آزاد ہندوستان مےں مسلم خواتےن کی صورتحال

0
0

عارف عزےز(بھوپال)

کسی بھی ملک کی تعمےر وترقی مےں عورتوں کا مردوں کے برابر حصہ ہوتا ہے ، مردوں کے ساتھ عورتےں بھی سماجی اور اقتصادی مےدان مےں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرکے آگے بڑھ سکتی ہےں، جن معاشروں مےں ترقی کی رفتار سست ہوتی ہے تو سمجھ لےنا چاہئے کہ ان مےں عورتوں کو آگے بڑھنے کے پورے مواقع مےسر نہےں ہےں، جہاں تک ہندوستان کے عام معاشرہ کا تعلق ہے تو اس مےں عورتوں کی حصہ داری، دن بدن بڑھ رہی ہے لےکن مسلم معاشرہ کے بارے مےں اےسا کوئی دعویٰ کرنا اس لئے سچ نہےں ہوسکتا کہ مسلمان خود ہر مورچہ پر پچھڑتے جارہے ہےں، اسی تناسب سے ان کی عورتےں بھی دوسرے سماجوں سے کافی پےچھے ہےں، عام طور پر اس کی وجہ مذہبی بتائی جاتی ہے جبکہ یہ خالصتاً اقتصادی وسماجی مسئلہ ہے، اس سچائی کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اسلام دھرم کی عورتوں کے بارے مےں تعلےم پر ہم نظر ڈال لےں۔ اسلام دنےا کا پہلا مذہب ہے جس نے عورت کو مرد کے برابر مقام دےا ہے بلکہ سماج کی تشکےل مےں عورت کو مرد سے زےادہ اہمےت دی ہے، اسلام کی نظر مےں عورت معمار اول کا درجہ رکھتی ہے، عورت اور مرد انسانےت کی گاڑی کے دوپہےے ہےں، کسی اےک پہےے کے بغےر انسانےت کی ترقی وعروج کا تصور نہےں کےاجاسکتا، قرآن حکےم نے عورت کے حقوق اور معاشرہ مےں اس کی اہمےت پر بہت زور دےا ہے اور جو بھی احکامات دےئے ہےں، ان مےں عورت اور مرد دونوں برابر کے شرےک ہےں، اےک موقع پر اردو کے معروف اسکالر اور شاعر علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ”قرآن کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کےا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس مےں عورتوں کے حقوق اور ان کی اہمےت پر اتنا زور دےا گےا ہے کہ گوےا یہ کسی عورت کا کلام ہو، ان حقوق واختےارات کی لسٹ کافی طوےل ہے لہذا ان کے عنوانات پر ہی نظر ڈال لےنا کافی ہوگا، اسلام نے مرد اور عورتوں مےں حقوق کی مساوات رکھی ہے، عورت کی مستقل حےثےت کو تسلےم کےا ہے، سزا اور معافی مےں مرد اور عورتوں کو برابر رکھا ہے، عورت دشمن کو پناہ دےنے کا اختےار رکھتی ہے عورت کو اپنے شوہر کے انتخاب کے ساتھ ساتھ وراثت مےں بھی حق ہے، جو اسے ماں باپ اور شوہر دونوں کی طرف سے ملتا ہے۔ اسی طرح مسلم عورت کو عزت وآبرو کی حفاظت کا حق، نکاح سے گلوخلاصی کا حق اور علم حاصل کرنے کا حق ہے جس کے تحت عورت مذہبی اور عام تعلےم اسی طرح حاصل کرسکتی ہے، جس طرح مرد حاصل کرتے ہےں، اسلام جہےز دےنے کی حوصلہ افزائی نہےں کرتا پھر بھی جو لوگ دےتے ہےں وہ لڑکی کے لئے ہوتا ہے جبکہ دوسرے سماجوں مےں جہےز مردوں کا حق ہوجاتا ہے، اسلام نے عورتوں کی جسمانی (فزےکلی) کمزوری کا اندازہ لگاکر انہےں خاوند اور اولاد کے علاوہ، خاندان کے دوسرے افراد کی خدمت سے مبرا رکھا ہے، یہاں تک کہ عورت پر گھر کے کام وکاج کی ذمہ داری بھی عائد نہےں ہوتی، اےسے مثالی حقوق