مودی جی کے شیشے کے گھر پر نائیڈو کا پتھراو¿

0
0

عبدالعزیز

9831439068

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ جس کا گھر شیشے کا ہو اسے دوسرے کے گھر پر پتھر نہیں پھینکنا چاہئے۔ اگر وہ پھینکتا ہے تو ایک طرح سے اپنی نادانی اور بیوقوفی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ہاں جو لوگ بھی دوسروں پر طعن و تشنہ کرتے ہیں اس سے یہ بات خود بخود مترشح ہوتی ہے کہ دوسرے پر طعن دراز کرنے والا دراصل خود اپنے آپ کو مطعون کرتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ کسی شخص کی زبان دوسرے کے خلاف بدگوئی کیلئے اس وقت تک نہیں کھلتی جب تک اس کے دل میں برے جذبات کا لاوا خوب پک کر پھوٹ پڑنے کیلئے تیار نہ ہوگیا ہو۔ اس طرح ان جذبات کی پرورش کرنے والا دوسروں سے پہلے اپنے نفس کو تو بدی کا آشیانہ بناچکتا ہے۔ پھر جب وہ دوسروں پر چوٹ کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ خود اپنے اوپر چوٹیں کرنے کیلئے دوسروں کو دعوت دے رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی اپنی شرافت کی بنا پر اس کے حملوں کو ٹال جائے مگر اس نے تو اپنی طرف سے یہ دروازہ کھول ہی دیا کہ وہ شخص بھی اس پر حملہ آور ہو، جس کو اس نے اپنی زبان کے تیروں کا ہدف بنایا ہے۔  مودی جی اکثر دوسروں کے گھر پر پتھر مارنے کے وقت اپنے شیشے کے گھر کو بھول جاتے ہیں اور جب کسی پر زبان دراز کرتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ وہ دوسروں کو دعوت دے رہے ہیں کہ وہ بھی ان پر حملہ آور ہو۔ نریندر مودی اور چندر بابو نائیڈو نے جب تک میل ملاپ تھا مودی جی کا منہ بند تھا اور مودی جی چندر بابو نائیڈو کی تعریف و توصیف کا پل باندھ دیتے تھے اور کہتے تھے کہ آندھرا پردیش کو چندر بابو نائیڈو نے بہت ترقی اور خوشحالی دی ہے جو کوئی اور دوسرا نہیں دے سکا۔ گزشتہ روز مودی جی پہلی بار چندر بابو نائیڈو کے این ڈی اے سے علاحدہ ہونے کے بعد آندھرا پردیش گئے اور ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے نائیڈو پر طعن و تشنیع ہی کے تیر نہیں برسائے بلکہ ان پر شدید قسم کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ چندر بابو نائیڈو این لوکیش کے باپ ہیں۔ انھوں نے آندھرا پردیش کے عوام کو یقین دلایا تھا کہ آندھرا پردیش کا سورج چمکے گا لیکن یہاں لوکیش کا سورج چمک رہا ہے۔ ہر ایک چندر بابو نائیڈوکی ایمانداری کے معاملے میں ان کی استادی کی تعریف کرے گا کہ وہ دولت اور جائیداد بنانے میں استاد ہیں۔ انھوں نے بہت سی جائیداد بنائی ہے مگر یہ سب اپنے بیٹے این لوکیش کیلئے اور لوکیش کا سورج واقعی چمک رہا ہے۔ سامعین کو مودی جی نے یاد دلایا کہ یہی چندر بابو نائیڈوہیں جو اپنے سسر کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا اور ان کو گدی سے بے رحمی کے ساتھ اتار دیا۔  چندر بابو نائیڈونے کل ہی مودی کے طعن و تشنیع اور الزامات کا بھرپور جواب دیا اور مودی کو خطاب کرتے ہوئے کہاکہ لوکیش میرا بیٹا ہے ۔ میں اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارتا ہوں۔ اور دیونس کا میں دادا ہوں اور بھونیشوری کا میں شوہر ہوں۔ میں اپنے خاندان پر فخر کرتا ہوں اور محبت رکھتا ہوں۔ پھر چندر بابو نائیڈونے سوال کیا کہ کیا مودی جی کا بھی کوئی خاندان ہے۔ کیا انھوں نے بھی کبھی اپنے خاندان کے بارے میں کوئی بات بتائی ہے؟ وزیر اعلیٰ آندھرا پردیش نے حاضرین سے پوچھا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ مودی جی کی کوئی بیوی ہے؟ کیا انھوں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی ہے؟ آپ جانتے ہیں کہ جسودھا بین کے شوہر نامدار ہیں؟ آپ بتائےے ہیں یا نہیں ہیں؟ مودی جی نے اپنی بیوی کو طلاق بھی نہیں دی ہے۔ اسے دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ چندر بابو نائیڈونے کہاکہ میں نریندر مودی کی ذاتی زندگی کے بارے میں کچھ بھی نہیں بولتا اگر میرے خاندان اور میری ذاتی زندگی پر کیچڑ نہ اچھالے ہوتے۔ میں عورتوں کی بہت عزت کرتا ہوں۔ میں آندھرا پردیش میں رہنے والی ہر عورت کا بڑا بھائی ہوں۔  مودی جی نے سوچا تھا کہ وہ اندھیرے میں تیر مار رہے ہیں اور کوئی دیکھ رہا ہے اور نہ سن رہا ہے۔ اور جس پر تیر برسا رہے ہیں وہ نہ زخمی ہورہا ہے اور محسوس کر رہا ہے اور سن رہا ہے۔ اس سے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مودی جی کا دماغی توازن پورے طور پر قائم و دائم نہیں ہے کیونکہ وہ ہر وقت دوسروں کے خاندان اور اس کے گھر کے اندر جھانکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نہرو خاندان جس کی ملک اور انسانیت کیلئے بہت زیادہ قربانیاں ہیں اس پر اکثر و بیشتر تیر برساتے رہتے ہیں اور طعن و تشنیع سے کام لیتے ہیں لیکن اس خاندان کے لوگ مودی جی کی باتوں کو ٹال جاتے ہیں۔ اور ان کی سمجھ میں یہ آتا ہے کہ جاہلوں کا جواب خاموشی ہے(جوابِ جاہلاں خاموشی است)۔ مودی جی نے سمجھا تھا کہ چندر بابو نائیڈوبھی ٹال جائیں گے لیکن چندر بابو نائیڈو اینٹ کا جواب پتھرسے دینے کے قائل ہیں۔ انھوں نے مودی کے شیشے کے گھر پر ایسی سنگ باری کی کہ مودی کا گھر چور چور ہوگیا۔ مودی کو بھی پتہ چلا ہوگا کہ درازیِ زبان سے ندامت اور شرمندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔  ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے کہ انہی کی پارٹی کا ایک بڑا لیڈر نیتن گڈکری اشارے ہی اشارے میں اپنی زبان سے مودی کو تیروں کا ہدف بنایااورکہاکہ جو لوگ اپنے گھر کو نہیں سنبھال سکتے وہ اتنے بڑے ملک کو کیسے سنبھالیں گے۔ مودی کو کم سے کم اپنی پارٹی کے لیڈر کا جو انہی کی پارٹی کا صدر رہ چکا ہے اس کی بات کو یاد رکھنا چاہئے تھا مگر مودی جی کی بے حیائی لگتا ہے اب عروج پر ہے۔ اور ذہنی توازن بھی کھوچکے ہیں۔ اب ان کے اندر ڈر سماچکا ہے کہ اب وہ دوبارہ آئیں گے یا نہیں؟ جس کی وجہ سے اپنے اندر کی ساری گندگی اور کیچڑ کو طیش میں آکر باہر پھینک رہے ہیں۔ اور دنیا کو بتا رہے ہیں کہ ”بیمار کا حال اچھا نہیں ہے“۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا