سپریم کورٹ کے خلاف پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے ایک جج کے ’نامناسب‘تبصرے کو سپریم کورٹ نے ہٹا دیا
یواین آئی
نئی دہلی؍؍سپریم کورٹ نے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے ایک جج کی طرف سے سپریم کورٹ کے خلاف کیے گئے تبصروں کو ’’مکمل طور پر نامناسب‘‘،’’قابل مذمت‘‘اور توہین عدالت کے استعمال کے مساوی مانتے ہوئے بدھ کو انہیں ہٹانے کا حکم دیا۔چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گاوائی، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس ریشی کیش رائے کی بنچ نے (سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس) معاملے کی سماعت کے بعد کہاکہ وہ اپنے آئینی فرض کے مطابق اس معاملے میں مداخلت کرنے کی پابند ہے، کیونکہ تبصرے اس کے اختیار کو کمزور کرتے ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے ان تبصروں کو تشویشناک قرار دیا اور کہا کہ ان سے عدالتی عمل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے اور اسے امید ہے کہ مستقبل میں کچھ احتیاط برتی جائے گی۔بنچ نے کہا، ’’ہمیں امید ہے کہ عدالت کو مستقبل میں اسی جج یا اس ملک میں کسی دوسرے جج کے سلسلے میں اسی طرح کے کیس میں مداخلت نہیں کرنی پڑے گی۔‘‘
عدالت عظمیٰ کے پانچ سینئر ترین ججوں کی بنچ نے 17 جولائی کو دیے گئے ایک حکم میں پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے جسٹس راجبیر سہراوت کے کچھ تبصروں کو خارج کر دیا۔ہائی کورٹ کے اس جج نے سپریم کورٹ کے اس نظریے کو مسترد کر دیا تھا کہ ’’وہ خود کو حقیقت سے زیادہ ’اعلی‘سمجھتی ہے اور ہائی کورٹ کو آئینی طور پر اس سے کم ’اعلیٰ‘سمجھتی ہے۔‘‘عدالت عظمیٰ نے منگل کو’پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے 17 جولائی 2024 کے حکم اور ذیلی امور کے سلسلے میں‘ ازخود معاملہ درج کیا تھا۔
پانچ رکنی بنچ نے کہا، ’’عدالتی نظام کی درجہ بندی کی نوعیت کے تناظر میں عدالتی نظم و ضبط کا مقصد تمام اداروں کے وقار کو برقرار رکھنا ہے، چاہے وہ ڈسٹرکٹ کورٹ ہو، یا ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ،‘‘۔بنچ نے کہا، ’’ایسی صورت حال میں (جہاں اس عدالت کے اختیار کو مجروح کیا جا رہا ہے) یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم عدالتی درجہ بندی کے تقدس کو برقرار رکھیں۔ اس لیے ہم جسٹس شیراوت کے تبصروں کو ہٹاتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ احتیاط برتی جائے گی۔
بنچ نے واضح کیا کہ عدالت عظمیٰ کے حکم کی تعمیل پسند کا معاملہ نہیں ہے بلکہ آئینی ذمہ داری کا معاملہ ہے۔بنچ نے کہا کہ فریقین کسی حکم سے ناراض ہو سکتے ہیں۔ اعلیٰ آئینی فورم کے حکم سے جج کبھی ناراض نہیں ہوتے۔ اس طرح کے تبصروں سے پورے عدالتی نظام کی بدنامی ہوتی ہے۔ اس سے نہ صرف اس عدالت کا وقار متاثر ہوتا ہے بلکہ ہائی کورٹ کا وقار بھی متاثر ہوتا ہے۔بنچ نے اٹارنی جنرل آر وینکٹرمنی اور سالیسٹر جنرل تشار مہتا کے دلائل سننے کے بعد کہا کہ اگرچہ تبصرے توہین کی حد پرتھے، لیکن وہ تحمل کا مظاہرہ کرنے پر مائل تھی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ہائی کورٹ کی ایک ڈویژن بنچ نے پہلے ہی جج کے حکم کا از خود نوٹس لیا تھا اور اس پر روک لگا دی تھی۔
بنچ نے کہا، ’’ہمیں پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کی سنگل بنچ کی طرف سے دیے گئے تبصروں سے دکھ ہوا ہے۔ یہ تبصرے سپریم کورٹ کے حکم کے سلسلے میں کیے گئے ہیں۔‘‘سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ سنگل جج کی کارروائی کا ایک ویڈیو کلپ پہلے ہی گردش میں ہے۔مسٹر وینکٹرمنی نے کہا کہ ہائی کورٹ کے جج کی طرف سے ’’کچھ خلاف ورزی‘‘ہوئی ہے، جو کہ نامناسب ہے۔ مسٹر مہتا نے کہا کہ ویڈیو کلپ ’’سنگین توہین‘‘کا معاملہ بناتا ہے کیونکہ یہ طرز عمل نہ صرف عدالتی وقار اور عدالتی نظم و ضبط کے خلاف ہے بلکہ توہین آمیز بھی ہے۔بنچ نے اپنے حکم میں کہا، "لائیو ٹیلی کاسٹ کے اس دور میں، ضروری ہے کہ ججز کارروائی کے دوران زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں، کیونکہ تبصرے سے عدالتی عمل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ مستقبل میں کچھ حد تک احتیاط برتی جائے گی۔ "ہم اس مرحلے پر کسی بھی عدالتی انکوائری کی ہدایت کرنے سے گریز کرتے ہیں، لیکن آئینی فرض کے مطابق ہم مداخلت کرنے کے پابند ہیں۔