واختےارات کے باوجود مسلم عورتےں اگر آج پسماندگی کا شکار ہےں اور ان سے اغیار کو ہمدردی کے جاوبے جا اظہار کی ضرورت پےش آرہی ہے تو اس کی اےک وجہ تو وہی ہے جو پہلے بےان کی گئی ےعنی مسلم قوم کی عام غرےبی، مسلم عورتوں کو بااختےار وطاقتور بنانے کے ساتھ ساتھ عام مسلم مردوں کی بدحالی کی فکر بھی ہونا چاہئے، ان کے بھوکے پےٹ، کمزور جسم اور تعلےم سے محروم بچوں کا خےال بھی ضروری ہے کےونکہ اس سچائی سے انکار نہےں کےاجاسکتا کہ جب تک عام مسلمانوں کا حال درست نہےں ہوگا، ان کا معےار زندگی بہتر نہ بنے گا، نہ ان کی عورتوں کی حالت سدھرے گی ، نہ وہ اپنے بال بچوں کو پڑھا لکھا سکےںگے۔ آج یہ حقےقت تسلےم کرلی گئی ہے کہ جن فرقوں ےا نسلی گروہوں مےں آبادی بڑھنے کا تناسب زےاد ہ ہے، اس کی وجہ عام طور پر ان کی غرےبی ہوتی ہے، جس کو دور کےا جانا چاہئے، مسلم مہےلاﺅں سے ہمدردی جتانے کا اےک طرےقہ یہ بھی ہے کہ اےک سے زےادہ شادی کی مسلم پرسنل لامےں جو اجازت ہے اس پر انگلی اٹھائی جائے لےکن دوسرے سماجوں خاص طور پر پچھڑے آدےباسےوں ےا اسی طرح کے دوسرے طبقوں مےں یہ رواج مسلمانوں سے کہےں زےادہ ہے جس کی تصدےق ہوچکی ہے ۔پچھلے دنوں رےاست گجرات کے بارے مےں اےک سروے سب کے لئے باعث حےرت ثابت ہواجس مےں بتاےاگےا کہ وہاں دوسری بےوی رکھنے کا تناسب دےگر رےاستوں کے مقابلہ مےں ہندوﺅں مےں کافی زےادہ ہے۔  مےں یہاں دوسروں کی مثال نہےں دےتا صرف اپنا تجربہ بےان کرتا ہوں کہ مےرا خاندان جو بھوپال شہر کا اےک کافی بڑا خاندان ہے، اس کے ممبروں کی تعداد آج ساڑھے تےن ہزار سے کم نہےں ہوگی، اس خاندان کی سوسالہ تارےخ مےں صرف تین مثالےں اےسی سامنے آئی ہےں جن مےں ہمارے خاندان کے مردوں نے اےک سے زےادہ ےعنی دوبےوےاں بےک وقت رکھی ہےں، اس لئے یہ سوچنا مجھے صحےح نہےں محسوس ہوتاکہ مسلم عورتوں ےا مردوں کی بدحالی مےں اےک سے زےادہ بےوےاں رکھنے کا بھی کوئی حصہ ہے۔ مسلم خواتےن کے پچھڑے پن کی دوسری وجہ ان کی غرےبی سے پےدا ہونے والی جہالت ہے، اس کی وجہ سے وہ اپنے مذہب کی روشن تعلےمات سے دور ہےں ان کے کام عموماً اسلام اور اس کے ضابطوں کے عام طور پر خلاف ہوتے ہےں، اگر مسلمان اپنے مذہب پر آج کاربند ہوجائےں اور اس کی اخلاقی قدروں کو اپنالےں تو جہاں اس سے ان مےں خواندگی بڑھے گی کےونکہ اسلام نے اس پر سب سے زےادہ زور دےا ہے وہےں سماج مےں عورتوں کے اہمےت مےں بھی اضافہ ہوگا، آج قانون ساز اداروں مےں خواتےن کے لئے رےزروےشن کا مطالبہ ہورہا ہے اور اس بارے مےں دلےل یہ دی جارہی ہے کہ ہندوستان کے ڈےموکرےٹک سسٹم مےں ان کو پورا حق نہےں مل پارہا ہے، مگر عام عورتوں کے مقابلہ مےں مسلم عورتوں کی پس ماندگی کسی سے چھپی نہےں ہے تو پھر ان کے لئے بھی اےسے انتظام پر غور کےوں نہےں کےاجاتا کہ وہ بھی اپنی آبادی کے تناسب مےں چن کر پارلےمنٹ ، اسمبلی اور پنچاےتوں مےں پہونچ سکےں کےونکہ عام عورتوں کےلئے رےزروےشن کا فائدہ مسلم عورتوں کوملنا موجودہ حالات مےں ناممکن نہےں تودشوار ضرور ہے، مےرا تو یہ بھی کہنا ہے کہ آزاد ہندوستان مےں ہمدردی کی مستحق مسلم خواتےن ہی نہےں عام عورتےں بھی ہےں، ان کے مسائل اور عام عورتوں کے مسائل مےںکوئی بنےادی فرق نہےں ہے، ہمارے سماج مےںعورتوں کو نظر اندازکرنے کی رواےت صدےوں پرانی ہے اور آج اس کے نئے نئے طرےقے سامنے آرہے ہےں، یہاں لڑکی کے ساتھ اس کی پےدائش سے پہلے بدسلوکی شروع ہوجاتی ہے ، بہت سی لڑکےوں کو ماں کے پےٹ مےں ہی قتل کردےنا اب کئی گھرانوں کا رواج بن گےا ہے جس کی وجہ سے عورتوں کی آبادی کم ہورہی ہے اس کے علاوہ بچپن سے لےکر جوانی تک لڑکےوں کی دےکھ بھال ان کی تعلےم ، صحت اور ترقی وبہتری کے مختلف پہلوﺅں کو نظر انداز کردےنے کی رواےت عام ہے، اس مےں ہندو مسلم کی قےد نہےں، تامل ناڈو اور راجستھان کی بعض برادےوں مےں پےدا ہوتے ہی لڑکی کو مار دےاجاتاہے، بچپن مےں شادی کی روک تھام کے قانون کے باوجود شمالی ہند کی کئی رےاستوں مےں یہ رسم آج بھی پھل پھول رہی ہے، بہت سے کنبوں مےں لڑکےوں کی تعلےم کو یہ کہہ کر ٹال دےاجاتا ہے کہ لڑکی کو تو دوسرے خاندان مےں جاکر گھرےلو عورت کی ذمہ داریاں سنبھالنا ہے لہذا اس کو اسکول بھےجنا فضول ہے، اس حقےقت کو وہ نظر انداز کردےتے ہےں کہ تعلےم حاصل کرکے ان کی بےٹی اےک اچھی بےوی اور ماں بن سکتی ہے۔ ہندوستانی سماج مےں جہےز کی روایت اسی بات کو ظاہر کرتی ہے کہ عورت مرد سے کمتر ہے، ا س بری رسم کی وجہ سے دلہنےں آگ کا اےندھن بن رہی ہےں، عورت کی حےثےت فرےج، ٹی وی، اسکوٹر اور کار سے بھی کم ہوگئی ہے جس کے جہےز مےں نہ ملنے سے اسے خودکشی پر مجبور کردےا جاتا ہے۔ اےسا نہےں ہے کہ ہمارے سماج نے جہےز، ستی، تلک اور عصمت دری جےسی سماجی برائےوں کی روک تھام نہ کی ہو، جو عورتوں کو دوسرے درجہ کا شہرہ بنادےتی ہےں، آزادی کے بعد متعدد قانون بنائے گئے، جن کا مقصد عورتوں کے ساتھ جانبداری کو ختم کرنا تھا لےکن اگر قانون بنانے سے ہی عورتوں کا رتبہ بلند ہوجاتا تو آج ان کی صورت حال اچھی ہوتی۔ اب تک کہ تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قانون اسی وقت کامےاب ہوتا ہے جب ان کے بارے مےں سماج مےں بےداری ہو۔ کوئی ملک اور سماج کتنے مہذب معاشرہ کا حامل ہے، اس کا اندازہ چار باتوں سے لگاےاجاسکتا ہے، اتفاق سے یہ چاروں باتےں عورت سے متعلق ہےں۔ پہلی بات آبادی میں مردوں اور عورتوں کا تناسب کےا ہے؟ دوسری بات عورتوں مےں خواندگی کتنی ہے؟ تےسری زچگی کے دوران کتنی عورتےں موت کا شکار ہوجاتی ہےں؟ چوتھی زچگی کےلئے سہولتےں کےا کےا ہےں؟ افسوس یہ ہے کہ ہندوستان مےں ان چاروں باتوں کے بارے مےں وہ سمجھ پےدا نہےں ہوسکی جو ضروری تھی لہذا عورت کسی فرقہ اور مذہب سے تعلق رکھتی ہو اس کے مسائل ومشکلات اےک جےسی ہےں اور ان پر اےک ساتھ توجہ دےنا چاہئے اور اس بارے مےں صرف قانون بنادےنا ےا ان مےںتبدےلی لانا کافی نہ ہوگا کےونکہ جو قانون موجود ہےں اگر ان کا صدق دلی سے نفاذ ہوجائے تو آج صورت حال بہتر ہوسکتی ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا