گورنر کا مبینہ متعصبانہ فیصلہ، کرگل میں عوامی سیلاب سڑکوں پر امڈ آیا

0
0

سوموار کو ’کرگل بند‘ اور جموں و دلی میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان
یو ا ین آئی
کرگل جموں وکشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک کے مبینہ متعصبانہ فیصلے جس کے تحت نوتشکیل شدہ صوبہ لداخ کے تمام مرکزی دفاتر ضلع لیہہ میں کھولیں جائیں گے، کے خلاف ضلع کرگل میں اتوار کے روز بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کئے گئے جن میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ احتجاجی مظاہروں کے دوران قصبہ کرگل میں کاروباری اور دیگر سرگرمیاں کلی طور پر ٹھپ رہیں۔ ضلع میں سرگرم تمام سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیموں کی طرف سے تشکیل دی گئی ’مشترکہ مزاحمتی تحریک کرگل‘ کے بینر تلے اسلامیہ سکول چوک( مین بازار کرگل) سے بارو تک ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی اور جلسہ منعقد کیا گیا۔ احتجاجی ریلی کے شرکاءنے ایک بڑا بینر ہاتھوں میں اٹھا رکھا تھا جس پر یہ تحریر درج تھی: ’لداخ ڈویژنل سٹیٹس میں ضلع کرگل کو برابر کا حق ملنا چاہیے‘ جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں چھوٹے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔ احتجاجی ریلی کے شرکاءکو یہ نعرے لگاتے ہوئے سنا گیا:’ ہم چھین کر لیں گے اپنا حق، لے کر رہیں گے اپنا حق، ہوش میں آﺅہوش میں آﺅ گورنر انتظامیہ ہوش میں آﺅ، ستیہ پال ملک ہوش میں آﺅ ہوش میں آﺅ اور وی وانٹ جسٹس‘۔ جلسہ سے مختلف مذہبی تنظیموں بشمول امام خمینی میموریل ٹرسٹ کرگل، انجمن جمعیت علماءاثناءعشری کرگل ، انجمن صاحب زمان کرگل اور اہل سنت والجماعت کرگل سے وابستہ علماءنے خطاب کرتے ہوئے گورنر انتظامیہ کو خبردار کیا کہ اگر صوبے کے تمام دفاتر کرگل اور لیہہ میں ففٹی ففٹی کی بنیادوں پر قائم کرنے کا فوری اعلان نہ کیا گیا تو ہم ضلع مجسٹریٹ کرگل اور ایس ایس پی کرگل کی چھٹی کرنے کے علاوہ کرگل زوجیلا روڑ کو بھی بند کردیں گے۔ اس دوران ’مشترکہ مزاحمتی تحریک کرگل‘ نے 11 فروری کو کرگل بند کی کال دیتے ہوئے جموں اور قومی راجدھانی دلی میں احتجاجی مظاہروں کی کال دے دی ہے۔ واضح رہے کہ گورنر ستیہ پال ملک نے جمعہ کے روز ایک غیرمعمولی قدم اٹھاتے ہوئے خطہ لداخ کو جموں وکشمیر کا تیسرا صوبہ بنانے کے احکامات جاری کردیے ۔اس حوالے سے جاری احکامات میں کہا گیا کہ صوبہ لداخ لیہہ اور کرگل اضلاع پر مشتمل ہوگا۔ صوبے کا ہیڈکوارٹر لیہہ میں ہوگا۔ اس صوبے کے لئے ڈویژنل کمشنر (لداخ) اور انسپکٹر جنرل آف پولیس (لداخ) کی اسامیاں وجود میں لائی جائیں گی۔ دونوں(اعلیٰ سرکاری عہدیداروں) کے دفاتر لیہہ میں ہی ہوں گے۔ قابل ذکر ہے کہ ضلع کرگل مسلم اکثریتی اور ضلع لیہہ بودھ اکثریتی ہے۔ جہاں 2012 کی مردم شماری کے مطابق کرگل کی آبادی ایک لاکھ 41 ہزار ہے، وہیں لیہہ کی آبادی اس سے کم یعنی ایک لاکھ 33 ہزار ہے۔ جہاں ضلع کرگل 129 دیہات پر مشتمل ہے، وہیں ضلع لیہہ 113 دیہات پر مشتمل ہے۔ ضلع کرگل کے تمام بڑے سیاسی لیڈران بشمول چیئرمین قانون ساز کونسل حاجی عنایت علی، ترقیاتی کونسل کرگل کے چیف ایگزیکٹو کونسلر فیروز احمد خان اور کانگریس لیڈر و سابق ممبر اسمبلی کرگل حاجی اصغر علی کربلائی نے ہفتہ کے روز سرمائی دارالحکومت جموں میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران گورنر کے صوبہ لداخ کے تمام مرکزی دفاتر لیہہ میں کھولنے کے فیصلے کو کرگل کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی قرار دیتے ہوئے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے اور ہڑتال کرنے کا اعلان کردیا ۔ انہوں نے صوبے کے تمام دفاتر کرگل اور لیہہ میں ففٹی ففٹی کی بنیادوں پر قائم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر احتجاجی مظاہروں اور ہڑتالوں سے بات نہیں بنی تو جمہوری اداروں کے عہدوں پر فائر سبھی لوگ بشمول لداخ پہاڑی ترقیاتی کونسل (کرگل ) کے تمام کونسلرس، بلدیہ کے کونسلرس، پنچ اور سرپنچ احتجاجاً اجتماعی طور پر مستعفی ہوجائیں گے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ صوبے کے تمام دفاتر ففٹی ففٹی کی بنیادوں پر کرگل اور لیہہ میں قائم کئے جائیں اور روٹیشنل بنیادوں پر صوبائی کمشنر اور آئی جی پی کے دفاتر چھ ماہ کرگل اور چھ ماہ لیہہ میں کام کرنے چاہیں۔ کرگل کے لیڈران نے یہ بھی کہا کہ فیصلے پر نظرثانی تک انہیں کشمیر کے ساتھ ہی رہنے دیا جائے کیونکہ بقول ان کے لیہہ کی نسبت کرگل سے سری نگر نزدیک پڑتا ہے۔ اتوار کو قصبہ کرگل میں احتجاجی ریلی کے اختتام پر مذہبی اور سیاسی جماعتوں کا وفد ضلع مجسٹریٹ کرگل سے ملا اور انہیں اپنے مطالبات پر مبنی میمورنڈم پیش کیا۔ اس سے قبل انجمن جمعیت علماءاثناءعشری کے صدر شیخ ناظر مہدی محمدی نے ریلی کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے کہا ’اگر ہمارے مطالبات پورے نہیں کئے گئے تو ہم یہاں سے ڈی سی کو بھی چھٹی کریں گے، ایس پی کو بھی چھٹی کریں گے۔ ہم کرگل زوجیلا روڑ بھی بند کریں گے۔ ہم حکومت سے کہیں گے کہ ہمیں اپنے حساب سے جینے دو۔ ہمیں آپ کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر آپ کو ہماری ضرورت نہیں تو ہمیں بھی آپ کی ضرورت نہیں ‘۔ دوسرے مقررین نے کہا کہ پرامن کرگل کے لوگوں کے حقوق پر شب خون مارا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا ’صوبے کے تمام دفاتر لیہہ میں قائم کرنا کرگل کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہے۔ ہمارے حقوق پر شب خون مارا گیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جب بھی خطہ لداخ کی بات اٹھتی ہے تو مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو صرف لیہہ ہی نظرآتا ہے۔ جب کرگل کے طالب علموں نے یونیورسٹی کے لئے احتجاج شروع کیا تو حکومت نے لداخ یونیورسٹی تو دے دی لیکن ساتھ ہی یہ اعلان کیا کہ اس کا ہیڈکوارٹر لیہہ ہوگا۔ ڈویژنل سٹیٹس ہمارا ایک دیرنہ مطالبہ تھا۔ لیکن جب اس کا اعلان کیا گیا تو کہا گیا کہ اس کے دفتر مراکز لیہہ میں قائم کئے جائیں گے‘۔ مقررین نے کہا ’ستیہ پال ملک نے کرگل کو اکسانے کا قدم اٹھایا ہے۔ کرگل ہمیشہ امن کا گہوارہ رہاہے۔ ہم سوئے ہوئے شیر ہیں۔ جب جھاگ جاتے ہیں تو اپنے حقوق چھین کر لیں گے‘۔ مقررین نے کہا کہ ’ہم بھیک نہیں بلکہ اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ ہمیں 1947 سے محرومیت کا سامنا ہے۔ جب بھی لداخ کے نام پر کچھ دیا جاتا ہے تو وہ لیہہ کو دیا جاتا ہے۔ ہمارے تمام نمائندے جموں میں خیمہ زن ہیں، کل وہ بھی احتجاج کریں گے۔ ہم یک جٹ ہوکر اپنے سارے حقوق لے کر رہیں گے‘۔ دریں اثنا ضلع کرگل میں گاڑیوں میں نصب لاﺅڈ اسپیکروں کے ذریعے 11 فروری کو ہڑتال اور احتجاجی مظاہروں کی کال دی گئی۔ ضلع میں لاﺅڈ اسپیکروں کے ذریعے یہ اعلان کرتے ہوئے سنا گیا ’مرکزی اور ریاستی حکومت نے ایک بار پھر ضلع کرگل کو نظرانداز کرتے ہوئے ڈویژن کا ہیڈکوارٹر لیہہ میں قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 11 فروری کو جموں اور دہلی میں ریلی کے اہتمام کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مشترکہ مزاحمتی تحریک کرگل کی طرف سے کرگل بند کا اعلان کیا گیا ہے۔ ٹرانسپورٹروں ، تاجروں اور سرکاری محکموں سے اپیل ہے کہ وہ ہڑتال کو کامیاب بنائیں‘

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا