قیصر محمود عراقی
قارئین محترم ! آپ سب بخوبی جانتے ہیں کہ ہر آباد شہر ، جہاں انسانوں کی آبادی ہو ، وہاں دو چیزوں کی ضرورت ہو تی ہے اور ان دو چیزوں سے کوئی تمدن اور محفوظ ، وسیع اور آباد شہر خالی نہیں ہے ، ایک شفا خانے اور دوسرا تھانے۔ لیکن ایک تیسری چیز ہے جس کی طرف سب کی تو جہ نہیں ہے اور وہ ان دونوں سے زیادہ خطر ناک ہے ، وہ ہے ، جہالت ، یعنی آدمی اپنے پیدا کر نے والے ہی کو نہ پہنچاننے ، اسکی صفات کو نہ جا نے اور اس کی قدرت سے ، اس کہاری سے ، اس جباری سے اور اس کے رحم و مہربانی سے اچھی طرح واقف نہ ہو ں ، اس کی ذات سے ، صفات و مبادی سے واقف نہ ہوں اور وہ اس کے سوا کسی دوسرے ہستی کے سامنے سر جھکائے ۔ آج کوئی پتھر کے سامنے سر جھکا رہا ہے ، کوئی درختوں کے سامنے سر جھکا رہا ہے ، کوئی نانوروں کے سامنے سر جھکا رہا ہے ، تو سب سے بڑی بیماری بلکہ سب سے بڑا جرم کہیں تو وہ جہالت ہے ۔
ہم شفا خانوں کی ضرورت و اہمیت کا انکار نہیں کر سکتے کیونکہ شفا خانے انسانی ضرورت کی تکمیل کا سامان ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فضل بھی ہے اور دنیا کی ضرورت بھی ہے کہ انسان تندرست رہے ، کام کرے ، محنت کر ے ، اس لئے شفا خانے ضروری ہیں ، اور ذرا شرم کے ساتھ کہنا پڑتا ہے بلکہ سر جھکا کر کہنا پڑتا ہے اور معزرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تھانے مبھی ضروری ہیں ۔ بڑے عیب کی بات ہے اور یہ زندگی کا بہت بڑا نقص اور بہت بڑا خلا ہے بلکہ یہ سمجھیئے کہ زندگی اور انسانی شرافت پر ایک دھبہ ہے کہ تھانوں کی بھی ضرورت ہو ، لیکن کیا کیا جائے انسان کی فطرت ہے کہ اس سے غلطی ہو جا تی ہے اوروہ حد سے بڑھ جا تا ہے اور دوسروں پر ہاتھ اٹھا لیتا ہے ، کسی کو چوری کی لت پڑ جا تی ہے اور کسی کا جرم کر نے کا مزاج بن جا تا ہے ، ویسے یہ چیزیں بری ہیں لیکن یہ انسان کی زندگی کا خاصہ ہیں ، کوئی زمانہ اس سے بچا نہیں ہے ، ہاں یہ ہوا ہے کہ جہاں اللہ نے ہدایت پھیلائی یعنی جہاں علم کی دولت عطا فرمائی ، علم کے خزانے جہاں پیدا کئے وہاں شفا خانے بنوائے اور جہاں جہالت کے مارے نہو ئے لوگوں سے جو قصور ہو جا تے ہیں ان کے لئے تھانے بھی بنوائے ، لیکن وہ تھانے کیسے ہیں ؟ وہ تھا نے ایسے نہیں ہیں کہ جرم ہو جا ئے تو پھر اس کو سزا دیں بلکہ وہ جرم کا جذبہ ،، جرم کا شوق اور جرم کی جو اس میں کشش ہے اور اس میں جو انسانی ضروریا ت کے فائدے ہیں ان کو نظر سے گرائیں اور اس کی نوبت بھی نہ آنے دیں اسلئے یہ جو دینی مدارس ہیں یہ انسانی ضروریات کی ایک اہم تر ین ضرورت ہے اگر یہ کہا جا ئے کہ شفا خانے ، تھانوں سے بھی زیادہ ضروری ہیں تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہو گا ، اسلئے کہ انسان اگر آیا ہے تو اس دنیا سے جا ئے گا ، اگر کوئی بیمار ہے تو اس کو علاج بھی کرا نا ہو گا ، تو اس طرح یہ شفا خانے انسانی ضروریات میں سے ہیں اور اسی وجہہ سے مجبوری کی بنا پر تھانے بھی ضروری ہیں ۔
