس پہنچ گٸ اور بیاگ سے اپنی نوٹ بُک نکال کر تھماتے ہوۓ کہا یہ لو سیتا نوٹس جو تم نے مانگی تھیں-دونوں سہلیاں کھڑی سہمی ہوٸی آپس میں باتیں کر رہی تھیں- حجاب تنازع کی محاز آراٸی کو دیکھتے ہوۓ حیران سیتا کہنے لگی یہ سب اچانک کیا ہو رہا ہے کچھ سمجھ میں نہیں آتا- ہاں-امتحان قریب ہیں ہمیں تو پڑھنا ہے- ایسے میں یہ افراتفری- مریم نے ہاں میں ہاں ملاٸی….سیتا نے مریم سےجیسے ہی نوٹ بُک لینے کے لۓ ہاتھ بڑھایا اچانک درمیان میں زعفرانی شال اوڑھے ہوۓ سیتا کا بھاٸی آگیا اور اپنی بہن کا ہاتھ پکڑے کھینچتے ہوۓ اُسے لۓ فوراً وہاں سے جانے لگا… نوٹ بُک مریم کے ہی ہاتھ میں رہ گٸ…. جدا ہوتی ہوٸی دونوں سہلیوں کی آنکھیں بے اختیار آنسوٶں سے ڈبڈبا گیٸں- اور آنسو کے قطروں کا روپ دھارے کٸ سوال اُبھر کر آنکھوں سے ٹِپ ٹِپ گرنے لگے…..!!!!

"دیمک ”

حِنا کی خواب گاہ میں بنائے گئے لکڑی کے شیلف سے دیمک کے کھانے کی کٹ کٹ کی آواز کا آنا معمول بن گیا تھا- روزانہ جیسے ہی اقبال آفیس سے گھر لوٹتا حِنا اُسکے آفیس کے احوال پوچھنے لگتی اقبال جب جب اپنی کولیگ عالیہ کا نام لیتا حِنا کے سوالات بڑھ جاتے-اور اس کے چہرہ پر شک کے رنگ نمودار ہو جاتے…..
اقبال سمجھاتا- "حِنا تم اپنی سوچ بدلو میں تمہارے یہ روز روز کے شکّی مزاج اور سوالات سے تنگ آگیا ہوں”…..
حِنا کے نت نۓ الزامات اور شک کا داٸرہ اقبال کے تیٸں وسیع ہوتا گیا-شک کی دیمک اتنی جان لیوا ہو چکی تھی جس سےاقبال کی قوتِ برداشت جواب دے گٸ –
آج اقبال کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو کر چھلک پڑا اُس کے منہ سے طلاق طلاق طلاق کے الفاظ نکل گۓ…..
اچانک اُس کے سوتے ہوئے دوسالہ بچہ پر شیلف سے وہ دیمک زدہ دستہ جسے چاٹ چاٹ کردیمک نے کھوکھلا کر دیا تھا ٹوٹ کر گر پڑا- اور معصوم بچہ بُری طرح زخمی ہوگیا….!!!

"گرگٹ اور انسان”

دونوں بھاٸی گاٶں سے شہر نوکری کے لۓ روزانہ اپنی ٹو ویلر میں صبح سویرے نکل جاتے شام گۓ ایک ساتھ ہی واپس آتے-راستے میں ایک جنگل ملتا وہیں پر ایک پیڑ کے سایہ میں بیٹھ کر ناشتہ کر لیا کرتے ایک دن جیسے ہی چھوٹے بھاٸی کی نظر پیڑ کے اوپر کی شاخ پر پڑی جہاں پر دو گرگٹ بیٹھے ہوۓ تھے- وہ گرگٹ کو رنگ بدلتے ہوۓ دیکھ کر اپنے بڑے بھاٸی سے کہنے لگا بھاٸی یہ دیکھو گرگٹ کیسے لمحوں میں رنگ بدلتے ہیں- بڑے بھاٸی نے کہا ہاں وہ گرگٹ کے رنگ بدلنے والا قول بھی تو حقیقی ہے- موقع محل دیکھ کر گرگٹ رنگ بدلتے رہتے ہیں….
پھر جب بھی وہ پیڑ کے پاس آکر بیٹھتے پیڑ کے اوپر بیٹھےگرگٹ بھی دونوں بھاٸیوں کو دیکھتے ان کی آپس میں محبت اور پیار بھری گفتگو سنتے رہتے….
آج دونوں بھاٸیوں میں والدین کی چھوڑی ہوٸی وراثت گھر اور زمین کے فروخت ہونے اور پھر شہر میں ہمیشہ کے لۓ جا کر بس جانے کی باتیں ہورہی تھیں- اِس بات سے بڑے بھاٸی سے زیادہ چھوٹا بھاٸی خوش نظر آرہا تھا- یہ سوچ کر کہ شہر میں جانے کے بعد اُس کی بھی شادی ہو گی اور اُس کا بھی گھر بس جاۓ گا….اور ایک نٸ زندگی کی شروعات ہوگی….
دوسرے دن دونوں بھاٸی معمول کے مطابق جنگل میں آۓ پیڑ کے نیچے بیٹھ کر جیسے ہی چھوٹا بھاٸی بیگ سے کھانے کا ڈبّہ نکالنے لگا- بڑے بھاٸی نے پُھرتی کے ساتھ اپنی جیب سے چُھرا نکالا اور اپنے چھوٹے بھاٸی کے سینے میں گھونپ دیا- چھوٹا بھاٸی بھیا بھیا کہتا ہوا تڑپتا ہوا دم توڑ دیا اور اُسکی نظریں درخت پر بیٹھے گرگٹوں پر جم کر رہ گیٸں- بے درد ظالم بھاٸی اطمینان کے ساتھ واپس لوٹا جارہا تھا- دونوں گرگٹ یہ منظر دیکھ کر سکتہ میں آگۓ- اور وہ اپنا رنگ بدلنا ہی بھول گۓ……!!!!

"تحفظ”

وہ اپنے لۓ سوٹ خریدنے کی خاطر اپنی فرینڈ کوساتھ لۓ چلتے ہوۓ راستے میں کہنے لگی- یار مجھے تمہارے ساتھ کے بنا کہیں بھی جانا اچھا نہیں لگتا اکیلے جانے میں مجھے پریشانی ہوتی ہے- جب اکیلی نکلتی ہوں تو کٸ بُری نگاہیں مجھے گھورنے لگتی ہیں اور کچھ اوباش تو چھیڑ خوانی پر بھی اُتر آتے ہیں- جب تم میرے ساتھ ہوتی ہو- نا- تو میں مطمٸن ہو جاتی ہوں- کیونکہ تمہاری وجہہ سے کوٸی بھی بُری نظر ہماری طرف اُٹھنے کی بجاۓ جُھک جاتی ہے- اور ہمیں کسی موڑ پر روکنے اور ٹوکنے کی کوٸی جُرات نہیں کر پاتا- بلکہ ہمارے لۓ تو راستہ چھوڑ دیا جاتا ہے-اُسکی فرینڈ نےکہا- "اوہ یہ آج اِتنی تعریف کیوں بھلا؟…
تعریف نہیں یار یہ سچ ہے- یہ احترام اور تحفظ ہمیں تمہارا پردہ تمہارا حجاب دلاتا ہے…..!!!!

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا