صوبے کے تمام دفاتر ففٹی ففٹی بنیادوں پر قائم کرنے کا مطالبہ
کہا ’ احتجاج سے بات نہیں بنی تو تمام جمہوری عہدوں سے احتجاجاًمستعفی ہوجائیں گے‘
یواین آئی
جموں ضلع کرگل کے تمام بڑے سیاسی لیڈران نے گورنر ستیہ پال ملک کے صوبہ لداخ کے تمام دفاتر لیہہ میں کھولنے کے فیصلے کو کرگل کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی قرار دیتے ہوئے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے اور ہڑتال کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ انہوں نے صوبے کے تمام دفاتر کرگل اور لیہہ میں ففٹی ففٹی کی بنیادوں پر قائم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر احتجاجی مظاہروں اور ہڑتالوں سے بات نہیں بنی تو جمہوری اداروں کے عہدوں پر فائر سبھی لوگ بشمول لداخ پہاڑی ترقیاتی کونسل (کرگل ) کے تمام کونسلرس، بلدیہ کے کونسلرس، پنچ اور سرپنچ احتجاجاً مستعفی ہوجائیں گے۔ ریاستی گورنر کی طرف سے خطہ لداخ کو صوبے کا درجہ دینے کے رسمی اعلان کے محض ایک روز بعد ہفتہ کو یہاں کرگل کے تمام بڑے سیاسی لیڈران بشمول چیئرمین قانون ساز کونسل حاجی عنایت علی، ترقیاتی کونسل کرگل کے چیف ایگزیکٹو کونسلر فیروز احمد خان اور کانگریس لیڈر و سابق ممبر اسمبلی کرگل حاجی اصغر علی کربلائی کے درمیان میٹنگ ہوئی۔ میٹنگ کے بعد تینوں لیڈران نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لداخ کو صوبے کا درجہ دینے کا مطالبہ سب سے پہلے کرگل کی طرف سے سامنے آیا، لیکن جب صوبہ دیا گیا تو اس کے سبھی دفاتر لیہہ میں قائم کرنے کا اعلان کیا گیا جو کہ کرگل کے ساتھ ایک بہت بڑی ناانصافی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ صوبے کے تمام دفاتر ففٹی ففٹی کی بنیادوں پر کرگل اور لیہہ میں قائم کئے جائیں اور روٹیشنل بنیادوں پر صوبائی کمشنر اور آئی جی پی کے دفاتر چھ ماہ کرگل اور چھ ماہ لیہہ میں کام کرنے چاہیں۔ کرگل کے لیڈران نے کہا کہ فیصلے پر نظرثانی تک انہیں کشمیر کے ساتھ ہی رہنے دیا جائے کیونکہ بقول ان کے لیہہ کی نسبت کرگل سے سری نگر نزدیک پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا ’جہاں کرگل سے لیہہ 230 کلو میٹر دور ہے، وہیں سری نگر صرف 200 کلو میٹر دور ہے‘۔ واضح رہے کہ گورنر نے جمعہ کے روز ایک غیرمعمولی قدم اٹھاتے ہوئے خطہ لداخ کو جموں وکشمیر کا تیسرا صوبہ بنانے کے احکامات جاری کردیے ۔اس حوالے سے جاری احکامات میں کہا گیا کہ صوبہ لداخ لیہہ اور کرگل اضلاع پر مشتمل ہوگا۔ صوبے کا ہیڈکوارٹر لیہہ میں ہوگا۔ اس صوبے کے لئے ڈویژنل کمشنر (لداخ) اور انسپکٹر جنرل آف پولیس (لداخ) کی اسامیاں وجود میں لائی جائیں گی۔ دونوں(اعلیٰ سرکاری عہدیداروں) کے دفاتر لیہہ میں ہی ہوں گے۔ قابل ذکر ہے کہ ضلع کرگل مسلم اکثریتی اور ضلع لیہہ بودھ اکثریتی ہے۔ ترقیاتی کونسل کرگل کے چیف ایگزیکٹو کونسلر فیروز احمد خان نے پریس کانفرنس کو بتایا کہ ہم گورنر کے یکطرفہ فیصلے کی مذمت کرتے ہیں اور اس میں فوری نظرثانی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’لداخ کو صوبے کا درجہ دینا ہمارا ایک دیرینہ مطالبہ تھا۔ کرگل کی تمام سیاسی ، مذہبی اور سماجی تنظیموں نے اپنا یہ مطالبہ گورنر ستیہ پال ملک، چیف سکریٹری اور دیگر عہدیداروں کے سامنے رکھا تھا۔ ہمارا بنیادی مطالبہ تھا کہ ڈویژنل کمشنر اور آئی جی پی کے دفاتر دونوں اضلاع میں قائم کئے جائیں اور ان کو روٹیشنل بنیادوں پر رکھا جائے۔ چھ ماہ کرگل اور چھ ماہ لیہہ میں۔ ہم نے یہ تجویز بھی دی کہ یہ دفاتر موسم گرما کے دوران کرگل اور سرما کے دوران لیہہ میں کھلے رہنے چاہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لیہہ میں فضائی کنکٹیوٹی اچھی ہے۔ ہم نے یہ تجویز بھی سامنے رکھی تھی کہ باقی سبھی دفاتر ففٹی ففٹی کی بنیادوں پر کھولے جائیں۔ اگر بیس دفاتر کھولنے مطلوب ہوں تو دس دفاتر کرگل اور دس دفاتر لیہہ میں کھولے جائیں۔ لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ انہوں نے جو ایس آر او 110 نکالا ہے ، اس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ لداخ کو صوبے کا درجہ دیا گیا ہے اور اس کا ہیڈکوارٹر لیہہ ہوگا‘۔ انہوں نے کہا ’ہم کرگل کی جتنی بھی سیاسی ، مذہبی اور دوسری جماعتیں ہیں، ہم اس یکطرفہ فیصلے کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم گورنر صاحب، چیف سکریٹری اور تمام دیگر متعلقین سے گذارش کرتے ہیں کہ آپ اس پر نظرثانی کریں۔ ہم نہیں کہتے ہیں کہ آپ لیہہ کو مت دیجئے۔ لیکن آپ کو ڈویژنل کمشنر اور آئی پی کے دفاتر کو روٹیشنل بنیادوں پر رکھنا ہوگا‘۔ فیروز خان نے بڑے پیمانے کے احتجاجی مظاہروں کا اعلان کرتے ہوئے کہا ’مطالبات منوانے کے لئے پورے ضلع کرگل کے لوگ یکجا ہیں۔ ہم احتجاج کریں گے۔ ہم بڑے پیمانے کے احتجاجوں کے لئے بھی تیار ہیں۔ اگر پھر بھی فیصلے پر نظرثانی نہیں کی گئی تو تمام جمہوری اداروں کے عہدوں پر فائر لیڈران بشمول لداخ پہاڑی ترقیاتی کونسل (کرگل)کے تمام کونسلر، بلدیہ کے کونسلرس اور تمام پنچ و سرپنچ مستعفی ہوجائیں گے‘۔ انہوں نے کہا ’یہ ہمارے ساتھ سراسر ناانصافی ہے اور ہم اس کو برداشت نہیں کریں گے۔ یہ ہمارا جائز مطالبہ ہے کہ جب آپ لداخ کی بات کرتے ہیں تو اس میں لیہہ اور کرگل کا برابر حصہ ہونا چاہیے۔ آپ لداخ کے نام پر سب کچھ لیہہ کو نہیں دے سکتے۔ ہم اب بڑے پیمانے پر احتجاج کریں گے۔ ہم کوئی الگ چیز نہیں مانگ رہے ہیں بلکہ اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ میں یہاں پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ صوبے کا مطالبہ سب سے پہلے کرگل کی عوام نے کیا تھا۔ ہم کرگل والے کبھی بھی ریاست کو تقسیم کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ آپ ہمیں فی الوقت کشمیر کے ساتھ ہی رکھئے۔ ہمیں یہ فیصلہ بالکل منظور نہیں ہے۔ ہم جس طرح ہیں، ہمیں اسی طرح رہنے دیا جائے‘۔ چیئرمین قانون ساز کونسل حاجی عنایت علی نے کہا کہ کرگل واسیوں کے ساتھ ناانصافی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا’ہمارے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہوئی ہے۔ یہ ناانصافی ہمیشہ ہمارے ساتھ ہوتی آئی ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کرگل والے شریف ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کا گھلا گھونٹ دیا جائے۔ میری بھی یہی گذارش ہے کہ گورنر صاحب جلد از جلد معاملے پر نظرثانی کریں ۔ ہم ریاست کی سبھی جماعتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہمارا ساتھ دیں‘۔ کانگریسی لیڈر حاجی اصغر علی کربلائی نے کہا کہ لداخ کے نام پر سبھی چیزیں لیہہ کو دی جاتی ہیں، جو کہ بہت بڑی ناانصافی ہے۔ ان کا کہنا تھا ’ہم نے اس ملک کے لئے قربانیاں دی ہیں۔ کرگل کے لوگوں نے ہمیشہ دیش کے لئے قربانیاں دی ہیں اور دیتے رہیں گے۔ لیکن بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ جب بھی کرگل کے حقوق کی بات آتی ہے ، تو کرگل کو نظرانداز کرکے لداخ کے نام پر ساری چیزیں لیہہ کو دی جاتی ہیں۔ مشترکہ طور پر کرگل اور لیہہ کے لوگوں نے سینٹرل یونیورسٹی کا مطالبہ سامنے رکھا ، لیکن جب دینے کی باری آئی تو آپ نے یونیورسٹی ایکٹ میں لداخ یونیورسٹ ایٹ لیہہ کا نام رکھا۔ اس میں بھی کرگل کے لوگوں کو کلی طور پر نظرانداز کیا گیا‘۔ انہوں نے کہا ’گورنر صاحب نے ایس آر او کے ذریعے لداخ کو تیسرا صوبہ ڈکلیئر کیا۔ لداخ کے دو اضلاع ہیں کرگل اور لیہہ۔ لداخ لیہہ نہیں ہے۔ لیکن جب دینے کی بات آئی تو ہر ایک دفتر کا ہیڈکوارٹر لیہہ میں رکھا گیا ہے۔ ہم ہیدکوارٹرز کو یکطرفہ طور پر لیہہ کو دینے کے بالکل خلاف ہیں‘۔ اصغر کربلائی نے کہا کہ کرگل کے لئے لیہہ سے زیادہ سری نگر نزدیک ہے۔ ان کا کہنا تھا ’کرگل سے سری نگر محض دو سو کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ کرگل سے لیہہ 230 کلو میٹر دوری پر واقع ہے۔ لیہہ میں صوبے کا ہیڈکوارٹر کھولنے سے کرگل کا کیا فائدہ ہوگا؟‘۔ انہوںنے مزید کہا ’آج کرگل کی تمام سیاسی جماعتیں کانگریس، این سی ، بی جے پی اور پی ڈی پی ایک صفحے پر ہیں۔ ہم نے میٹنگ میں فیصلہ لیا کہ اگر ہیڈکوارٹرز سے متعلق فیصلہ پر نظرثانی نہیں کی گئی ، برابر کا حصہ نہیں ملا تو ہم تمام جمہوری عہدوں سے استعفیٰ دے دیں گے۔ بڑے پیمانے پر ہڑتال ہوگی، دکانیں بند رہیں گی، سارے لوگ سڑکوں پر نکلیں گے‘۔