قارئین محترم ! شفا خانے اور تھانے یہ دونوں اپنا کام اس وقت تک پورا نہیں کر سکتے جب تک کہ ایک تیسرا شفا خانہ جو روح کا شفا خانہ ہے ، دماغ کا شفا خانہ ہے ، دل کا شفا خانہ ہے اور اعمال انسانی اور اخلاق کا شفا خانہ ہے ، یہ جب تک قائم نہ ہوں شفا خانے اور تھانے مفید نہیں ۔ اس لئے اگر شفا خانوں میں احتیاط نہ ہو نے کی بنا پر ، علاج نہ ہو نے کی بنا پر مریض بڑھینگے ، مرض بڑھیگا تو تھانوں میں مجرم ، چور ، ڈاکو ، رہزن اور ظلم و تشدد کر نے والے بڑھینگے ۔ اس طرح تیسرا شفا خانے مدارس ہیں اگر مدارس قائم نہ ہوں تو انسان کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے اور وہ یہ کہ لوگ اپنے پیدا کر نے والے کو نہ پہچانے ، اس کی صفات کو نہ جا نے ، ایمان و کفر کا فرق نہ جا نے ، توحید و شرک کا فرق نہ جا نے ، حق و باطل کا فرق نہ جا نے ، حلال و حرام کا فرق نہ جا نے ، فرض و واجب اور نفل کا فرق نہ جا نے ، وہ نہ فرائض سے واقف ہو ، نہ عبادات سے واقف ہو اور نہ اس کو یہ معلوم ہو کہ نماز پڑھنا فرض ہے اور نہ پڑھنا ہی اس کو آتا ہو تو اس قسم کی پچا س بیماریاں ہیں جن کا تعلق ان شفا خانوں سے ہے جسے مدارس کہتے ہیں ۔ اگر مدارس نہیں ہو نگے تو ایک دوسرے کے اندر اجتماعی مفاد کا خیال نہیں رہے گا ، یہ ہمارے مدارس ہی ہیں جو صرف ملت کی ضرورت نہیں بلکہ ملک کی بڑی ضرورت ہیں ، ان مدرسوں سے ملک کی سالمیت قائم ہیں ، ہمارے مدرسوں سے ایک شخص پڑھ کر نکلتا ہے تو وہ کتنوں کو انسان بناتا ہے ، تہذیب سکھاتا ہے ۔غور کر نے سے معلوم ہو تا ہے کہ مدارس سے جہاں دین کی بقا مربوط ہے وہیں انسانیت کی بقا بھی مر بوط ہے ۔ مدارس اسلام کی قلعے ہیں ، یہیں سے وہ افراد تیار ہو تے ہیں جو دین و ملت اور ملک و وطن کی بیش بہا خدمات انجام دیتے ہیں ، زندگی کے ہر محاذ پر وہ اللہ کے مخلص بندے اور ہر ہر قدم میں اس کا لحاظ کر نے والے ہو تے ہیں ۔ دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ اسلام کے آنے سے قبل کیا حالت تھی اور اسلام آنے کے بعد کیا ہی رُت بدل گئی ۔ رسول ﷺ کی تعلیمات و ہدایات سے آراستہ ہو کر جب مدرسہ سے فارغ کوئی طالبنن علم زندگی کے مختلف میدانوں میں قدم رکھتا ہے تو اس کی شان ہی کچھ اور ہو تی ہے اور وہ ہر معاملہ میں دین کے پہلو کو غالب رکھنے کی کوشش کر تا ہے اور دنیا کے عمل کو بھی دین بنانے کی کوشش کر تا ہے ۔
قارئین آج کل بہت سی بستیاں ایسی ہیں جن کا علم سے کوئی تعلق نہیں رہ گیا ہے اور جب علم سے کوئی متعلق نہیں رہ گیا اور کہنے کو چاہے وہ مسلمان ہوں لیکن صحیح معنوں اگر دیکھا جا ئے تو مسلمان نہیں ہیں ۔ اس لئے کہ وہ کچھ بھی نہیں جانتے ، کلمہ نہیں جا نے ، کلمہ یاد نہیں ، معنی یاد نہیں تو کیسے مسلمان ہیں ؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کا کر م ہے کہ جگہ بہ جگہ مدارس قائم کر وادیئے اور مدرسے میں کام کر نے والے علماء کرام اپنا کام کر رہے ہیں ، محنت کر رہے ہیں ، اللہ نے ان کو کھڑا کیا اور بچے یہاں پڑھ رہے ہیں ۔ آج اگر ہم تو جہہ کریں ، استاد بھی تو جہہ کریں اور آپ بھی توجہہ کر ینگے تو بچے درجے طئے کرینگے اور بلند ہو تے جا ئینگے ۔ آپ خود دیکھینگے ، آپ کی آنکھیں روشن ہو جائینگی کہ آپ کا بچہ کہاں تھا اورکہاں پہنچ گیا ہے ، کل تک جو بچہ معمولی تھا ، کچھ نہیں جا تا تھا ، نہ کھانے کا سلیقہ نہ پہننے کا سلیقہ لیکن اس مدرسے کی بدولت اور مدرس کی نگرانی میں ایسا بڑھتا چلا گیا کہ لوگ اس کی پیروی کر نے لگے ۔ اس لئے مدرسوں کو چلانے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی اچھے انداز سے کام کریں ، بچوں کو اپنا بچہ سمجھیں اور ان کا بنانے و سنوارنے کی پوری کوشش کریں ، انشاء اللہ یہ بچے کل کے ذمہ دار ہو نگے اور بڑے بڑے عہدوںپر فائض ہو نگے اور ایک دن پوری انسانیت کی رہنمائی کرینگے ۔
کریگ اسٹریٹ ، کمرہٹی ،کولکاتا ۔ ۵۸
Mob: 6291697668
٭٭٭